ماتی کوچاوی کون ہے؟ ۲

حفاظتی سلوشنز کی 4D کمپنی کا قیام

ایک سو (100) سے بھی زیادہ ڈاکٹر اور ماہر انجنیئر اس مجموعے کے مشینی امور، مصنوعی ذہانت اور اشیاء کا انٹرنیٹ میں کام کر رہے ہیں؛ اور سینسرز سے حاصل ہونے والی معلومات کے پراسیسنگ اور تجزیئے میں مصروف ہیں تا کہ فزیکی ماحولیات کو قابل فہم بنا دیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
حفاظتی سلوشنز کی 4D کمپنی (19) (جس کو اگلی سطور میں اختصار کی خاطر 4Dکہا جائے گا) کی بنیاد سنہ 2004ع‍ میں ریاست ہائے متحدہ کے نیوجرسی میں رکھی گئی۔ یہ کمپنی نگرانی اور صورتحال / حالات سے آگاہی (20) کا نظام فراہم کرنے میں مہارت رکھتی ہے اور حال حاضر میں دنیا بھر کے بہت حساس اور اہم مراکز اس کمپنی کی سلوشنز کے سہارے اپنا تحفظ کرتے ہیں۔ 4D موجودہ سیکورٹی نظامات کو بہتر بنانے، اپ گریڈ کرنے اور منظم کرنے میں بھی مہارت رکھتا ہے اور اپنے صارفین کی ضروریات کی بنیاد پر نئے سسٹمز کو ڈیزائن اور تیار کرتا ہے۔ ہوائی اڈے، تیل صاف کرنے کے کارخانے، پیٹرو کیمیکلز، سرحدیں، ریلوے لائنز اور ٹرمینلز، بندرگاہیں اور شہری تنصیبات اس کمپنی کے اہم ترین گاہک ہیں۔ (21)
جو چیز اس کمپنی کو ایک خاص کھلاڑی کا درجہ دیتی ہے، اس کی پالیسی سیکیورٹی ٹیکنالوجیز اور ڈیٹا کے تجزیات کی تیاری ہے۔ 4D کا مصنوعی ذہانت اور اشیاء کے انٹرنیٹ پر ارتکاز، اور ان دونوں کی مصنوعی ذہانت سے لیس پلیٹ فارموں کے سانچے میں یکجائی، اور ایک سینسر نیٹ ورک سے اس کا اتصال، اسے ماحول کے انتظام اور کنٹرول کے ساتھ ساتھ ڈیٹا کے بہاؤ کا تجزیہ کرنے اور سمجھنے کے لئے انتہائی مخصوص آلات تیار کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہاں اس کمپنی کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے۔ 4D کا تنظیمی ڈھانچہ ذیل کے تین شعبوں پر مشتمل ہے:
◄ اشیاء کے انٹرنیٹ کا نیٹ ورک، جو مصنوعی ذہانت سے لیس ہے
◄ شو روم
◄ تجربہ گاہ کا کمرہ
ان تین شعبوں میں سے ہر ایک کی اپنی مصنوعات اور سلوشنز ہیں جو دوسرے دو شعبوں سے بھی مربوط اور تعاونی عمل میں جڑے ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر مصنوعی ذہانت سے لیس پلیٹ فارمز جو اشیاء کے انٹرنیٹ کو تشکیل دیتے ہیں، شناختی (علمی) اور حسی عمل کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں جو پیچیدہ فزیکی ماحول کے ادراک کو ممکن بناتے ہیں۔ اس طرح 4D میں تیار کردہ آلات وہ سب کچھ تیار کرلیتے ہیں جو سینسر کے ذریعے فزیکی دنیا کا احساس اور ادراک کرنے، اس کے بارے میں تعامل کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کے لئے درکار ہیں۔
کوچاوی نے اس کمپنی کی بنیاد رکھ کر سلامتی کے میدان کے ایک بہت زیادہ تزویراتی شعبے پر ارتکاز کیا ہؤا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے لیس پلیٹ فارم سے فائدہ لے کر اشیاء کے انٹرنیٹ کے ذریعے ڈیٹا کلیکشن ایک ملک کے تمام بنیادی ڈھانچوں میں قابل استعمال ہے۔ ذیل کے تمام تر شعبے 4D کے تیار کردہ آلات اور سلوشنز کو بروئے کار لاتے ہیں:

◄ ٹریفک کنٹرول (فضا، ریلوے اور زمینی)؛
◄ عمومی آمد و رفت کا انتظام؛
◄ سرحدوں کی نگرانی اور حفاظت؛
◄ بند ماحول کا تحفظ (دفتر، صنعتی، تجارتی، بینکاری، وغیرہ)؛
◄ بنیادی ڈھانچے کی صنعتوں میں کام کے عمل کی درستگی کا انتظام اور تحفظ۔
مجموعی طور پر جو مصنوعات اشیاء کے انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھاتی ہیں، وہ 4D مصنوعی ذہانت کے تخصصی پلیٹ فارموں کی گاہک بن سکتی ہیں۔ نیز، یہ ذکر کرنا لازم ہے کہ اس کمپنی کی انتظامی ٹیم امریکہ کے جاسوسی-سیکورٹی اداروں کے سابق افسروں تھامس بیٹرو (22) اور جان گل (23) پر مشتمل ہے۔ یہ دو افراد کوچاوی اور امریکہ کے سیکورٹی اور جاسوسی اداروں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اور بالفاظ دیگر ان دو افراد کو کوچاوی اور امریکہ کے خفیہ اداروں کے درمیان رابطے کا پل قرار دیا جا سکتا ہے۔

“ماتی کوچاوی” فروری 2014ع‍ کے وسط میں مقبوضہ فلسطین میں؛ کوچاوی نہ صرف جاسوسی کی سرگرمیوں میں سرگرم ہر بلکہ اسرائیلی مفادات کی خاطر ثقافت اور ابلاغیات میں بھی فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

“اے جی ٹی انٹرنیشنل” ان کمپنیوں میں سے ایک ہے جنہيں ماتی کوچاوی نے تاسیس کیا ہے۔ اے جی ٹی ایشیا گلوبل ٹیکنالوجی کا مخفف ہے۔

4D کے اندر سے “AGT انٹرنیشنل” کی پیدائش
4D سیکیورٹی سلوشنز کمپنی کے اہم حصوں میں سے ایک اس کا لیبارٹری روم ہے جو سنہ 2007ع‍ میں ایک مستقل کمپنی بنام “اے جی ٹی انٹرنیشنل” (24) میں تبدیل ہؤا۔ اس کمپنی کو سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورخ (Zurich) میں رجسٹر کرایا گیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین، جرمنی، اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں اے جی ٹی کے ذیلی نیٹ ورک کے 2000 کارکن ہیں۔ یہ کمپنی اپنی مصنوعات اور خدمات کی فروخت سے سالانہ سات ارب ڈالر سے زائد منافع کماتی ہے۔ یہ کمپنی مختلف تجربہ گاہوں سے استفادہ کرتے ہے – جو کمپیوٹر پیشین گوئی، معنویات، (Semantics) اور استدلال، حرکات و سکنات اور جذبات کی تشخیص کی مہارت رکھتے ہیں – اپنی مصنوعات کو مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر تیار کرتے ہیں۔ (25)
ایک سو (100) سے بھی زیادہ ڈاکٹر اور ماہر انجنیئر اس مجموعے کے مشینی امور، مصنوعی ذہانت اور اشیاء کا انٹرنیٹ میں کام کر رہے ہیں؛ اور سینسرز سے حاصل ہونے والی معلومات کے پراسیسنگ اور تجزیئے میں مصروف ہیں تا کہ فزیکی ماحولیات کو قابل فہم بنا دیں۔ دوسرے لفظوں میں اے جی ٹی اس ہر چیز کو مکمل کرکے ترقی اور فروغ دیتی ہے جو 4D نے تیار کی ہوتی ہے۔ نیز اے جی ٹی بین الاقوامی سطح پر – بالخصوص مشرق وسطیٰ کے خطے اور خاص الخاص طور پر متحدہ عرب امارات میں – ماتی کوچاوی کی سرگرمیوں کا موجب ہے۔ امارات میں ماتی کوچاوی کا چھ ارب ڈالر کا کاروبار اے جی ٹی کے کندھوں پر چل رہا ہے۔ یہ کمپنی اس ڈیٹا کے تجزیئے اور پروسیسنگ کے لئے مصنوعی ذہانت سے لیس حل/آلات فراہم کرتی ہے جنہیں اشیاء کے انٹرنیٹ کے نیٹ ورک یا پھر اے جی ٹی نے تیار کیا ہو تا ہے۔
اے جی ٹی اور متحدہ عرب امارات میں دنیا کے سب سے جامع ترین مدغم سیکورٹی نظام
اس کمپنی کا ایک اہم ترین منصوبہ – جس کے بدولت کوچاوی دنیا میں سائبر سیکورٹی کے میدان میں نمایاں چہرہ بن گیا – امارات اے جی ٹی کا سرحدی حفاظتی منصوبہ تھا۔ کوچاوی نے اس کمنی کے توسط سے ایک ایسی پیداوار امارات کو بیچ ڈالی جو اپنے دور میں دنیا کا جامع ترین ادغامی سیکورٹی نظام سمجھی جاتی تھی۔ سنہ 2007ع‍ سے 2017ع‍ تک اے جی ٹی نے امارات کی 620 کلومیٹر سرحد اور پورے ابوظہبی میں ایک ہزار کیمرے، سینسرز اور راڈار نصب گئے۔ اے جی ٹی کی مصنوعی ذہانت کا پلیٹ فارم جس کا کوڈ نام Wisdom ہے۔

گوکہ اے جی ٹی زیورخ میں تعینات ہے اور اس کی سرگرمیوں کا انتظام امریکہ سے چلایا جاتا ہے لیکن ان ساری سرگرمیوں کا ماسٹر مائنڈ مقبوضہ فلسطین میں کوچاوی ہی کی ایک کمپنی “لاجک انڈسٹریز” (Logic Industries Ltd) ہے۔ اگلی سطور میں اس کا مختصر تعارف پیش کیا جائے گا۔
امارات میں منصوبے پر عمل درآمد کی کیفیت بھی کوچاوی اور عالمی اور بالخصوص خلیج فارس کی سطح پر اس کی سرگرمیوں کے بارے میں بہت سے پیغامات کی حامل ہے۔ جس وقت یہ منصوبہ اپنے عروج پر تھا، ایک سفید رنگ کا بوئنگ 737 طیارہ تسلسل کے ساتھ تل ابیب کے بن گورین ہوائی اڈے سے اڑ کر سیاسی ڈھال کے طور پر قبرس یا اردن میں اتر کر تین یا چار گھنٹے بعد ابو ظہبی کی طرف پرواز کرتا اور کئی یہودی انجنیئروں کو امارات منتقل کرتے تھا۔ ان بظاہر انجنیئروں ميں سے بہت سے صہیونی ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کے ملازم تھے۔
یہ لوگ ساتھ رہتے، ساتھ گھومتے اور کسی ریسٹوران وغیرہ میں نہیں بیٹھتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ ٹریکرز اور ٹریسرز کے ساتھ ساتھ ہنگامی ضرورت کے وسائل بھی اٹھا کر لے جاتے تھے۔ وہ اپنی قومیت اور عبرانی نام و نشان کو بہترین انداز سے، صیغۂ راز میں رکھتے تھے۔ اسرائیل کے بجائے ملک سی (C Country) کا نام لیتے تھے اور ماتی کوچاوی کا نام لینے کے بجائے ایم کے (MK) پر اکتفا کرتے تھے۔
جو عرب اس سے پہلے اے جی ٹی کے ساتھ تعاون کرتے تھے اس کو ایک سوئس کمپنی سمجھتے تھے؛ یہی وجہ تھی کہ کبھی کبھار اختلافات کے باوجود وہ کوچاوی کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم رکھتے تھے۔ کوچاوی کے ماتحت ماہرین ساتھ کام کرنے والے اماراتی باشندوں کی اکثریت کا تعلق سیکورٹی اداروں سے تھا جن میں سے کچھ کو تو ہرگز معلوم نہ ہوسکا کہ جس ٹیکنالوجی کو وہ بروائے کار لا رہے ہیں، خالصتاً اسرائیلی ٹیکنالوجی ہے۔ (26)

“ماتی کوچاوی” نے انٹرنیٹ اور سائبر اسپیس کے پوشیدہ اور تاریک گوشوں کے بارے میں “ڈارک نیٹ” پروگراموں کی ایک سیریز بنائی ہے، لیکن بعید از قیاس نہیں ہے کہ وہ خود بھی اس اسپیس کے اداکاروں میں سے ایک ہو۔

دسمبر سنہ 2014ع‍ میں اس ٹیکنالوجی کی قدر و قیمت اور افادیت واضح ہوئی؛ جب ایک اماراتی عورت نے امریکی اسکول کی ایک استانی کو ابو ظہبی کے ایک شاپنگ سینٹر کے بیت الخلاء میں، چاقو کے وار سے قتل کیا۔ یہ عورت بعدازاں ایک مصری ڈاکٹر کے گھر پہنچی اور وہاں ایک بم رکھا جسے بعد میں ناکارہ بنایا گیا۔ اے جی ٹی کمپنی نے ویڈیو اور متعلقہ مقامات کی تصویروں کی پراسیسنگ کے ذریعے 24 گھنٹوں میں ہی مشتبہ عورت کا سراغ لگا لیا، جسے فوری طور پر گرفتار کیا گیا، اس پر مقدمہ چلایا گیا اور سات مہینے بعد موت کی سزا دی گئی۔ اسی واقعے نے مناسب پلیٹ فارم فراہم کیا اور یہ اسرائیلی ٹیکنالوجی حجاز مقدس میں بھی منتقل ہو گئی!!

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔