تاریخ کی چوری؛ لبنان اور شام میں اسرائیل کی توسیع پسندی کا ہتھیار

اسرائیل میں صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ہر چیز صہیونی مفادات اور مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس رژیم کے ماہرین آثارِ قدیمہ بھی دیگر ملکوں کی تاریخ چراتے ہیں تاکہ اپنے قبضے اور جارحیت کو جواز فراہم کر سکیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسرائیل میں صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ہر چیز صہیونی مفادات اور مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس رژیم کے ماہرین آثارِ قدیمہ بھی دیگر ملکوں کی تاریخ چراتے ہیں تاکہ اپنے قبضے اور جارحیت کو جواز فراہم کر سکیں۔
فارس پلس گروپ کی رپورٹ:
اسرائیل کبھی بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے کسی بھی طریقے یا وسیلے کے استعمال سے دریغ نہیں کرتا، اور یہ صہیونیت کی تحریک کے آغاز سے ہی اس کا بنیادی رویہ رہا ہے۔ آثارِ قدیمہ کے علم کا سیاسی اور فائدہ مند استعمال اسرائیل کا پرانا ہتھکنڈہ ہے، لیکن حالیہ علاقائی واقعات، خاص طور پر شام اور لبنان میں، اس ہتھیار کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے تاکہ بہت سی چوریوں اور حملوں کو جواز فراہم کیا جا سکے۔
کہانی نومبر 2024 کی ہے، جب اسرائیل کا مشہور ماہرِ آثارِ قدیمہ “زئیو ارلیخ” جنوبی لبنان میں ہلاک ہوا۔ اس کی ہلاکت کے بعد یہ سوال اٹھا کہ وہ میدانِ جنگ میں کیا کر رہا تھا؟ چند دن بعد انکشاف ہوا کہ وہ شہر “صیدا” میں یہودی آثار کی تلاش کے ایک مشن پر تھا۔ انہی واقعات کے ساتھ اسرائیل نے کھل کر یہ مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ شام میں موجود یہودی آثار کو اسرائیل واپس لایا جائے۔

آثارِ قدیمہ کا سیاسی استعمال: ہمسایہ ممالک میں مداخلت کی تمہید

اسرائیل نے اپنے قیام کے آغاز سے ہی اپنے غاصبانہ تسلط کو مسلط کرنے کے لیے ہر ممکن ہتھیاروں کا استعمال کیا ؛ چاہے وہ فلسطینی، لبنانی یا شامی زمینوں کی چوری ہو یا ان ممالک کی تاریخ کو مسخ کرنا ہو۔ اسرائیل ان کے تاریخی آثار کو سیاسی آلہ کار بنا کر اپنے جارحانہ اہداف کو آگے بڑھاتا ہے۔
ان آثار کی اہمیت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ جب اسرائیل میں انتہا پسند دائیں بازو کی حکومت برسرِاقتدار آئی تو “ایتمار بن گویر” کی سربراہی میں اسرائیل کی وزارتِ ورثہ میں آثارِ قدیمہ کا محکمہ ضم کر دیا گیا۔ بن گویر کا پہلا اقدام فلسطینی شہر “لد” کو “گرین لائن” کے اندر کے علاقوں میں شامل کرنا تھا، حالانکہ “لد” تاریخ میں مسیحی، یہودی اور اسلامی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔
آثارِ قدیمہ کی سیاسی حیثیت اس قدر بڑھ گئی کہ اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کے تاریخی آثار کو “ایکسپو 2025” جاپان کے اسرائیلی اسٹال میں منتقل کر دیا، اور انہیں اسرائیلی تاریخ کے حصے کے طور پر عوامی نمائش میں پیش کیا۔

ماہرینِ آثارِ قدیمہ، افسران اور جاسوسوں کے ساتھ

جب دمشق کا کنٹرول کمزور ہوا، تو اسرائیل کی وزارتِ ورثہ کی توجہ شام کے آثارِ قدیمہ، خاص طور پر یہودی عبادت گاہوں (کنیسوں) پر مرکوز ہو گئی۔ شام میں کئی قدیم یہودی کنیسے موجود ہیں جیسے “البندره” کنیسہ (حلب)، دنیا کی پہلی یہودی عبادت گاہ، “المنشاہ” کنیسہ (دمشق)، اور “الیاس نبی” کنیسہ (جوبر، دمشق)۔
چنانچہ جب اسرائیلی فوج جنوبی شام پر قابض ہو رہی تھی، اسرائیلی جاسوس ان تاریخی یہودی آثار کو جیسے ہرن کی کھال پر لکھی گئی تورات، شمعدان، قالین، اور کپڑے وغیرہ چوری کرکے اسرائیل منتقل کر رہے تھے۔ اس کے بعد ان یہودی عبادت گاہوں کی مرمت اور بحالی کی باتیں شروع ہوئیں، جن میں دمشق اور اس کے اطراف کی پانچ کنیسے اور یہودی مدرسہ “موسی بن میمون” شامل ہیں۔
لندن میں قائم “تنظیمِ یہودی ورثہ” کا کہنا ہے کہ شام میں موجود نصف یہودی تاریخی آثار تباہ ہو چکے ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق شام میں 71 یہودی آثارِ قدیمہ موجود تھے جن میں سے 32 مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دمشق اور تل ابیب کے درمیان ممکنہ سیاسی معاہدے کی خبریں آنے کے بعد یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ یہودی ماہرینِ آثارِ قدیمہ شام میں، خاص طور پر دمشق اور حلب کے یہودی قبرستانوں میں موجود ہیں، جہاں عبرانی زبان میں تحریریں اور تورات کی آیات پائی جاتی ہیں۔
اسرائیلی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے شام میں اسرائیلی فوج کے داخلے کے پہلے دنوں میں ہی قنیطرہ کے مضافات میں “بریقہ” اور “جبل الشیخ” کے قدیم علاقوں اور درجنوں دیہات اور شہروں میں کھدائی شروع کر دی تھی۔ یہودی آثارِ قدیمہ کے اداروں نے بھی سرِعام اعلان کیا کہ ان کے ماہرین حلب میں موجود ہیں تاکہ خاص طور پر “البندره” کنیسہ کا معائنہ کر سکیں۔

شام سے یہودی آثار کی چوری اور ان کی جعلی اشیاء سے تبدیلی

حلب کی یہودی عبادت گاہ دنیا کی قدیم ترین تورات کے نسخوں پر مشتمل تھی، مگر اب “کتر آرام زوبا” کے کئی صفحات — جو دنیا کی قدیم ترین مذہبی کتاب ہے — کے ساتھ ساتھ ہزار سال پرانی کئی دیگر اشیاء لاپتہ ہو چکی ہیں۔
شام میں تاریخی یہودی آثار کی چوری کا آغاز 2011 میں ہوا۔ دمشق نے اس وقت متعدد بار اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت کی تھی کہ مسلح گروہ یہ آثار چرا کر اسمگلنگ کے ذریعے بیچ رہے ہیں۔ ایک موقع پر مسلح عناصر نے ہرن کی کھال پر لکھی ہوئی تورات چوری کی اور اسے اسرائیلی دلالوں کو 1.7 ملین ڈالر میں فروخت کر دیا، جبکہ اس کی جگہ پر ایک جعلی نقل کنیسہ میں رکھ دی گئی۔

لبنان کے خلاف فوجی جنگ کے ساتھ ساتھ تاریخی جنگ بھی

جنوبی لبنان میں ارلیخ کی ہلاکت نے اس کے خطرناک مشن کو بے نقاب کر دیا۔ اس سے برآمد ہونے والے نقشے میں جنوبی لبنان میں یہودی قبرستانوں اور آثارِ قدیمہ کی فہرست موجود تھی، جن میں سے بعض کو نشان زد بھی کیا گیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنوبی لبنان پر قبضہ صرف سیاسی اور سیکیورٹی پہلو تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس میں تاریخی پہلو بھی شامل تھا، یعنی تاریخ کو مسخ کرنا اور اسی تاریخ کو بہانہ بنا کر قبضے کو توجیہ دینا اور اسے توسیع دینا۔
یہودی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ چونکہ “صیدا” وہ شہر ہے جہاں ماضی میں یہودی رہائش پذیر تھے، لہٰذا یہ اسرائیل کا حصہ ہونا چاہیے۔
لبنان میں بھی، شام کی طرح، اسرائیل نے یہودی معابد اور قبرستانوں کے آثارِ قدیمہ چُرانے کا عمل انجام دیا۔ مثال کے طور پر ایک پتھر جس پر عبرانی زبان میں تحریریں کندہ تھیں، جنوبی لبنان میں واقع “کنیسہ بنیامین نبیؑ” سے چرا لیا گیا۔ اسی طرح، صیدا کے کنیسہ سے مقدس اشیاء کو ایک صہیونی افسر نے چوری کر کے حیفا کے تین کنیسوں میں منتقل کیا۔
اسرائیل صرف لبنان کے آثارِ قدیمہ کی چوری پر اکتفا نہیں کر رہا، بلکہ اس نے ایک منصوبہ بھی تیار کیا ہے جس کے تحت جنوبی لبنان کے 300 علاقوں کے ناموں کو عبرانی میں تبدیل کیا جائے گا۔
لبنان اور شام کے تاریخی اور آثارِ قدیمہ کی چوری کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے؛ اس سے پہلے فلسطین کے آثارِ قدیمہ اور تاریخی ورثہ بھی اسی طرح کی تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ صہیونی رژیم ہمیشہ اپنی غاصبانہ قبضے کو جواز دینے کے لیے آثارِ قدیمہ کی چوری اور فلسطینی تاریخ کو مسخ کرنے کا سہارا لیتی ہے تاکہ یہ دعویٰ کر سکے کہ فلسطینیوں کا ہزاروں سال پرانی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔
اسرائیل میں نہ صرف سیاست اور تاریخ بلکہ ہر چیز صہیونی لالچ اور مفادات کی خدمت میں استعمال کی جاتی ہے۔