جامعہ کراچی، فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی عصری صورتحال پر گول میز مباحثے کا انعقاد

سوالات کا جواب دیتے ہوئے فلسطینی وفد کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ بے شک عرب ممالک کے حکمرانوں اور عوام کے خیالات فلسطین کے مسئلے پر الگ ہیں، عرب ممالک کے عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہیں جبکہ وہ حکمران جو اسرائیلی مفادات کے لیے کام کررہے ہیں اور ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں وہ عوام کے حقیقی نمائندہ نہیں بلکہ ظالموں کی جانب سے عرب ممالک پر مسلط کیے گئے حکمران ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام ممتاز فلسطینی مندوبین اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم کے اشتراک سے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی عصری صورتحال پر شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے کونسل روم میں ایک گول میز مباحثے کا انعقاد کیا گیا۔ کلیدی نوٹ میں رئیسہ کلیہ فنون و سماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے سوال اٹھایا کہ یہ فرق اور فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ فلسطین کا مسئلہ زمینی جنگ کا مسئلہ ہے یا یہ مذہب اور جہاد کی جنگ ہے؟ اس موقع پر چیئرمین شعبہ بین الاقوامی تعلقات ڈاکٹر نعیم احمد نے کہا کہ فلسطینی اپنے حق خودارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ حقِ خود ارادیت کی جنگ ہے۔

فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابومریم نے کہا کہ فلسطینی مایوس نہیں ہیں، فلسطینیوں کی ترقی کی جستجو میں روزانہ پیش رفت ہو رہی ہے، شہداء کا پاکیزہ خون اور قربانیاں اس پیشرفت کا حصہ ہیں، عالمی شہریوں کے جذبات اور حقیقیت سمیت ان میں فلسطینی کاز کی حمایت بھی شامل ہے، اگرچہ دنیا کی حکومتوں کی دوسری ترجیحات ہیں لیکن فلسطینی کاز کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے اور اسے عالمی عوام کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو ان کا حق دیا جائے، فلسطینی اپنے حق سے پیچھے نہیں ہٹے وہ آج بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

فلسطینی وفد کے مقررین نے اس اہمیت پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین اپنے آغاز سے ہی عالمی سیاسی منظر نامے پر اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے، مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی اور پہلا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں، مائیں فخر کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو شہید کرنے پر آمادہ ہیں۔ عالمی مہم برائے فلسطین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر ادیب یاسر جی نے مزید کہا کہ فلسطینی ظلم برداشت نہیں کریں گے، فلسطینی اپنا حق لیں گے، فلسطین کی سرزمین فلسطینیوں کی ہے اور وہ آدھے یا کم پر آباد نہیں ہوں گے۔

فلسطین میں واپسی کی عالمی مہم کے سیکرٹری جنرل یوسف عباس کا خیال تھا کہ مسئلہ فلسطین عالمگیر ہے، فلسطین کاز انسانی حقوق کے مسائل سے زیادہ تعلق رکھتا ہے اور یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم فلسطینیوں کے لیے جہاد کریں، جو لوگ ظلم کا ساتھ دیں گے وہ بھی ظالم کہلائیں گے۔ شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر طلعت وزارت نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف حیاتیاتی جنگ کر رہا ہے۔

رئیس کلیہ معارف اسلامیہ پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پوری دنیا بالخصوص پاکستان میں غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دو قومی نظریہ کے تحت معرض وجود میں آیا، ہم اس دوقومی نظریے کو بھلا کر اسرائیل کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں، یہودیوں کو مسلم دنیا کے بیچوں بیچ لگا کر مسلم دنیا کے دل میں چھرا گھونپا، پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات کا مشورہ دینے والوں کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک مخصوص لابی اسرائیلی مفادات کے لئے کام کر رہی ہے۔

سوالات کا جواب دیتے ہوئے فلسطینی وفد کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ بے شک عرب ممالک کے حکمرانوں اور عوام کے خیالات فلسطین کے مسئلے پر الگ ہیں، عرب ممالک کے عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہیں جبکہ وہ حکمران جو اسرائیلی مفادات کے لیے کام کررہے ہیں اور ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں وہ عوام کے حقیقی نمائندہ نہیں بلکہ ظالموں کی جانب سے عرب ممالک پر مسلط کیے گئے حکمران ہیں۔ گول میز کانفرنس میں LUMS سمیت دیگر یونیورسٹیوں اور شعبہ جات کے اساتذہ، پروفیسرز، اسکالرز، دانشوروں اور معززین نے بحث میں حصہ لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242