جنگ صہیونی ریاست کے اندر کیونکر منتقل ہوئی؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حالیہ ہفتوں میں فلسطینی مجاہدین کی کاروائیوں کی حدود جنین نابلس اور جنوب سے مقبوضہ قدس شریف تک پھیل گئی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ یہودی ریاست کے حکمرانوں کے بقول، “ماضی میں جنگ اسرائیل کے خلاف [باہر سے] ہؤا کرتی تھی اور آج جنگ اسرائیل کے اندر ہے”۔
جنگ صہیونی ریاست کے اندر کیونکر منتقل ہوئی؟
دریائے اردن کے مغربی کنارے کے حالیہ مہینوں کی صورت حال سے بالکل واضح ہؤا کہ غاصب صہیونیوں کے خلاف ایک نیا میدان جنگ معرض وجود میں آ چکا ہے، جو اپنی شکل و صورت اور اثرات کے لحاظ سے بالکل مختلف خصوصیات کا حامل ہے اور یہ صورت حال صہیونی ریاست کے انٹیلیجنس اور فوجی مشینریوں کے اندر بے مثل حیرت اور پریشان کا سبب بنی ہوئی ہے۔
گوکہ صہیونی خفیہ ادارے کہتے ہیں کہ مغربی کنارے میں انتفاضہ تحریک کی نئی لہر کی پیشن گوئی چند سال قبل کی جا چکی تھی، لیکن صہیونیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ انتفاضہ پہلے اور دوسرے انتفاضہ تحریکوں جیسا ہوگا اور انہیں موجودہ صورت حال کا سامنا کرنے کی توقع ہرگز نہ تھی۔
مغربی کنارے کو اسلحے سے لیس کرنے کی ہدایت چند سال قبل ہی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے دی تھی، اور اب مغربی کنارے کا مسلح ہونا اور اس علاقے نیز 1948ع کی مقبوضہ فلسطینی اراضی میں مقاومت فلسطین کا طاقتور ہونا، ایک ایسی حقیقت ہے کہ صہیونی اس کا باضابطہ اعتراف کرتے ہیں اور آج اتنی ساری سازشوں اور مظالم، اور عرب حکمرانوں کی غداریوں، کے باوجود آج مقبوضہ فلسطین کا ایک نقطہ بھی صہیونیوں کے لئے پر امن نہیں رہا ہے۔
فلسطینی مجاہدین کی کاروائیوں کی حدود حالیہ ہفتوں میں جنین نابلس اور جنوب سے مقبوضہ قدس شریف تک پھیل گئی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ یہودی ریاست کے حکمرانوں کے بقول، “ماضی میں جنگ اسرائیل کے خلاف [باہر سے] ہؤا کرتی تھی اور آج جنگ اسرائیل کے اندر ہے”۔
ماضی میں فلسطینی مجاہدین صہیونیوں کے خلاف ہفتوں اور مہینوں میں کوئی کاروائی کرتے تھے لیکن حالیہ چند سالوں سے وہ ہر روز اور کبھی ہر دن کئی کاروائیاں کرتے ہیں، جس کی وجہ سے متعدد دیہی اور شہری علاقے سرگرم عمل اس انتفاضہ میں شامل ہوئے ہیں اور رات کی تاریکی میں مجاہدین کی گرفتاری کے لئے فلسطینی محلات، دیہاتوں اور شہروں پر صہیونی گماشتوں کے حملوں اور علاقے کے عوام پر ظلم و ستم کی وجہ سے صہیونیوں کو ان کی طرف سے کئی مرتبہ تشدد آمیز رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
صہیونیوں کو درپیش ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب فلسطینی مجاہدین انفرادی طور پر یا دو اور دو سے زیادہ افراد پر مشتمل گروپوں کے حملوں کا سامنا ہے جو کسی بھی مقاومتی تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں اور ان کی کاروائیوں کے جواب میں کسی تنظیم پر وار کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ یہ گروپ عَرِيْنُ الْأُسُودِ (شیروں کی کچھار) نامی انجانی تنظیم کے نام پر کاروائیاں کرتے ہیں اور ان کی شناخت مکمل طور پر درپردہ ہے۔ غاصبوں کے خلاف ان کی مختلف کاروائیوں کی منصوبہ بندی بالکل مختلف انداز سے ہوتی ہے اور کاروائیاں بھی بالکل مختلف طریقوں سے، غیر متوقعہ انداز، میں عمل میں لائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے غاصب ریاست کے خفیہ اور سیکورٹی ادارے حقیقی معنوں میں حیران و پریشان ہیں۔
سنہ 2022ع کے آغاز سے اب تک ان افراد نے غاصب صہیونی افواج پر ایک ہزار مسلحانہ حملے کئے ہیں؛ اور یہ تمام کاروائیاں پیشگی منصوبہ بندی کے عین مطابق انجام کو پہنچی ہیں۔ اگرچہ صہیونی گماشتے بھی ان کاروائیوں کا جواب ہتھیاروں سے دیتے ہیں، لیکن صہیونی کاروائیاں فلسطینی مجاہدوں کے حملے کم نہیں کر سکے ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
گذشتہ نو مہینوں میں غاصب یہودی ریاست کے خلاف کاروائیوں میں 90 سے زائد فلسطینی مجاہدین جام شہادت نوش کر چکے ہیں، چنانچہ ان کاروائیوں کے شہداء کی تعداد سنہ 2021ع میں ہونے والی جنگ “سیف القدس” – جس کے نتیجے میں فلسطینی خواتین اور بچوں سمیت 79 افراد شہید ہوئے تھے – سے زیادہ ہے۔
شہداء کی کثیر تعداد اور ان کے جنازے کی رسومات اور ان کے ایصال ثواب کے لئے ہونے والی مجالس، غاصبوں کے خلاف کاروائیوں میں مزید شدت و حدت آنے کا سبب ہیں، اور یوں مقاومت کی کاروائیوں کی جغرافیائی حدود اور میدان جنگ کی وسعت میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔
ادھر مجاہدین کی گرفتاری کی غرض سے فلسطینی اکثریتی علاقوں پر یہودی افواج کے مسلسل حملے – جو ان علاقوں کے مکینوں کے سخت رد عمل کا سبب بھی ہیں – نیز وسیع پیمانے پر فلسطینیوں کی گرفتاریاں بجائے خود صہیونی غاصبوں کے لئے ایک پیچیدہ مشکلات کا سبب بن رہی ہیں۔
صہیونی وزیر جنگ بینی گانتز نے ان اقدامات کے غیر متوقعہ نتائج سے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں سرکاری احکامات کی تعمیل کے لئے داخل ہونے والے فوجیوں کی کاروائیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ کاروائیاں زیادہ باریک بینی کے ساتھ انجام پائیں اور فلسطینیوں کے جانی نقصانات میں کمی آ سکے۔
مغربی کنارے کی موجودہ صورت حال اور اس کے مقابلے میں یہودی ریاست کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کی بے بسی، غاصب ریاست کے سیاسی اور ابلاغیاتی حلقوں میں وسیع پیمانے پر رد عمل کا باعث ہوئی ہے یہاں تک کہ مختلف سطحوں کے اہلکار خفیہ اور اعلانیہ اجلاسوں میں ایک دوسرے پر تنقید و سرزنش کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ فلسطین کی نام نہاد خودمختار حکومت (فلسطینی اتھارٹی)، جو در حقیقت غاصب ریاست کے لئے ڈھال کا کردار ادا کرتی رہی ہے، شدید کمزوری سے دوچار ہوئی ہے، اور اس کے بہائی فرقے کے پیروکار سربراہ محمود عباس (ابو مازن) کا کوئی متبادل بھی نہیں ہے چنانچہ اس حوالے سے بھی اسے بحران کا سامنا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کا سیکورٹی ادارہ فلسطینی مجاہدین پر قابو پانے اور ان کو اتھارٹی کی عملداری سے باہر کے علاقوں میں گھسنے سے روکنے کے لئے تمام تر کوششیں بروئے کار لا چکا ہے لیکن مجاہدین کی کاروائیوں کی نئی لہر نے – جس کو تیسری انتفاضہ تحریک کا نام بھی دیا جا رہا ہے – اس کی کوششوں کو عملی طور پر ناکام بنایا ہے۔
صہیونی ریاست کئی سال پہلے سے، ایک طویل المدت حکمت عملی کے دائرے میں – جو فلسطینی اکثریتی علاقوں میں معیشت کو بہتر کرنے اور نوجوانوں کو مغربی ثقافت میں الجھانے کی غرض سے تیار کی گئی تھی – فلسطینی نوجوانوں کو غاصبوں کے خلاف جدوجہد سے دور کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ لیکن نوجوان اور پرعزم نوجوانوں کی علمبرداری میں صہیونیوں کے خلاف جدوجہد میں شدت آنے سے معلوم ہؤا کہ فلسطین کاز اس سرزمین کے عوام کے دلوں سے کبھی بھی نہیں نکلے گا؛ بلکہ یہ لوگ اپنی آزادی کے لئے نت نئی روشیں اختیار کرتے رہیں گے۔
اس حقیقت کے متعدد مظاہر بھی سامنے آتے رہے ہیں جیسا کہ یہودی ریاست کے حکمران تین عشروں سے دعویٰ کرتے رہے تھے کہ فلسطینیوں کی نئی نسل کے نوجوان جو مغربی کنارے اور 1948ع کی مقبوضہ اراضی میں پیدا ہوئے ہیں اور اپنی عمر کے پورے ایام جعلی صہیونی ریاست کے سائے میں گذار چکے ہیں، بالکل خوش اور راضی ہیں اور سابقہ فلسطینی نسلوں سے مختلف ہیں!
حالانکہ مغربی کنارے میں حالیہ چند مہینوں میں انجام پانے والی کاروائیوں کے وجہ سے – اس یہودی دعوے کے مقابلے میں – سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں اور اب جعلی ریاست کے حکمران علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ فلسطین کی نئی اور نوجوان نسل نہ صرف اپنے اسلاف کی طرح قبضے اور غصب کے خلاف ہے بلکہ یہ نوجوان گذشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ بہادر اور نڈر ہیں اور [اور ان کی ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ “یہ] کسی طرح بھی موت سے خوفزدہ نہیں ہو رہے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں