جنت البقیع اور آل سعود کی سامراج پسندانہ تاریخ
بقلم سید مشاہد عالم رضوی
بقیع کی بارگاہ عصمت پناہ میں
ہواؤں سے کہوں یا بادلوں سے سورج سے کہوں یا چاند سے یا پھر انسانی ضمیر سے۔۔۔؟
کہ مدینہ منورہ سے متصل ایک سرزمین اپنے دفینوں سمیت مسلسل بے سروسامانی کا شکار ہے وطن میں ہوکر بھی بے وطن ہے گھر میں ہوکر بھی غریب الدیار ہے شرافت وعظمت وبلندی رکھنے کے باوجود ایک صدی سے بے قیمت وبےحثیت ہے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہے ؟
کیااس کا کوئی قدرداں نہیں اس کا کوئی مالک و مختار نہیں ؟
نہیں نہیں میرے دوست ایسا نہیں ہے بلکہ ۔۔۔اس کے مالک بھی ہیں قدر شناس بھی چاہنے والے بھی ہیں اور اس کے اوپرجان چھڑکنے والے بھی ہیں تو اب ذرا غور سے سنیں کہ اس کے مالک و مختار مدینہ کے انصار و مہاجرین تھے جنہوں نے اس سرزمین کو کانٹے دار جھاڑیوں یعنی ؛ غرقد سے صاف کرکے اھل مدینہ کے دفینوں کے لئے زمین ہموار کی تھی اور یہی اس کے مالک و صاحب تھے جو دسیوں صدی قبل راہی ملک عدم ہوگئے البتہ ان کے گزرجانے کے بعد بھی مدت دراز تک اس کی شان وشوکت عزت و عظمت اور وقار قائم رہا ۔۔۔لکین جب آل سعود نے حجاز پرقبضہ کرلیاتومحمد بن عبد الوھاب نجدی ـ متوفی ١٧٩٢ ءـ جیسےمفتی نے اھل قبلہ کے عقائد کے برخلاف انہدام جنت البقیع کافتوی دیا چنانچہ آل سعودنے اسی فتویٰ کے بہانہ قبرستان بقیع کو ویران کرکے وہاں موجود تمام مزارات کو ڈھا کراسے مٹی کا ڈھیر بنا دیا اور اپنے اس فعل قبیح سے سامراجی آقاؤں کی خوش خدمتی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کا دل رنج وغم سے بھردیا ۔۔۔ چنانچہ وہ آج بھی اسی طرح ویران وتاراج ہے ۔۔۔ تویہ ہے اس کے خود ساختہ مالک و مختار کی داستان۔۔۔
اب رہی بات اس کے چاہنے والوں اور قدرشناسوں کی تو سنئےاس کے قدر شناس بھی ہیں اور چاہنے والے بھی ہیں مگران میں زیادہ ترمسافر اوردور دراز کے رہنے والے ہیں جو شوق زیارت میں جوق در جوق مدینہ کی طرف چلے آتے ہیں جیسےمدینہ منورہ کی گلی کوچوں میں زائرین کا ایک سیلاب ہے جو بقیع کے ویرانہ کی طرف امنڈتا آتاہے اور اس خاک کے بوسہ لینے کے لئے بے چین نظر آتا ہے لیکن زمانہ کی ستم ظریفی دیکھو یہاں کے سعودی حکمراں وھابی ازم کے سہارے آنے والے مسلمان زائرین کا استقبال کرنے کے بجائے انہیں زیارت سے روکتے ہیں تکلیفیں پہنچاتے ہیں اور اپنے بے ایمان شرطوں اور کرایہ کے مطووں کی مدد سے انہیں دھکے دیکر باہر نکالتے ہیں اور مطلق خیال تک نہیں کرتے کہ آنے والے مسافرین حاجی بھی ہیں زائر بھی ہیں جو ایک عمرحج و زیارت کی آرزو سینے میں لئےہوئے اپنا ملک ووطن چھوڑ کر شاید پہلی بارمدینہ میں ان کے مہمان ہوئے ہیں
۔۔۔چنانچہ یہ مہمان حجاج اور زائرین میزبان کی سنگ دلی وتعصب کو حیرت سے تکتے ہیں اور روتے بلکتے حسرت ویائس کے ساتھ آنسوؤں کا نذرانہ لیکر اپنی زبان بے زبانی سےخطاب کرکے کہتے ہیں۔
اے نبی کریم ص کے منتخب یادگار قبرستان اے رسول رحمت ص کے قدموں کوچومنے والی مبارک خاک ۔۔۔اے بقیع ۔۔۔اے خاصان خدا کے ویران مقبروں۔۔۔ اےبزرگان مدینہ کی آرام گاہوں۔۔۔ہمیں معاف کرنا کہ ہم تیرے میزبانوں کی کج رفتاری سے مجبور ہیں۔
وگرنہ ۔۔۔
ورنہ گرد تربتش گردیدمی
سجدھا بر خاک او پاشیدمی
مختصر سی قلم فرسائی کے بعدبارگاہ رسالت واھل بیت علیہم السلام میں یہی کہنے کو جی چاہتا ہے
ع گر قبول افتد زہ عز و شرف
کیونکہ
ع سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ونجف
خلاصہ
مدینہ منورہ کے مشرقی علاقہ میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے کچھ فاصلہ پر ایک قدیم قبرستان ہے جسے صدر اسلام میں ـ بقیع الغرقد ١ ـ یعنی خار دار جھاڑیوں والا ٹکڑا ؛ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مسلمانوں کے دفن کے لئے زمین کی تلاش ہوئی اور آپ اسی تلاش وجستجو میں اس مقام تک پہنچے توحاضرین سے خطاب کرکےفرمایا یہ زمین قبرستان قرار پائی ہے
چنانچہ ایک نقل کے مطابق صحابی رسول ص حضرت عثمان بن مظعون اور صحابی رسول ص اسعد بن زرارہ وہ پہلے حضرات ہیں جو بقیع میں دفن کئے گئے پھر رفتہ رفتہ یہ سرزمین اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اھل بیت رسالت علیہم السّلام اولاد نبی ص دختران پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم۔۔۔ودیگربزرگان مدینہ کا مدفن قرار پائی جس کی تفصیلات آپ آئندہ ملاحظہ فرمائیں گے
چنانچہ اب اسے جنت البقیع کے نام سے شہرت حاصل ہے اور عرف عام میں اسے۔ بقیہ ۔ بھی کہکر یاد کیا جاتا ہے
جنت البقیع کی شہرت کا راز
یہ بھی واقعیت ہے کہ جنت البقیع کی عالمی شہرت کا ایک اہم سبب یہاں موجود امامان شیعہ میں سے چار اماموں کےقبور مقدسہ ہیں جس پر پہلے گنبد اور سائبان تھاکہ جسے بعد میں سعودی حکومت نےڈھادیااوراس کے چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں کھڑی کردیں تاکہ اھل بیت علیھم السلام سے عقیدت ومحبت رکھنے والے وہاں تک نہ پہنچ سکیں
ع آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
جنت البقیع کی عظمتیں
آحادیث وروایات میں جو اس سرزمین کے فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں وہ اپنے مقام پر تو ہیں ہی اس سے قطع نظر کرتے ہوئےاس کی عظمت و جلالت اس لئے بھی ہے کہ پیغبر اکرم ص نے خوداس مقام کو قبرستان قرار دیا تھا اورآپ ہرشب جمعہ زیارت بقیع کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور اھل بقیع کی مغفرت کے لئے دعا فرماتے تھے
ـبحوالہ ابن قولویہ
چنانچہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی اتباع میں حضرات اھل بیت علیھم السلام بھی یہاں زیارت کو آیا کرتے ٢ اور مسلمانوں کی آمدورفت رہتی تھی حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم عقیل ابن ابی طالب علیہما السلام کے گھر کے پاس ـ جو بقیع میں میں تھا ـ کھڑے ہو کر اھل بقیع کے لئے دعا فرماتے تھے ٣
اسی وجہ سے شیعہ وسنی دونوں فرقہ کے علماء اھل بقیع کی زیارت کو مستحب جانتے ہیں ٤
اور اس کی عظمت کے پہلوؤں میں سے ایک پہلویہ بھی ہے کہ
وہ حجرہ جسے بیت الحزن یا بیت الاحزان کہا جاتا ہے جس میں جناب فاطمہ علیہا سلام اپنے پدر بزرگوار کی وفات حسرت آیات کے بعد گریہ وبکا کرتی تھیں وہ بھی اسی جنت البقیع میں واقع ہے٦
بقیع کے اہم مزارات
تاریخ نویسوں نے اس قبرستان میں دس ہزار قبروں کی نشاندھی کی ہے جن میں سرفہرست خاندان رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے چشم و چراغ دودمان علی وفاطمہ صلوٰۃ اللہ علیھم اجمعین حضرات امام حسن امام زین العابدین امام محمد باقر امام جعفرصادق علیہم السّلام کے قبور مقدسہ ہیں اور ان کے علاوہ آنحضرت ص کے چچا عباس بن عبدالمطلب پھوپھیاں بیویاں اور آپ صلی کے بیٹے اور بیٹیاں ـ جو آپ کی حیات طیبہ میں انتقال کرگئے تھے ـ مدفوں ہیں نیز یہیں صحابہ کرام تابعین عظام ودیگر مذاھب کے ائمہ کی قبریں بھی موجود ہیں اور بہت سے علماء و شہداء اسلام بھی پیوند خاک ہیں
قابل ذکر ہے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی والدہ گرامی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی چہیتی چچی جناب فاطمہ بنت اسد رض بھی قبرستان بقیع میں آرام فرما ہیں چنانچہ سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنی شہادت سے قبل وصیت کی تھی ۔
؛ کہ اگر مجھے میرے جد بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بغل میں دفن ہونے سے روکا جائے تو پھر مجھے میری جدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد رض کی قبر کے بغل میں دفن کردیا جائے
غور طلب ہے کہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ بقیع میں بنت نبی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی مدفون ہیں واللہ اعلم
بقیع میں گنبد وبارگاہ
صدر اسلام سےدور صحابہ کرام تک اور پھر دور بنی امیہ ـ ٤١ تا سن ١٣٢ ھ۔ سے لیکر دور بنی عباس ـ ١٣١ ھ تا ٦٥٦ ھ ـ تک جنت البقیع مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور طول تاریخ میں مسلمانوں کے دفن وکفن کے علاوہ یہاں پر گھروں کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے اور تاریخی شواہد کی رو سے خاندان بنی عبدالمطلب میں پہلے تو عقیل ابن ابی طالب علیہما السلام نے بقیع میں گھر بنایا ٨
کہ بعد میں عباس بن عبدالمطلب ـ پیغمبر اسلام کے چچا اورسلطنت عباسیہ کے پدر ـ اسی مکان میں دفن کئے گئےاور پھر امام حسن امام زین العابدین امام محمد باقر امام جعفرصادق علیہم السلام بھی یہیں پیوند خاک ہوئے چنانچہ بنی عباس نے اپنے دور اقتدار میں اس پر گنبد بنایا مسجد بنوائی اور عمارت تعمیر کرائی ٩
بنابریں جنت البقیع میں مزارات کا وجود کوئی نئی بات نہیں جسے بدعت تصور کیا جائےبلکہ یہاں قبروں پر بلند وعالی گنبدوں کے تعمیر کے ساتھ ساتھ عمارتوں کی تزئین کاری وغیرہ کا کام بھی قدیم زمانہ سے ہوتا آیا ہے جس کا پتہ اس زمانہ کے سیاحوں کے سفرناموں سے بھی لگتا ہے جنہوں نے مکہ ومدینہ کی سیاحت کی تھی چنانچہ ہم یہاں قارئین کے لئے ثبوت کے طور پر بعض سفرنامہ کا ذکرکرتے ہیں ۔
ابن جبیر ـ ٦١٤ ھ ـ جس نے چونتیسویں عباسی خلیفہ کے زمانہ میں مدینہ کا سفر کیا تھا اپنے سفرنامہ میں لکھتا ہے ؛ بقیع مدینہ کے مشرق میں واقع ہے جس کی طرف شہر کی جانب سے ـ باب البقیع ـ نام کا ایک دروازہ کھلتا ہے؛ ۔۔۔پھر مزارات بقیع کا ذکر کرتے ہوئے عباس بن عبدالمطلب اور حسن بن علی علیہ السّلام کے روضہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس پر بناۓ گۓ گنبد کی توصیف میں تزئین کاری اور اس کی بناوٹ کو نہایت حسن وخوبی سے بیان کرنے کے بعد ـ بیت الحزن ـ کو قبہ عباسیہ کے نام سے یاد کرتا ہے ١٠
اسی طرح ابن نجار ـ متوفی ٦٤٣ ھـ نےبزرگان بقیع کی قبروں کو یاد کرتے ہوئے عباس بن عبدالمطلب اور ائمہ بقیع میں سے دو ہستیوں امام حسن علیہ السّلام اور امام زین العابدین علیہ السلام کے نام درج کرنےکے بعد اس پر بناۓ گۓ بلندوعالی قدیمی گنبد کی نشاندھی کی ہے اور مزارات بقیع کی زیارت کے لئے روزآنہ زائرین کے لئے جو دو دروازہ کھولے جاتے ہیں اس کا بھی ذکر کیا ہے اسی طرح فاطمہ بنت اسد رض مادر علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور قبر عثمان پر تعمیر کئے گئے قبہ کا بھی تذکرہ کیا ہے ١١
اسی طرح
مشہور سیاہ ابن بطوطہ نے ـ سن ٧٢٥ ھـ مکہ اور مدینہ کی سیاحت کی ہے اور اس سفر کی روداد لکھی ہےابن بطوطہ قبرستان بقیع کے مزارات کا ذکرکرتے ہوئے اپنے سفرنامہ میں مختلف قبروں پر تعمیر شدہ مقبروں اورگنبدوں کے بارے میں معلومات دیتا ہے١٢
جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم سے بقیع میں قبروں اور بہت سی لحدوں پر قبہ تعمیر ہوچکے تھے اور لوگ باقاعدہ اس کی زیارت کو آتے تھے۔
وھابی ٹولہ کی بدعتیں
خاندان سعود نے جب وقت کے سامراج اور کویتی امیر الصباح کی مالی وسیاسی حمایت سے حجاز کو اپنے قبضہ میں کرناچاہاتو اسے مالی وسیاسی حمایت کے ساتھ ساتھ شدت سے مذہبی پشت پناہی کی بھی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ خطہ میں اپنےمقاصد کو پورا کرسکے لہذا العینیہ نجد کے قاضی شیخ عبد الوھاب کے چھوٹےبیٹے محمد کی خدمت حاصل کی جو برطانوی جاسوس ـ مسڑر ہمفرے کے اعترافات کے مطابق ـ برطانیہ کے استعماری مشن کے لئے اپنے خاص آراو افکار کے سبب پہلے ہی سےمدنظر تھاجو ـ اپنے باپ شیخ عبد الوھاب اور بڑے بھائی قاضی سلیمان بن عبد الوھاب کی بار بار نصحیتوں کے باوجود اپنے انحراف پرڈٹارہا ـ بعد میں ایک نیا فرقہ بنالیا ـ اورباپ نے اس کے انحرافات کی وجہ سے اسے العینیہ سے باہر نکال دیا اور بڑے بھائی قاضی سلیمان بن عبد الوھاب نے اپنے چھوٹے بھائی محمد بن عبد الوھاب کے خلاف کتاب لکھی اور اسکے منحرفانہ عقائد کو باطل قرار دیا ـ
دیکھیے ؛ الصواعق اللھیہ فی الرد علی الوھابیہ سلیمان بن عبد الوھاب ١٢٠٨ ھ ق ـ
اور سلیمان بن عبد الوھاب کے بقول محمد متضاد خیالات کا حامل تھااور اس کے قول وعمل میں ٹکراؤ پایا جاتا تھا۔ چنانچہ یہی شخص آگے چلکر آل سعود کی حکومت کے استحکام کےلئے بڑا پشت پناہ بنا اور شعوری یا لاشعوری طور پر سامراجی ایجنڈہ کی تکمیل میں معاون ثابت ہوا
وھابیت کی ترویج میں استبداد
محمد بن عبد الوھاب نے اپنے مکتب وھابیت کی ترویج میں لوگوں کے ساتھ زور وزبردستی کی اور مخالفت کرنے والوں کوبے رحمی سے قتل کیا اوران کےمال واسباب اپنے اتباع وانصار کے لئے مباح قرار دےدیا جس کی وجہ سے حجاز میں خوف ودہشت کا ماحول پیدا ہوگیا اور خطہ میں سنیت کے پردہ میں وھابیت چھاگئ
بعض اہم وھابی عقائد
وھابی فرقہ کے بانی محمد بن عبد الوھاب نجدی کے نزدیک قبروں کی زیارت کرنا وہاں بیٹھنا اور اس پر گنبد وسائبان تعمیر کرنا اولیاء خدا سے توسل وتبرک وغیرہ کرنایہ سب بدعت ہےلہذا محمد بن عبد الوھاب نے اپنے انہیں خیالات کی بنیاد پر انہدام قبورمیں کوئی کوتاہی نہیں کی یہاں تک کہ حاکم وقت سعود بن عبدالعزیز نے ـ سن١٢٢٠ ھ ـ میں اسی وھابی ٹولہ کی شہ پر جنت البقیع کے مزارات کوڈھا کراسے ویران کردیا ۔۔۔
مبصرین کی رائے کے مطابق یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے روضہ اقدس کو بھی توڑنے کی فکر میں تھےمگر مسلمانوں کی مخالفت کے خوف اورڈرسے اسے نہ توڑ سکے ؟ چنانچہ سلطان محمود دوم ترکی امپائر ـ حکومت ١٢٢٣ ھ تا ١٢٥٥ ھ ـ نے سن ١٢٣٣ ھ میں لشکر کشی کرکے جنت البقیع کو واپس لے لیا اوران مزارات کی تعمیر نو کا حکم دیا ١٣
لیکن جب ترکی امپائر کا زوال ہوا اور حجاز پرآل سعود کا مکمل قبضہ ہوگیا تو محمد بن عبد الوھاب کو اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت کی کھلی چھوٹ مل گئی دھیرے دھیرے خطہ میں ہر طرف وھابیت چھانے لگی اورپھر وھابیت کی طرف سے اسلام کی غلط توجیہ وتفسیر نے دنیا بھر میں غلط فہمیاں پھیلا ئیں جس کے سبب سے اسلام کا تابناک چہرہ دھندلاہوگیااور اسلامی رواداری برادری وبرابری رافت ورحمت کے بجائے خوف ودہشت وخوں ریزی نےاپنی جگہ بنا لی جس کے اثر سے عرب خطہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دور تعصب و جہالت شرک وبدعت اوراھل قبلہ کی تکفیر کےنعروں سےگونجنے لگا اور اسلام کی بدنامی ہوئی ۔۔۔
محمد بن عبد الوھاب اور آل سعود کے اتحادنے سامراج کی خوب اچھی طرح سے خدمت کی اور مذہب کے نام پر ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کےبعدان کے مال واسباب لوٹ لئے اورحجاز کے علاقوں میں قتل وغارت کرنے بعد انہوں نے عراق کا رخ کیا اور کربلا ونجف میں لوٹ مار کی۔۔۔ اور اس طرح سے دنیا بھر میں اسلام کی صورت بگاڑ کر رکھ دی جس کے نتیجے میں مسلمان مغربی ممالک بلکہ دنیا بھر میں شک کی نگاہ سے دیکھے جانے لگےاور اسلام امن وصلح کےبجائےدہشت گردی کا مذہب بتایا جانے لگا۔۔۔
٨ شوال یوم انہدام جنت البقیع کی تاریخ
٨ شوال سن ١٣٤٤ ھ کوآل سعود نے ایک بار پھر بقیع پر حملہ کرکے مزارات کو منہدم کر نے کے ساتھ ساتھ ائمہ اہل بیت علیہم السّلام کے روضہ کو بھی مسمار کردیا جس پر دنیا بھر کےمسلمانوں نے زبردست احتجاج کیا من جملہ ہندوستان اور ایران کے شیعوں نے بھی اس یوم سیاہ پر سخت غم وغصہ کا اظہار کیا اوراس تاریخ سے مسلسل آٹھ شوال یوم انہدام جنت البقیع کے عنوان سے منایا جاتا ہے اوراس موقع پر بقیع کی تعمیر نو کا مطالبہ دہرایا جاتاہے جو آج تک پورا نہ ہوا ۔۔۔
وسیعلمون ظلموا ای من قلب ینقلبون
افسوس کہ آج سن ١٤٤٤ ھ میں انہدام جنت البقیع کےسوسال ہوچکےہیں مگرجنت البقیع اسی طرح ویران وتاراج دنیا کے سامنے آل سعود کے ظلم و تشدد کامرقع بن کر انصاف کا تقاضہ کررہی ہے ۔۔۔
وھابیت کا زور ٹوٹ چکا ہے
الحمد للہ اب وھابیت کا پول کھل چکا ہے اس کا زور ٹوٹ چکا ہےاور یہ فتنہ اپنی ہی جائے پیدائش میں ابھر کر اب دفن ہونےکوہے اب یہ لفظ اتنا بدنام ہےکہ لوگ اسے گالی سےکم نہیں سمجھتے
دور حاضر کے مسلمان بیدارہیں انہیں فقہی احکام بھی معلوم ہیں اسلامی عقائد بھی اس لئے پڑھے لکھے مسلمانوں کے اندروھابی ازم کی نہ جگہ باقی ہے نہ کوئی عزت ہے۔
سعودی حکومت سے وہی اپیل
ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ سعودی حکومت ماضی میں لگے ہوئےان سیاہ دھبوں کو اپنے دامن سے صاف کرنے کی کوشش کرے گی اورجنت البقیع کی عزت و حرمت کا خیال رکھتے ہوئے اس کی تعمیر نو کے لیے آگے آئے گی اور دنیا کے تمام مسلمانوں سےعذرخواہی کرکے مسلمانوں کے زخمی دلوں کے لئے تسلی و تشفی کا باعث ہوگی ۔۔۔
اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرے گی
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ
9451017813
ہندوستان لکھنؤ
حوالہ جات
١ لسان العرب ابن منظور ج ١ ص ٤٦٢
القاموس المحیط ج ٣
٢ابن کثیر ج ٨ ص ٢٢٨
٣ وفاء الوفاء ج٣ ص ٨٩ سمھودی
٤؛٥ شربینی ص٥١٣ ؛ابن الحاج وبھوتی ج ٢ ص ٦١ سنی علماء
ابن براج؛ ومحقق حلی شیعہ علماء
وفاء الوفاء ج ٣ ص٩٠٧ سمھودی
٦ الارشاد مفید ج٣ ١٧
٧ تاریخ مدینہ منورہ ابن شبہ
٨ ابن شبہ ص ١١٦
٩ تاریخ حرم ائمہ نجمی ص ٨٦
١٠ سفرنامہ ابن جبیر ص ٢٤٥
١١ ١٢ اخبار المدینہ ص ١٦٦ ابن نجار
رحلہ ابن بطوطہ ص ١٦٤
١٣ من اخبار الحجاز والنجد ص ١٠٢ البقیع قصت الدمیر ٨٤
١٤ کشف الارتیاب ص ٣٨علامہ محسن امین و پنجاہ سفرنامہ ج ٣ ص ١٨٦
١٥ اڈورڈ جان مصر فی القرن التاسع عشر انگریزی سے عربی ترجمہ از محمد مسعود سن ١٣٤٠ ھ
تبصرہ کریں