نماز جمعہ کے خطبات؛ ۱ نومبر ۲۰۲۴

تقویٰ کے بغیر انسانی زندگی صرف بہیمانہ اور وحشیانہ زندگی ہے: علامہ سید جواد نقوی

ایک امریکی رائٹر جو کافی معتبر ہے اس نے غزہ کے حالات اور اس جنگ میں عرب ملکوں کے کردار پر ایک کتاب لکھی ہے اس نے اس میں لکھا ہے کہ صہیونیوں نے کئی مرتبہ سوچا کہ جنگ بندی کی جائے چونکہ ان کے مقاصد انہیں حاصل ہو گئے اگر یرغمالی ہمارے آزاد ہو جائیں تو ہم جنگ بند کر دیں گے، تو عرب ملکوں نے کہا ہے کہ یرغمالی تمہارے آزاد ہو جائیں گے ہمیں جو حماس اور حزب اللہ سے خطرہ ہے وہ تو اپنی جگہ رہے گا اگر حماس اور حزب اللہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیں ان کے خطرے سے کون بچائے گا لہذا جنگ بندی نہیں کرنا ہے جب تک کہ حماس اور حزب اللہ کو ختم نہ کر دیں۔

حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی
مدیر جامعه العروۃ الوثقیٰ
مسجد بیت العتیق
لاهور پاکستان

۰۱ نومبر، ۲۰۲۴

پہلا خطبہ

موت سے پہلے جو انسانی زندگی کے مراحل ہیں ان مراحل کے لیے اللہ تعالی نے کچھ اہم اہتمام کیے ہیں انسان کی خلقت اور ربوبیت انسانی زندگی کی تدبیریں ہیں ایک تدبیر خلقت ہے، ایک تدبیر ربوبیت ہے، ہدایت ہے جسے ہم دین کہتے ہیں، اور ایک انسانی زندگی کی تدبیر حفاظت ہے۔ یہ سب تدبیریں ترتیب رکھتی ہیں پہلے تدبیر خلقت ہے، پھر ربوبیت ہے، پھر ہدایت اور آخر میں حفاظت ہے اور تقویٰ جب انسان ہدایت کی راہ پر آ جاتا ہے وہاں انسان اپنی زندگی کے تمام پہلوں کی حفاظت کے لیے تدبیر تقویٰ کا استعمال کرتا ہے اور اسی طرح اس دنیوی زندگی کے کچھ پہلو ہیں ان پہلوں میں سے ایک سماجی زندگی ہے اس سماجی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک نظام مقرر کیا ہے اور قرآن کریم میں اس نظام کو بیان کیا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ قرآن میں یہ نظامِ زندگی بالکل دست نخوردہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے بارے میں سب کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن سے جو کچھ چودہ سو سال قبل کے لوگوں یا بقول معروف اسلاف نے سمجھا ہے آپ بھی انہیں کی سوچ اور سمجھ پر کاربند رہیں اور ان سے آگے نہیں بڑھ سکتے جبکہ دوسرے کسی بھی علم میں ایسا نہیں ہے دوسرے علوم میں ہر کوئی اس سے آگے قدم رکھتا ہے جتنا پہلے والوں نے سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام علوم میں ترقی ہوئی زمین کی تہہ میں موجود اسرار بھی ان علوم نے کشف کر لئے لیکن جہاں قرآن کی بات آتی ہے وہاں اس فکر سے آگے بڑھنے کو جائز نہیں سمجھا جاتا جو اسلاف کی فکر تھی۔
اس لیے یہ جو انسانی زندگی کے لیے اللہ کی تکوینی اور تشریعی تدبیریں ہیں ان کو کشف کرنا اپنی ہدایت اور نجات کے لیے ضروری ہے۔ اگریہ کام ہم نہیں کریں گے اگر کوئی نسل اللہ کی ان تدبیروں کو کشف نہیں کرے گی تو وہ قصوروار نسل ہو گی اور آئندہ آنے والی نسلوں کی بھی ذمہدار نسل ہو گی۔ مثال کے طور پر ہماری جو نسل ہے اگر ہم نے اپنے حصے کا کام نہیں کیا تو ہم اگلی نسلوں کے مجرم قرار پائیں گے اس لیے کہ اگلی نسلوں نے اپنے حصے کا کام کرنا ہے نہ کہ ہمارے حصے کا۔ اگر آج ہم اپنی ذمہ داری نہ نبھائیں تو کل آنے والی نسلیں اگر ہماری ذمہ داریوں کو نبھائیں گی تو وہ یقینا اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے رہ جائیں گی۔ جیسے اگر ہم سے پہلے والی نسلوں نے دین کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک سے نبھایا ہوتا تو آج ہمارے پاس سیاسی نظام، معیشتی نظام، اقتصادی، سماجی، دفاعی، تعلیمی، عدالتی یہ سارے نظام ہوتے بلکہ بہت پیشرفتہ نظام ہوتے۔ جیسے میں پہلے بھی سائنس کی مثال دے چکا ہوں اس میں ہر نسل نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور ہر نسل نے اپنے حصے کا کام کیا ہے لیکن دینی حوالے سے ایسا نہیں ہوا۔
امام خمینی نے اس سنت کو توڑا اور سابقہ علما کے برخلاف آپ نے دین اور قرآن سے جب سیاسی نظام نکالا تو ان کی دیگر علما نے بڑی مخالفت کی یہ کہہ کر کہ یہ بدعت ہے۔
جیسے ہمارے اساتذہ بیان کرتے تھے کہ حوزہ علمیہ کا نظام تعلیم یہ ہے کہ پرانی کتابوں سے وہی مطالب اٹھا کر نئی کاپیوں پر لکھنا۔ صرف کاپیاں نئی ہیں مطالب سب پرانے ہیں۔ آئندہ نسل آئے گی تو وہ بھی یہی کام کرے گی۔ یہ دین شناسی اور دین فہمی میں بہت بڑی کمزوری ہے۔ ہماری محرومیت کی بنیاد یہ ہے کہ آج کی موجودہ نسل اپنا کام نہیں کر رہی ہے صرف گزشتہ علما کی محنتوں کو ہی سکھایا جا رہا ہے اپنا کچھ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ربوبیت اور ہدایت کے لیے جو تدبیریں رکھی ہیں ہم نے ان تدبیروں کو نہیں سمجھا۔ جتنی حیات انسانی وسعت رکھتی ہے اتنی ہی اس کی تدبیریں بھی وسعت کی حامل ہیں۔ انسان کی زندگی کا بنیادی پہلو معاشرتی اور سماجی پہلو ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جس میں انسانی زندگی پنپتی اور بڑھتی ہے۔ سماجی زندگی کا ایک اہم پہلو عدالتی نظام ہے۔ دینی اصطلاح میں جسے قضاوت کہتے ہیں۔ ہماری فقہ میں قضاوت کا ایک باب ہے لیکن وہ صرف احکام کی صورت میں ہے نظام کی صورت میں نہیں ہے۔ انسانی زندگی میں حقوق کا آپس میں ٹکراؤ ہے ہر انسان کے کسی نہ کسی حوالے سے دوسرے کی گردن پر حقوق پائے جاتے ہیں۔ لیکن سماجی بدنظمیوں میں سے ایک بدنظمی حقوق تلفی اور حقوق کی عدم رعایت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان حقوق کی بحالی اور تلافی کے لیے ایک خوبصورت نظام مقرر فرمایا ہے وہ نظام اگر اسلامی حکومت کے زیر سایہ ہو تو اچھے انداز سے اس پر عمل درآمد ہو سکتا ہے لیکن اگر حکومت کا قیام ممکن نہ بھی ہو تب بھی مومنین اس نظام کو اپنی زندگیوں میں اجرا کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق کی حفاظت کے لیے تقویٰ معین کیا ہے، حقوق کی حفاظتی تدبیر کا نام تقویٰ ہے۔ اور تقویٰ وہ حفاظتی تدبیر ہے جس کے اکثر پہلو انسان بغیر حکومت کے بھی اپنے معاشرے میں جاری کر کے اپنے حقوق اور دوسروں کے حقوق کا تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔
حقوق کی رعایت کیسے کی جانا چاہیے؟ اپنے اور دوسروں کے حقوق کا تحفظ کیسے کرنا چاہیے یہ نہ ہی ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہے اور نہ ہی دینی پروگراموں میں ہمیں سکھایا جاتا ہے اور ہم سب سے زیادہ اسی کو اچھا سمجھتے ہیں جو سب سے زیادہ دوسروں کے حقوق کی پامالی کرتا ہو۔ اسی وجہ سے اگر پاکستان میں کسی کو حق تلفی سے روکا جائے تو وہ سخت ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن مغربی دنیا میں اس موضوع پر کام ہوا ہے اگر چہ انہوں نے قرآن سے انسانی حقوق نہیں لیے لیکن اپنی سوچ و فکر سے جو انہوں نے انسانی حقوق معین کیے ہیں ان پر وہ سختی سے پابند ہیں ان کے یہاں سب سے مقدس چیز انسانی حقوق ہیں اور حقوق کی پامالی ان کے یہاں بالکل ناقابل برداشت ہے ممکن ہے ان کے بنائے ہوئے حقوق اسلام اور قرآن کی رو سے حقوق نہ ہوں لیکن انہوں نے کچھ بنایا ہے وہ اس پر ثابت قدم ہیں۔ ہمارے یہاں اسلام میں اگر چہ سب سے جامع انسانی حقوق پائے جاتے ہیں لیکن وہ اسلامی معاشرے میں بالکل متروک ہیں۔ بڑے بڑے علما کو بھی دیکھا گیا ہے وہ انسانی حقوق کی بالکل رعایت نہیں کرتے جبکہ انسانی زندگی میں قرآن نے انسانی حقوق کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اس میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے مجتہدین کو چاہیے کہ وہ اسلامی حقوق کی تبیین اور تشریح کریں اور پھر عوام کو حقوق کی رعایت کا پابند بنائیں۔
جیسے ایک مثال دوں آج جمعہ ہے ایک بستی میں اگر چار مسجدیں ہیں تو چاروں مسجدوں کے باہر لاؤڈ اسپیکر لگے ہوں گے جو صرف دوسروں کو اذیت کر رہے ہوں گے اور ساؤنڈ پولوشن ایجاد کر رہے ہوں گے۔
سورہ مائدہ کی ۱۰۸ نمبر آیت میں ایک اہم حقوقی مسئلے کی طرف اشارہ ہوا ہے گرچہ یہ آیت ایک پورے سیاق و سباق میں ہے اور اس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اس آیت میں ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ قوم فاسق کی ہدایت نہیں کرتا۔ فسق کا مطلب یہ ہے کہ انسان دین کے دائرے اور دین کی حدود سے باہر زندگی گزارے۔ جیسے بہت سے لوگ گھروں سے باہر زندگی گزارتے ہیں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں رہتے ہیں لیکن دینی حدود سے باہر زندگی بسر کرتے ہیں اور ممکن ہے ایک ہی گھر میں میاں دین سے باہر زندگی بسر کر رہا ہو لیکن بیوی دین کی حدود میں رہ کر زندگی بسر کر رہی ہے یا برعکس ہو۔ دین کی حدود سے باہر زندگی گزارنے والا فاسق ہوتا ہے اور پروردگار عالم فرماتا ہے کہ اللہ فاسقوں کی ہدایت نہیں کرتا لہذا اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو فسق کو چھوڑ کر دینی حدود میں آ جاوْ۔
لیکن کہاں پر تقویٰ اختیار کرو جہاں پر شہادت اور گواہی دینے کا موقع آ جائے وہاں پر تقویٰ کی رعایت کرو۔ حقوق کے میدان میں روزانہ یا ہماری گردن پر کسی کا حق آتا ہے یا ہمارا حق کسی نہ کسی کی گردن ہوتا ہے۔
اس آیت میں اگرچہ صرف ایک مورد یعنی گواہی اور شہادت میں تقویٰ کی رعایت کی تاکید ہے لیکن بطور عموم حقوق کے ہر مورد میں تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔
ہمارے روز مرہ کے لڑائی جھگڑے اور عدالتوں میں کیس سب حقوق کے لیے ہوتے ہیں جہاں پر مدعی کسی حق کا دعویٰ کرتا ہے مدعیٰ علیہ انکار کرتا ہے۔ اس لیے ایک عام سا سماجی قانون ہے اور قرآن کا بھی یہ دستور ہے وہ یہ کہ مدعی اپنے دعوے پر دو گواہ پیش کرے تاکہ وہ ان گواہوں کی گواہی سے اپنے دعوے کو ثابت کر سکے۔ لیکن اگر گواہ نہیں ملتے یا دونوں گواہ لے آتے ہیں تو ایسی صورت میں دونوں کی گواہی نہیں سنی جائے گی دونوں طرف کے گواہوں کی گواہیاں جب ٹکرا جاتی ہیں تو ان گواہوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ ایسی صورت میں بات قسم پر آ جاتی ہے کہ قسم کھائیں تو قسم پر فیصلہ ہو گا۔ قسم کے بھی شرائط ہیں جیسے قرآن کے مطابق آپ نماز کے بعد قسم دیں۔ اور قسم پر فیصلہ ہو گا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِينَ {سورہ مائدہ آیت ۱۰۶}

اگر دو گواہ گواہی دیں اور معلوم ہو جائے کہ ان کی گواہی جھوٹی تھی تو دوسری طرف کے دو گواہ پھر گواہی دیں دے۔ اور ہر گواہی دینے والے کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ میرے بعد دوسری گواہی آ جائے گی جس سے میں جھوٹا ثابت ہو جاوں گا۔ لہذا یہاں پر ضروری ہے گواہی دینے میں بھی تقویٰ اختیار کریں اور سچی گواہی دیں، قاضی بھی تقویٰ اختیار کرے، ورثہ بھی تقویٰ اختیار کریں، تو یہ تقویٰ حقوق کے نسبت ہے، تقویٰ حقوق کے تحفظ کے لیے بہترین ضمانت ہے، حقوق کا تحفظ تقویٰ سے بڑھ کر کسی چیز سے ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن نے تقویٰ پر تاکید کی ہے چونکہ گواہ جھوٹ بھی بول سکتے ہیں، شرعی اور غیر شرعی پوری دنیا میں ہر جگہ یہی نظام ہے کہ گواہ گواہی دیں لیکن تمام عدالتوں کو پتا ہے کہ یہ اکثر گواہی جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں۔ ججوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ گواہ سو فیصد جھوٹے ہوتے ہیں لیکن وہ قانون کے مطابق گواہوں کی گواہی کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ قرآن نے خود کہا کہ گواہ جھوٹ بول سکتے ہیں۔ گواہ اگر جھوٹ ثابت ہو تو قسم کھائی جائے، قسم بھی جھوٹی کھائی جا سکتی ہے۔ اسی لیے قرآن نے آخر میں تقویٰ پر تاکید کی ہے اگر تقویٰ ہے تو پھر نہ گواہی کی ضرورت ہے نہ قسم کی۔
روزہ مرہ کے معاملات میں ہزاروں قسم کے حقوق ہمارے درمیان ایک دوسرے کی گردن پر عائد ہوتے ہیں لیکن ہم ان کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتے۔ بہت سارے حقوق کو ہم خود پائمال کرتے ہیں لیکن ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔

دوسرا خطبہ 
وہ انسانی زندگی جس میں تقویٰ نہ ہو وہ سفاکیت اور درندگی والی زندگی تو ہو سکتی ہے انسانی زندگی نہیں ہو سکتی۔ انسان کی خلقت کے وقت ملائکہ نے اللہ سے کہہ دیا تھا کہ خدایا تو نے ایسی مخلوق پیدا کی ہے جو زمین میں سفاکیت کرے گی اور خون بہائے گی، اللہ نے ملائکہ کی بات کو جھٹلایا نہیں بلکہ صرف اتنا جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے، اب بعد میں اللہ نے جب اس مخلوق کو علم دیا تو تب انسانی جوہر کی عظمت کا راز ملائکہ کے سامنے کھلا، ہاں اگر انسان کے پاس وہ علم نہیں ہے جو علم تقویٰ کی بنیاد پر ہو تو یقینا پھر انسان وہی ہے جو ملائکہ نے سمجھا تھا کہ اس کا کام صرف خون بہانا اور سفاکیت کرنا ہے۔ آج ہم پوری دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ کس قدر دنیا میں سفاکیت اور خون خرابا پایا جاتا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو صرف خون بہا رہا ہے اور خون بھی کس کا بہایا جا رہا ہے صرف مسلمانوں کا، پوری دنیا میں آپ دیکھیں صرف مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، غزہ و فلسطین سے لے کر لبنان، روہنگیا، برما، ہندوستان، یمن، شام، ہر جگہ صرف مسلمانوں کا قتل ہو رہا ہے۔ اور دوسرا گروہ اس سفاکیت پر خاموش ہے۔ قرآن اور احادیث کی اصطلاح میں انہیں خاذلین کہا جاتا ہے۔ خاذلین وہ ہیں جو ظلم کا سد باب کر سکتے ہیں سفاکیت اور قتل عام کو روک سکتے ہیں مظلوموں کی مدد کر سکتے ہیں لیکن کرتے نہیں ہیں۔ کوفہ میں اس طرح کے لوگ بہت تھے جب کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا جا رہا تھا تو کوفہ میں کچھ لوگ تھے جو امام حسین کی مدد کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کی انہیں خاذلین کہا گیا۔ کوفہ اور حجاز کے لوگوں میں یہ فرق تھا کہ حجاز کے لوگ امام حسین (ع) کو یزید کے خلاف قیام کرنے سے روک رہے تھے اور انہیں کوفہ جانے سے منع کر رہے تھے لیکن امام حسین (ع) ان کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دے رہے تھے ۔ کوفہ میں الٹا تھا کوفہ کو امام حسین نے یزید کے خلاف قیام کی دعوت نہیں دی بلکہ کوفیوں نے امام حسین (ع) کو دعوت دی کہ ہم یزید کے ظلم سے تنگ آ چکے ہیں اور ہم یزید کے خلاف قیام کرنا چاہتے ہیں آپ یہاں آئیں۔ لہذا یہاں دعوت کوفہ والوں نے دی۔ لیکن آخر میں نہ حجاز والے آئے جن کو امام نے دعوت دی اور نہ کوفہ والے آئے جنہوں نے خود امام کو بلایا تھا۔
کیوں نہیں کوئی آیا؟ یہ تاریخ کا بہت اہم سوال ہے کہ کیوں کوئی مدد کے لیے نہیں آیا۔ اس کا ایک سبب جو علما نے بیان کیا وہ اس زمانے کے قبائلوں کی قیادت تھی۔ اس دور میں قبیلے کا سردار جو کہتا تھا سارا قبیلہ اسی کے کہنے پر چلتا تھا، جب رسول اللہ اسلام کی دعوت دیتے تھے تو وہ فرد فرد کو دعوت نہیں دیتے تھے اور فرد فرد مسلمان نہیں ہوتا تھا وہ قبیلے کے سردار کو دعوت دیتے تھے اگر سردار نے دعوت اسلام قبول کر لی تو سارا قبیلہ مسلمان ہو جاتا تھا لیکن سردار قبیلہ منع کر دیتا اور جنگ پر اتر آتا تو سارا قبیلہ جنگ پر تیار ہو جاتا تھا۔ امام حسین (ع) نے دو خط بصرہ بھیجے دو الگ الگ قبیلوں کو، ایک منذر بن جارود کو خط بھیجا جو عبیداللہ بن زیاد کا سسر تھا اس نے امام حسین کا خط بھی اور قاصد بھی پکڑ کر عبید اللہ بن زیاد کے حوالے کر دیا۔ اور اس نے وہیں اس کو شہید کر دیا، جناب مسلم سے پہلے بصرہ میں امام حسین کا قاصد شہید ہو چکا تھا۔ دوسرا خط بصرہ کے ایک اور قبیلے کے سردار کو بھیجا تو اس نے قبیلے والوں کی میٹنگ بلائی اور کہا کہ امام حسین (ع) کا خط آیا ہے تو کیا جائے قبیلے والوں نے کہا کہ آپ بڑے ہو، آپ کہو گے کہ امام حسین کا ساتھ دینا ہے تو ان کا ساتھ دیتے ہیں آپ کہو گے یزید کا ساتھ دینا ہے یزید کا ساتھ دیں گے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ سردار قبیلہ نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم امام حسین (ع) کا ساتھ دیں گے تو یہ تیاریوں میں لگے رہے اور اودھر کربلا واقع ہو گئی ان کی تیاریاں مکمل نہیں ہوئیں۔
لیکن دوسری طرف کوفہ والوں نے ساتھ کیوں نہیں دیا اسی وجہ سے، قبیلوں کے سرداروں نے امام حسین کا ساتھ دینے کا فیصلہ نہیں کیا۔ آج بھی یہی وجہ ہے عربوں میں وہی قبائلی نظام موجود ہے، آج کیا عوام کو پتا نہیں ہے کہ غزہ و لبنان میں کیا ہو رہا ہے کیا انہوں نے قتل ہوتے بچوں کی تصویریں نہیں دیکھیں، کیا انہوں نے غزہ کے بچوں کے پیغام نہیں سنے، پھر وجہ کیا ہے؟ وجہ یہی ہے کہ ان کے ماڈرن قبیلوں کے سردار انہیں اجازت نہیں دیتے۔ سردار کیوں نہیں اجازت دیتے کیوں نہیں بولتے چونکہ انہوں نے اوپر اوپر معاملات طے کر لیے ہوتے ہیں۔ لہذا اگر تقویٰ نہیں ہے تو انسان کی انسانیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور انسان بدترین سفاک بن جاتا ہے۔ ایک امریکی رائٹر جو کافی معتبر ہے اس نے غزہ کے حالات اور اس جنگ میں عرب ملکوں کے کردار پر ایک کتاب لکھی ہے اس نے اس میں لکھا ہے کہ صہیونیوں نے کئی مرتبہ سوچا کہ جنگ بندی کی جائے چونکہ ان کے مقاصد انہیں حاصل ہو گئے اگر یرغمالی ہمارے آزاد ہو جائیں تو ہم جنگ بند کر دیں گے، تو عرب ملکوں نے کہا ہے کہ یرغمالی تمہارے آزاد ہو جائیں گے ہمیں جو حماس اور حزب اللہ سے خطرہ ہے وہ تو اپنی جگہ رہے گا اگر حماس اور حزب اللہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیں ان کے خطرے سے کون بچائے گا لہذا جنگ بندی نہیں کرنا ہے جب تک کہ حماس اور حزب اللہ کو ختم نہ کر دیں۔ یہ عرب کا قبائلی نظام ہے جس کے مطابق عربوں نے وہی فیصلہ کرنا ہے جو ان کے سرداروں نے کہنا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کی مشکل کیا ہے؟ ان کی مشکل یہ ہے کہ غزہ کے حامی شیعہ ہیں اگر غزہ بچ گیا تو کریڈٹ شیعوں کو جائے گا۔ لہذا ہم نے ان کی مدد نہیں کرنا ہے۔ یہ مسلمانوں کا حال ہے۔ یہ مذہبی اور سیاسی رہنماوں کی حالت ہے، عرب ملکوں میں مسجدوں میں فلسطین کا نام لینے پر پابندی ہے۔ پاکستان میں پابندی نہیں ہے لیکن پھر بھی کوئی نام نہیں لیتا ہے۔ ابھی جو خطرناک ترین مرحلہ اس وقت جاری ہے وہ امریکہ کے انتخابات ہیں جو فلسطین کا کارڈ استعمال کر رہے ہیں ان دنوں کو بہت حساس دن کہا جا رہا ہے۔ یہ امت مسلمہ کا بہت بڑا المیہ ہے کہ امت مسلمہ اتنے بڑے ظلم کے مقابلے میں مکمل طور پر خاموش ہے۔ پروردگارا امت مسلمہ کو بیداری اور غیرت عطا فرما اور ان کے بے غیرت سربراہوں سے انہیں نجات عطا فرما۔