ترکی اور شام میں نیم سامراجی سلطنت کے دوبارہ قیام کی کوشش

"تحریر الشام" اور دیگر گروہوں کی سرگرمیاں شام میں ایک بڑے جغرافیائی اور سیاسی منصوبے کا حصہ ہیں، جس کا مقصد ایران کی موجودگی کو محدود کرنا اور خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: شام کے بحران کے آغاز سے ہی، رجب طیب اردوغان کے اس دعوے کے برعکس کہ ان کی حکومت شام کے قومی اور جغرافیائی علاقوں پر کوئی دعویٰ نہیں رکھتی، شام کو تقسیم کرنے اور شمالی شام کے علاقوں، خاص طور پر حلب اور ادلب کے صوبوں کو ترکی میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی ترکی کی حکومت کے ایجنڈے میں شامل رہی ہے۔

تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق، بشار الاسد کی حکومت کا اپوزیشن اور مسلح گروہوں کے ذریعے خاتمہ، اور ان حکومتوں کی خفیہ و اعلانیہ حمایت جو اس حکومت کے خاتمے سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں، شام میں ایک نئے سیاسی نظام کے قیام اور نئی حکمت عملیوں کے نفاذ کا پیش خیمہ ہے۔

ترکی کا کردار اور عزائم

ترکی نے شام کے بحران کے آغاز سے ہی نہ صرف شام کے مسلح گروہوں اور خاص طور پر “جبهة النصرہ” اور “تحریر الشام” کی حمایت کی بلکہ “سلطان مراد بریگیڈ” اور “نورالدین زنگی گروپ” جیسے دیگر علیحدگی پسند گروہوں کو بھی وسائل فراہم کیے۔ ترکی کی اس پالیسی کا مقصد ان علاقوں کو تقسیم شدہ حالت میں شامل کرکے اپنی سرزمین میں ضم کرنا تھا۔

نئ عثمانی قوم پرستی

ترکی کی خارجہ پالیسی نئی عثمانی قوم پرستی پر مبنی ہے، جو تاریخی اور جغرافیائی حدود کو دوبارہ قائم کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ شام کے شمالی علاقوں پر ترکی کی توجہ، خاص طور پر حلب اور ادلب کو اپنے علاقوں میں شامل کرنے کی خواہش، ترکی کی اس پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔

اہم مقاصد

ترکی کے شام میں مداخلت کے کچھ بنیادی مقاصد درج ذیل ہیں:

حلب اور ادلب کے علاقوں کو مستقل طور پر ترکی میں شامل کرنا۔

شمالی شام سے کردوں کو نکالنا، کیونکہ ترکی تاریخی طور پر کرد فوبیا کا شکار ہے۔

شام میں ایک دوست حکومت کا قیام تاکہ اسکندرون کے علاقے کے الحاق کے مسئلے کو ختم کیا جا سکے۔

شام کے قدرتی وسائل اور اقتصادی مواقع تک رسائی۔

بصرہ، بغداد، حلب اور غازی انتپ کو جوڑنے والے اقتصادی راہداری کا قیام۔

شام میں ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنا۔

شام کے مخالف گروہوں کا کردار

“تحریر الشام” اور دیگر اپوزیشن گروہوں نے خود کو ایک آزاد اور متنوع تنظیم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ اسرائیل، ترکی، اور امریکہ سے بھرپور سیاسی، عسکری، اور انٹیلی جنس حمایت حاصل کر رہے ہیں۔
ترکی کی شام میں پالیسی ناصرف علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ اس کے جغرافیائی عزائم خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک چیلنج بن چکے ہیں۔

شام میں ایران کے اثر و رسوخ کا خاتمہ ترکی کے اہم اہداف میں ہے چنانچہ

شام میں ایران کے دیرینہ کردار کو کمزور کرنا ترکی، اسرائیل اور امریکہ کی پالیسیوں کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ اس تناظر میں، شامی اپوزیشن، خاص طور پر “تحریر الشام”، بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کی حکمت عملیوں سے متاثر ہو کر خود کو ایک جدید اور معتدل اپوزیشن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ گروہ آزادی اور آمریت کے خاتمے کا دعویٰ کرتا ہے اور مذہب و قومیت کے تنوع کا احترام کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔

“تحریر الشام” کا نیا کردار

“تحریر الشام” نے خود کو شام کی سرحدوں اور جغرافیائی سالمیت کے تحفظ تک محدود کرنے کا اظہار کیا ہے۔ گروہ کے جھنڈے میں تبدیلی (دو ستاروں سے تین ستاروں تک) اسی نئے بیانیے کی علامت کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

تاہم، حقیقت یہ ہے کہ “تحریر الشام” کو اسرائیل، ترکی، اور امریکہ کی بھرپور سیاسی، فوجی، اور انٹیلی جنس مدد حاصل ہے۔
اسرائیل: موساد کے ذریعے سیاسی اور انٹیلی جنس حمایت۔
ترکی: تحریر الشام کی میت (ترک انٹیلی جنس ایجنسی) کے ذریعے منصوبہ بندی اور فوجی مدد۔
اسی طرح امریکہ سی آئی اے کے ذریعے اس گروہ کی مالی و عسکری مدد کر رہا ہے۔

جبکہ اس گروہ کی تشکیل اور حمایت کے مقاصد میںشام میں ایران کے اثر و رسوخ کا خاتمہاورشام کو ایران کی خطے میں طاقت کے محور سے الگ کرنا شامل ہے۔
ترکی اور اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک دوست اور غیر جانب دار حکومت کا قیام بھی اسکا مقصد ہے
“تحریر الشام” اور دیگر گروہوں کی سرگرمیاں شام میں ایک بڑے جغرافیائی اور سیاسی منصوبے کا حصہ ہیں، جس کا مقصد ایران کی موجودگی کو محدود کرنا اور خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا ہے۔ ان گروہوں کی بین الاقوامی حمایت اس مقصد کو تقویت دینے کا ذریعہ ہے۔