وحدت اسلامی کانفرنس (۱)

تہران کی وحدت کانفرنس اور ہماری ذمہ داری

ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس طرح کے موضوع پر بڑا اجلاس ہوتا ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ کوشش کریں علماء و عمائدین اور دانشور حضرات کی بات عام لوگوں تک پہنچیں دوسری بات یہ کہ عملی طور ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ بھائی چارے کی فضا کو بڑھاوا دیں تاکہ عملی طور پر اتحاد کی راہ میں آگے بڑھ سکیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ؛ بحمد للہ تہران میں ۳۵ ویں وحدت کانفرنس بحسن و خوبی اختتام کو پہنچی جس میں عالم اسلام کی بزرگ و نامور ہستیوں نے شرکت کی دنیا بھر سے وحدت کانفرنس میں شریک ہونے والے علماء و دانشوروں سے آخر میں رہبر انقلاب اسلامی نے بھی خطاب کیا اور قابل غور نکات کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ، پیش نظر تحریر میں ہم رہبر انقلاب کی جانب سے کچھ اہم نکات کی طرف اشارہ کریں گے لیکن اس سے قبل ہم سب کو اس اہم سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ ہم سب مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے سلسلہ سے عملی طور پر کیا کر رہے ہیں کیا صرف کسی کانفرنس میں شریک ہو لینا یا وحدت کے موضوع پر کسی کانفرنس کے لنک کو سوشل میڈیا پر ڈال دینا وحدت سے متعلق کچھ حدیثوں کو ہفتہ وحدت کے موقع پر شئیر کرنا کیا یہ وحدت کے لئے کافی ہے یا ہمیں اپنی فکروں پر بھی کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے نمائشی طرز سے نکل کر عملی و زمینی طور پر بھی کھل کر میدان میں آنے کی ضرورت ہے ؟
یقینا یہ کانفرنسیں اور سمینار ضروری ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہیں اس لئے کہ یہاں فکروں کی جہت دہی ضرور ہوتی ہے نظریات ضرور پیش کئے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر جب تک سماج و معاشرے میں اتحاد بین المسلمین کے لئے کچھ نہ ہو ان ساری چیزوں کا فائدہ نہیں ہے ورنہ کیا فائدہ کہ لوگ ایسی کانفرنسوں میں شریک بھی ہوں لیکن بسا اوقات دوسرے مسلک کو ناراض نہ کرنے کے لئے وحدت سے متعلق پروگراموں کو عام بھی نہ کریں یہ سوچ کر اگر کھل کر وحدت کے اسٹیج پر سامنے آ گئے تو ہمارے اپنے لوگ کیا کہیں گے جیسا کہ اس بار ہوا بھی ہمارے ہی ہندوستان سے متعلق ایک اصلاحی و تعمیری فکر رکھنے والے دانشور نے وحدت کانفرنس میں شرکت بھی کی لیکن یہ بھی نہیں چاہا کہ یہ بات بہت عام ہو، اور کانفرنس میں کی گئی تقریر کو تو اپنے اکاونٹ سے عام نہیں کیا البتہ کانفرنس کے حاشیہ پر کی گئی ایک گفتگو کو جو متنازعہ تھی سب کے ساتھ شئیر کر لیا یہ وہ چیز ہے جو ہم سب کے لئے فکر مندی کا باعث ہونا چاہیے کہ آخر پھر ان کانفرنسوں اور اجلاسوں سے کیا حاصل ہے جب انسان خود ہی اسے چھپانے کی کوشش کرے۔
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اگر اس طرح کے موضوع پر بڑا اجلاس ہوتا ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ کوشش کریں علماء و عمائدین اور دانشور حضرات کی بات عام لوگوں تک پہنچیں دوسری بات یہ کہ عملی طور ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ بھائی چارے کی فضا کو بڑھاوا دیں تاکہ عملی طور پر اتحاد کی راہ میں آگے بڑھ سکیں۔

جاری