دنیا اسرائیل سے خالی جغرافیے کی طرف رواں دواں (۱)
فاران؛ عرب اسرائیل کے درمیان ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ میں چار جنگیں ہوئیں اور ان تمام جنگوں میں عربوں نے شکست کھائی۔ عربوں کے مقابلے میں فتح کے نتیجے میں یہودی ریاست کو ترغیب ملی اور اس نے “نیل تا فرات” کا نعرہ لگایا، اردن، شام، لبنان اور مصر کی مسلم سرزمینوں پر میلی نظریں جمائیں اور عربوں کی وسیع سرزمینوں پر قبضہ کیا جن میں مشرقی بیت المقدس، دریائے اردن کے مغربی کنارہ، شام کے جنوبی علاقے جولان اور مصر کے صحرائے سینا جیسے علاقے شامل تھے؛ لبنان کو کئی بار جارحیت کا نشانہ بنایا اور اس کے کچھ حصوں پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ یہ نامشروع قبضے بھی جاری رہے اور ساتھ ساتھ یہودی ریاست “اسرائیل” کی عالمی حمایت بھی جاری رہی جس کی وجہ سے غاصب صہیونی ـ یہودی ریاست ایک باؤلے کتے میں تبدیل ہوا اور اس نے [ایک مکڑی جتنا ہوتے ہوئے مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کرکے] اسلامی ممالک کو ہڑپ کرنے کا ارادہ کیا۔
عرب ممالک کو ناکوں چنے چبوانے کے باوجود اس ریاست کا مکروہ اور خونخوار چہرہ کبھی بھی صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کے جہاد کا سد باب نہ کرسکا۔ فلسطینی عارف عزالدین قسام نے اسلحہ اٹھایا اور اپنے مریدوں اور اعوان و انصار کے ساتھ یہودیوں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ فتح تحریک صہیونی یہودیوں کے خلاف جنگ کے لئے میدان میں اتری اور ۵۰۰ کی نفری لے کر “الکرامہ” نامی کاروائی میں یہودی فوج کے ۱۲۰۰۰ افراد پر مشتمل ڈویژن کو دریائے اردن کے کنارے شکست دی۔
لیکن آج امریکہ، برطانیہ اور یہودی ریاست کی مکاری کے نتیجے میں بعض دنیا پرست عرب حکمران قدس شریف پر قابض صہیونیوں کے خلاف جنگ کے بجائے یہودی ریاست کی حمایت کے لئے میدان میں آئے ہيں اور مذاکرات اور سازباز کو متبادل کے طور پر متعارف کرارہے ہیں اور انھوں نے عملی طور پر خطے میں صہیونی اہداف کے قریب پہنچنے میں اس کی مدد کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت اردن کے سابق بادشاہ شاہ حسین نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا [اس وقت کے پاکستانی بریگیڈیئر محمد ضیاء الحق اس قتل عام میں شاہ اردن کی مدد کو آئے تھے]۔ مصر کے سابق صدر انورالسادات نے کیمپ ڈیویڈ معاہدے پر دستخط کرکے یہودی ریاست کو تسلیم کیا اور اس منحوس ریاست کی حمایت کی۔ یاسر عرفات نے بھی میڈرڈ، اوسلو، وائی ریور، واشنگٹن میں یہودی ریاست کے ساتھ سازباز کا سلسلہ آگے بڑھایا اور ۱۹۸۹ میں کیمپ ڈیویڈ ۲ نامی معاہدے پر دستخط کئے۔
۱۹۴۸ سے لے کر آج تک عالم اسلام کو نشیب و فراز کا سامنا رہا ہے اور کوشش ہوتی رہی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کا شعلہ خاموش ہوجائے اور صہیونیوں کے اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
شیعہ علماء غصب فلسطین کے آغاز ہی سے ـ اپنے فکری استقلال، خدائے واحد و احد پر توکل اور عوامی قوت پر بھروسے کی بنا پر ـ اس غیر انسانی اقدام کے سامنے ڈٹ گئے اور غاصب یہودیوں کا سکون برباد کردیا۔
شیخ محمد حسین بن محمد ابراہیم گیلانی، ناصرالدین شاہ کے دور کے عالم شیخ محمد رضا ہمدانی، نجف کے اعلم عالم دین علامہ کاشف الغطاء، ہبۃ الدین شہرستانی، سید محمد مہدی صدر اور سید محمد مہدی اصفہانی، سید عبدالحسین شرف الدین اور آیت اللہ العظمی سید ابوالحسن اصفہانی جیسے ایران، عراق اور لبنان سمیت عالم تشیع کے بزرگ علمائے دین امریکہ اور برطانیہ کے غیر انسانی اقدامات کے مد مقابل کھڑے ہوگئے اور قابض یہودیوں کے خلاف جہاد کے فتوے دیئے۔
جاری
تبصرہ کریں