تریپورہ کے موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری (دوسری قسط)
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ریپورہ کوئی نیا المیہ نہیں ہے اس قسم کے حوادث کئی بار ہمارے ملک میں ہوئے ہیں لیکن یہاں پر اس اعتبار سے سب کچھ ایک منظم پلاننگ کے تحت نظر آ رہا ہے کہ فسادیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہے ایسا ہی اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور ہر ایک فساد میں ایک خاص فکر ہی ملوث نظر آئی ہے ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری کیا ہے ؟
ہر ایک کو اپنے اپنے اعتبار سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان اپنے بھائیوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں ؟ یہاں پر دو تین نکات قابل غور ہیں ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے یہ ہمارا ملک ہے ہم اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کچھ سر پھرے اس وطن کی عزت و آبرو سے کھیلنا چاہیں تو ہمیں انکا مقابلہ کرنا ہوگا ، یہ جو تریپورہ میں مساجد جلائی گئیں ہیں یہ محض مسجدیں نہیں تھیں جنہیں نذر آتش کیا گیا ہے بلکہ ہندوستان کی جمہوریت کو آگ لگانے کی کوشش کی ہے دنیا بھر میں ہندوستان کی عزت کو داغدار کیا گیا ہے ہندوستان کو دنیا میں ایسے ملک کے طور پر پہچانا جاتا تھا جہاں تمام مذاہب کے لوگ مل جل کر ہنسی خوشی رواداری کے ساتھ جینے پر یقین رکھتے ہیں جہاں لوگ الگ الگ مذاہب کی لڑیوں میں بٹے ہونے کے ساتھ انسانیت کے ایک ہی دھاگے سے جڑے ہیں افسوس کچھ لوگ ہندوستان کے وقار سے کھیل رہے ہیں یہ لوگ کسی ایک مذہب و قوم کے نہیں بلکہ انسانیت کے دشمن ہیں ہمیں ان انسانیت کے دشمنوں کی حقیقت سے لوگوں کو آشنا کرنے کی ضرورت ہے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی مذہب ہو وہ دوسروں کو قتل کرنا دوسروں کا گھر جلانا لوگوں کا قتل عام کرنا نہیں سکھاتا ہر مذہب کی تعلیم میں لوگوں کی حرمت انکے تحفظ کی بات کی گئی ہے یہ لوگ مذہبی ہرگز نہیں ہیں یہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کی بدنامی کا بھی سبب ہیں ایسے لوگوں کی حرکتوں کو کسی ایک مذہب سے جوڑنے کی غلطی ہمیں ہرگز نہیں کرنا ہے لہذا میڈیا کے ذریعہ جو خبریں آ رہی ہیں ان کا صحیح تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے یہ معاملہ ہندو یا مسلمانوں کا نہیں ہے یہ مذہب کے نام پر انسانیت کا قتل کرنے والے ان جنونیوں کا ہے جنہیں مذہب کے بارے میں کچھ بھی بتا نہیں ہے یہ ایک خاص سیاست کے تحت یہ سب کر رہے ہیں ۔
دوسری اہم بات یہاں پر یہ ہے کہ ہمیں اس ملک میں رہتے ہوئے امن و بھائی چارگی کے ساتھ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کا مکمل حق حاصل ہے یہ حق ہمیں قانون دیتا ہے ہمارا جمہوری نظام دیتا ہے لہذا ہم سب پر لازم ہے کہ جہاں جہاں بھی جس انداز سے بھی ہو اپنے احتجاج کو درج کرائیں اور انتظامیہ کی اجازت سے مظاہرہ کریں اور اپنے بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستانی قوم کے سامنے حکومتی اہلکاروں کے سامنے اس بات کو واضح کریں کہ ہم اپنے بھائیوں کا درد رکھتے ہیں انکے گھروں کو جلتا نہیں دیکھ سکتے ہمارا دل تب بھی روتا ہے جب بنگلادیش میں کسی ہندو کو زد و کوب کیا جاتا ہے ہماری آنکھوں سے تب بھی آنسو بہتے ہیں جب ہمارے بھائیوں کو تریپورہ میں منظم انداز میں ہراساں کیا جاتا ہے ، چاہے مندروں پر حملہ ہو یا مساجد پر ہم ہر اس حملے کی مخالفت کرتے اور مذمت کرتے ہیں جس میں کچھ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظم و نسق کے ساتھ کھلواڑ کریں ۔
اسی کے ساتھ ہمیں مظاہروں کو جاری رکھتے ہوئے کوشش کرنا ہے ایک وکیلوں کا منظم نیٹ ورک قائم ہو جو ان لوگوں کے خلاف عدالت میں کیس دائر کریں جنہوں نے مساجد کو نقصان پہنچایا ہے جنہوں نے گھروں کو جلایا ہے جنہوں نے بستیوں کو نذر آتش کیا ہے یہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر ریاستی حکومت اس سلسلہ سے سہل انگاری سے کام لے گی تو نفرت کی بجاریوں کو مزید موقع ملے گا آج انہوں نے مساجد کو جلایا ہے کل کلیسا و چرچ کو آگ لگائیں گے آج مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار ہے کل کسی اور کے لئے ہوگا لہذا ضروری ہے کہ ان سر پھروں کو لگام دی جائے اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے تو ایک خاص قسم کا جھنڈا اٹھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم ہر قانون سے ماوراء ہیں انتظامیہ ہمارے ساتھ ہے کوئی کچھ نہیں کرے گا، ایسی ذہنیت کے حامل لوگ معاشرے میں ناسور کی طرح ہیں انکا علاج بہت ضروری ہے اور یہ علاج عدالتی و قانونی چارہ جوئی سے ممکن ہے لیکن یہ جتنی بھی باتیں ہیں ان سب کے لئے ہمیں پہلے ایک محاذ پر آنا ہوگا متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا تبھی ہم ایسا کر سکتے ہیں۔
ہم متحد کیسے ہوں ؟
یہ تو طے ہے کہ اتحاد کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم متحد کیسے ہوں ؟ یہ ایک طولانی گفتگو ہے بہت ہی مختصر طور پر ہمارے لئِے ضروری ہے کہ ہم ان رکاوٹوں پر غور کریں جو اتحاد کی راہ کا روڑا ہیں اور ہمیں متحد نہیں ہونے دیتیں ہم ان میں سے ہم فی الحال ایک ہی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو اتحاد کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔
اتحاد کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہماری خواہش نفس ہے، ہماری خود غرضی ہے ہماری مفاد پرستی ہے اپنے بارے میں سوچنا اور دوسرے کو چھوڑ دینا ہے۔ جب بھی انسان خود پرستی کا شکار ہوتا ہے خواہشات نفسانی کا اسیر ہو جاتا ہے وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ وہ تو محفوظ ہے اس پر تو کوئی مصیبت نہیں آئی اسکا گھر تو نہیں جلا اس کی بستی تو محفوظ ہے ،اسے تو حکومت کی جانب سے ہر سہولت مل رہی ہے یہی وہ چیز ہے جو انسان کو دوسرے کے ساتھ متحد ہونے سے روک دیتی ہے اسکے لئے جہاں مسلسل تزکیہ نفس کی ضرورت ہے وہیں ہمیں ایک قوم کی شکل میں سوچنے کی ضرورت ہے انفرادیت سے نکل کر اجتماعی طرز فکر پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ہماری مشکلات کا ایک سبب اجتماعی شعور کا فقدان ہے ہم ایک پرچم تلے ہونے کے بعد بھی بٹے ہوئے ہیں اسکی بنیادی وجہ یہی مفاد پرستی ہے مفاد پرستی سے خدا پرستی کی طرف جب آئیں گے تو خودبخود ان مشکلات سے ہمیں چھٹکارا ملے گا جن میں آزادی کے بعد سے اب تک جوجھتے چلے آ رہے ہیں ۔
تبصرہ کریں