جمہوریہ آذربائیجان اور یہودی ریاست کے تعلقات؛ جائزہ رپورٹ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مورخہ 17 اگست 2022ع کو علامہ طباطبائی یونیورسٹی اور ابرار بین الاقوامی مطالعہ و تحقیقات انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے “جمہوریہ آذربائیجان اور یہودی ریاست کے تعلقات” کا ماہرانہ جائزہ لینے کی غرض سے “تہران انٹرنیشنل اسٹڈیز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ” کے مرکز دفتر میں ایک اجلاس منعقد ہؤا جس میں ڈاکٹر احسان موحدیان، محسن پاک آئین، ڈاکٹر سیدرضا میرمحمدی، ڈاکٹر رسول اسماعیل زاده دوزال اور ڈاکٹر شیخ اورخان محمدوف نے شرکت کی۔
عطنا (علامہ طباطبائی خبر ایجنسی) کے چیف ایڈیٹر اور اجلاس کے سیکریٹری ڈاکٹر احسان موحدیان نے کہا:
“قفقاز کے علاقے میں، آذربائیجان اور صہیونی ریاست کے تعلقات، اسلامی جمہوریہ ایران [اور بقیہ اسلامی ممالک] کے لئے اہم ہیں۔ یہ تعلقات سیاسی، سفارتی، ثقافتی اور فنکارانہ بھی ہیں اور تعلیم و تربیت کے میدان میں بھی: آذربائیجانی اسکولوں اور جامعات میں یہودیوں کا بڑھتا ہؤا اثر و رسوخ اور یہودی تعلیمی مراکز کا قیام، اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دین و مذہب کے حوالے سے بھی جمہوریہ آذربائیجان میں صہیونیوں کا اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے؛ جعلی یہودی ریاست یہاں بہائیت جیسے فرقوں کی خصوصی حمایت کرتی ہے۔ یہودی ریاست آذربائیجان کے سائبر مواصلات اور سائبر سیکورٹی، مواصلات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ابلاغیات، سیکورٹی اور جاسوسی، آثار قدیمہ اور تاریخی مسائل (بالخصوص تاریخ میں تحریف اور جمہوریہ آذربائیجان سے ایرانی آثار مٹانے)، فن تعمیر، امیگریشن، کام کاج کے لئے افرادی قوت (اور مزدوروں اور ماہرین) کی بھرتی، صحت و حفظان صحت، سیاحت وغیرہ میں فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ قرہ باغ کی لڑائی میں یہودی ریاست نے باکو حکومت کو ڈرون فراہم کئے اور اس کے فوجی ماہرین آذربائیجان کے ہوائی اڈوں میں تعینات ہیں اور یہ سب دو طرفہ تعلقات کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
یہودی ریاست جمہوریہ آذربائیجان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کچھ خاص تزویراتی حکمت عملیوں کو مد نظر رکھتی ہے۔ ان حکمت عملیوں میں سے ایک – جو اس کے مقاصد میں شامل ہے – تشیّع کے خلاف جدوجہد ہے۔ قفقاز اور وسطی ایشیا میں، آذربائیجان واحد ملک ہے جس کی اکثریتی آبادی شیعہ ہے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ حالیہ برسوں میں باکو حکومت نے حجاب، عزاداری اور عاشورا، اور اسلامی اور شیعہ طرز زندگی کے تمام مظاہر کے خلاف شدید اقدامات کئے ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں باکو حکومت نے امام حسین (علیہ السلام) کے عزاداروں کو “پرچم امام حسین (علیہ السلام)” کے بجائے آذربائیجان کا قومی پرچم اٹھانے پر مجبور کرنے کی کوشش کی؛ یا سنہ 2013ع میں نارداران کے علاقے میں جمہوریہ آذربائیجان کے فوجیوں نے امام رضا (علیہ السلام) کی ہمشیرہ سیدہ رحیمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) کے مزار میں عزاداران عاشورا پر حملہ کیا۔
ایک سال کے عرصے میں باکو-تل ابیب تجارتی حجم میں دو گنا اضافہ
حالیہ برسوں میں – یورو وژن کے تحت – ثقافتی شعبوںمیں موسیقی کے مختلف میلوں، لباس اور فحش نمائشوں کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔ صہیونیوں کی کوشش آذربائیجانی عوام کو یہ جتانا ہے کہ اس ملک کے سیاسی میدان میں یہودی ریاست کی سرگرمیاں ان کے لئے مفید ہیں اور باکو کو فراہم کردہ یہودی فوجی امداد کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور یہودی تشہیری مہم یہ ثابت کرنے پر مرکوز ہے کہ ارمینیا کے ساتھ جنگ میں آذریوں کی کامیابی کا اصل سبب اسرائیل کی فوجی امداد ہے؛ اور اس تشہیری مہم کے اثرات جمہوریہ آذربائیجان میں یوم القدس کے موقع پر دکھائی دیتے ہیں اور شیعیان اہل بیت کی اکثریت کے باوجود یوم القدس کے موقع پر یہاں کوئی جلسہ جلوس نہیں ہوتا اور یہاں کے عوام فلسطینیوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد نہیں سمجھتے؛ اور اگر کوئی کچھ کرنا بھی چاہے تو باکو کے آمر کے ہاتھوں پابند سلاسل ہو جاتا ہے۔
ایران کے ساتھ تعلقات صہیونی-آذری تعلقات میں رکاوٹ
معاشی میدان میں صہیونی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ زراعت، نقل و حمل، صنعت اور مویشیوں کی پرورش، وغیرہ میں آذربائیجان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور اس تعاون میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حالیہ ایک سال کے عرصے میں دو طرفہ تجارت کا حجم دو گنا ہو چکی ہے۔ حالانکہ آذربائیجان ایران کا پڑوسی ہے لیکن دو طرفہ تجارت برسوں سے پچاس کروڑ ڈالر سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آذربائیجان یہودیوں کی تحریک پر ایران پر اثرانداز ہونے کے لئے بھی کوشاں رہتا ہے۔ یہودی پوری قوت سے، آذربائیجان میں، ایران کے تاریخی، ادبیاتی، ثقافتی اور تہذیبی آثار مٹانے کے لئے کوشاں ہیں اور اس کے لئے انھوں ںے ٹی وی چینل تک کھول دیئے ہیں جن کے کرتے دھرتے یہودی-اسرائیلی ہیں۔
علاوہ ازیں اسرائیلی ڈرون باکو سے اڑ کر عراق میں الحشد الشعبی اور ایران میں نطنز کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کرتے رہے ہیں، جن کا بروقت جواب دیا گیا ہے۔
قفقاز میں “خزر کی یہودی سلطنت” کے جعلی عنوان کی تخلیق کی کوشش؛ آذربائیجان میں یہودی موجودگی کا جواز!
یہودی ریاست توانائی کے شعبے میں “ایران، روس اور آذربائیجان” کے علاقائی تعاون میں رکاوٹ ہے اور سامان تجارت اور توانائی کی منتقلی کی راستوں تک ایران کی رسائی میں رکاوٹ ڈالنے کی خواہاں ہے اور ارمینیا تک ایران کی رسائی کے راستوں کو بند کروانا چاہتی ہے۔ [جمہوریہ آذربائیجان ماضی قریب میں ایران کا حصہ تھا لیکن] جمہوریہ آذربائیجان کی نصابی کتب میں ایران مخالف مواد شائع کیا گیا جن میں ایران کی قدیم تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے؛ یہاں تک کہ “خزر کی یہودی سلطنت” کا جعلی عنوان ان کتابوں میں سمویا گیا ہے جس کا مقصد جمہوریہ آذربائیجان میں، بڑی تعداد میں یہودی بسانے کے لئے ماحول سازی کرنا ہے ۔
یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ سوویت اتحاد کی حکمرانی کے دوران آٹھ لاکھ یہودی جمہوریہ آذربائیجان سے اسرائیل (یعنی مقبوضہ فلسطین) نقل مکانی کر گئے ہیں اور اب انہیں واپس آنا چاہئے۔ آذربائیجان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان طویل سرحدی حدود ہیں، علاقے کی سب سے بڑی شیعہ آبادی اس جمہوریہ میں سکونت پذیر ہے، چنانچہ یہودی ریاست کو خدشہ ہے کہ کہیں سیاسی اسلام اس ملک میں بھی انگڑائی نہ لے اور اسلامی جمہوریہ ایران اس پر اثرانداز نہ ہو۔ دوسری طرف سے ایران اور آذربائیجان میں بڑے پیمانے پر ثقافتی، تاریخی اور نسلی اشتراکات پائے جاتے ہیں۔ اسرائیلی یہودیوں کو خوف ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران جمہوریہ آذربائیجان کے پالیسی سازوں کو متاثر نہ کر لے۔ چنانچہ وہ آذریوں کو اکساتے ہیں کہ ایرانی آذریوں پر اثر انداز ہو جائیں، ایران کی تزویراتی گہرائی تک اثر و رسوخ پیدا کریں۔ یہی کام یہودیوں نے ایک نوزائیدہ ملک آذربائیجان میں انجام دیا ہے، جو ان کے لئے چنداں مشکل نہیں تھا لیکن اب وہ ایران کے بارے میں بھی یہی خواب دیکھ رہے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Tehran International Studies & Research Institute
تبصرہ کریں