رسول اللہ(ص) کے آباء و اجداد پر یہودیوں کے دہشت گردانہ حملے
فاران؛ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیعیان اہل بیت(ع) اپنی مظلومیت اور محکومیت کے ایام کے تناسب سے اعتقادی مسائل اور پھر فقہی موضوعات کو زیادہ توجہ دیتے رہے ہیں جو وقت کی ضرورت بھی تھی اور شیعیان اہل بیت(ع) کی مجبوری بھی، کیونکہ انہیں بہرحال اپنے وجود کا تحفظ کرنا تھا؛ چنانچہ صدر اول کی تاریخ غیر شیعہ اور غالبان سرکاری ـ درباری قلمکاروں نے لکھی ہے؛ اور تاریخ میں ان کرداروں کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے جو اسلامی دنیا کا رخ بدلنے اور سرمایہ پرستی، اقتدار پرستی، ملوکیت اور قرآن و سنت کی اصلی تعلیمات سے انحراف میں مؤثر رہے ہیں۔
یہودیوں کا خیال تھا کہ تورات میں اسحاق علیہ السلام کے بارے میں دی گئی بشارت “تمہاری نسل کو زندہ جاوید اور امر کروں گا” (۱) کے مطابق نبوت صرف یہودیوں تک محدود ہے حالانکہ یہاں لفظ “عولام” بروئے کار لایا گیا ہے جو لفظ مشترک ہے “ابدیت” کے لئے اور “طویل مدت” تک کے لئے بھی؛ جبکہ تورات ہی میں یہ بشارت بھی آئی ہے کہ “[اے ابراہیم(ع)!] اور اِسؔماعیل کے حق میں، میں نے آپ کی دُعا قبول فرمائی، میں انہیں برکت دُونگا اور اُن کو نسل کثیر دونگا انہیں بڑھا دوں گا اور اُن سے بارہ سردار اور رئیس پیَدا ہونگے اور ان سے ایک عظیم امت معرض وجود میں لاؤنگا “مِؤد مِؤد”؛ اور اکابرین و عمائدین ان کی نسل سے ہونگے”۔ (۲)
اللہ نے لفظ “مِؤد مِؤد” (حتمی مقصد اور انتہائی مقصد) کو اس لئے استعمال کیا ہے کہ اسحاق(ع) کو دی جانے والی “عولام” کی بشارت سے مراد “طویل عرصے” کی بشارت ہے نہ کہ ابدی اور قیامت تک کی؛ جس کے بعد یہ عظمت، بزرگی، نبوت اور ولایت کا سلسلہ آل اسماعیل کو منتقل ہوگا۔ آل اسحاق بڑا اور صاحب شریعت خاندان تھا اور بعد میں ان کی شریعت منسوخ ہوئی اور یہ عظمت و شریعت آل اسماعیل کو منتقل ہوئی۔ اور چونکہ یہودی علماء اور شارحین اس حقیقت اور اللہ کی اس مشیت کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے چنانچہ وہ اس کی وضاحت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور اپنی دائمی ابدی روایت کے مطابق حقائق کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ (۳)
چنانچہ یہودیوں نے بنی اسماعیل کا تعاقب یعقوب علیہ السلام کے فورا بعد نہیں تو کم از کم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے کے بعد، ضرور شروع کیا اور یہ تعاقب ابتدائے اسلام میں مختلف لبادوں کے پیچھے جاری رہا اور رسول اللہ(ص) کے وصال کے بعد اس نے اپنا بھیس بدل دیا۔
مکتوبہ اور دستیاب تاریخ سے ایسی بےشمار علامتیں ملتی ہیں کہ انھوں نے بنی اسماعیل میں سے “معد بن عدنان” کی ولادت کے بعد سے اس تعاقب کا سنجیدگی سے آغاز کیا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں خدا نے خبر دی ہے کہ جب معد بن عدنان مکہ میں متولد ہوجائیں تو اس کا مطلب بنی اسرائیل کی نبوت کے سلسلے کا خاتمہ اور نبوت کی بنی اسماعیل کی طرف منتقلی کی علامت ہے”۔ (۴)
یہ تعاقب حضرت ہاشم بن عبد مناف کے زمانے میں زیادہ سنجیدہ اور آشکار ہوتا ہے جب یہودیوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور یہ منصوبے بعد کے زمانوں میں بھی جاری رہے۔ حضرت ہاشم بن عبد مناف پیغمبر(ص) کے جد اعلیٰ اور مکی تھے لیکن ان کا مدفن غزہ میں واقع ہے۔
۔ہاشم بن عبدمناف غزہ میں وفات پاگئے یا قتل کئے گئے؟
جناب ہاشم بن مناف مکہ سے بغرض تجارت شام کی طرف روانہ ہوئے اور یثرب میں وہاں کے ایک قبیلے کے سردار عمرو بن زید بن لبید ـ جو قبیلۂ خزرج کی شاخ بنی نجار سے تھے ـ کے ہاں بطور مہمان ٹہرے۔ ہاشم نے عمرو کی بیٹی سلمیٰ سے شادی کی اور سلمیٰ کو مکہ لے گئے۔ سلمیٰ حاملہ ہوئیں تو نکاح کے وقت متعینہ شرط کے مطابق، ہاشم انہیں وضع حمل کے لئے یثرب میں ان کے اہل خانہ کے پاس واپس لے گئے اور خود تجارت کی غرض سے شام چلے گئے۔ انھوں نے سفر کے آغاز پر اپنی زوجہ سے کہا: “ممکن ہے کہ میں اس سفر سے واپس نہ آسکوں۔ خداوند متعال تمہیں ایک بیٹا عطا فرمائے گا، اس کی خوب حفاظت کرنا”۔
ہاشم غزہ کی طرف روانہ ہوئے اور تجارتی کاروبار مکمل کرنے کے بعد، واپسی کا ارادہ کیا۔ لیکن اسی شب بیمار پڑ گئے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور ان سے کہا: تم مکہ واپس جاؤ، مدینہ پہنچنے پر میری زوجہ کو میرا سلام پہنچانا اور میرے فرزند کے بارے میں ـ جو ان کے بطن سے ولادت پائے گا ـ انہیں سفارش کرنا اور کہہ دینا کہ یہ فرزند میری سب سے بڑی فکرمندی ہے۔ بعدازآں قلم و کاغذ منگوا کر وصیت نامہ تحریر کیا جس کا بڑا حصہ آنے والے فرزند کی حفاظت و پاسداری کی سفارش اور اس کے دیدار و زیارت کے اظہارِ شوق پر مشتمل تھا۔ (۵)
جناب عبدالمطلب بھی، جنہوں نے اپنے بچپن کے ایام یثرب میں گذارے، یقینا والدہ ماجدہ اور نانا اور ان کے خاندان نیز قبیلہ بنی نجار کی ہمہ جہت حمایت حاصل تھی ورنہ جو نبوت و امامت کا نور ہاشم کے چہرہ مبارک میں دیکھ سکتے تھے اسی نور کو عبدالمطلب کے چہرہ مبارک میں بھی دیکھ سکتے تھے اور یقینا انہیں بھی اس طرح کے حملوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا لیکن ہاشم(ع) کی وصیت پر اور ننھیال کی طاقت اور حفاظتی اقدامات آڑے آئے ہونگے؛ اور عین ممکن ہے کہ تاریخ کے صفحات میں اس حوالے سے بھی معلومات ہونگی، اور ان کی یثرب سے مکہ مکرمہ جاتے وقت کی “المغازی” میں واقدی کی بیان کردہ داستانوں کا جائزہ لینا اس حوالے سے مناسب ہوگا۔
۔رسول اللہ(ص) کے والد ماجد جناب عبداللہ پر یہودیوں کے دہشت گردانہ حملے
منقول ہے کہ ایک دن مکہ کے ایک تاجر وہب بن عبدمناف نے کچھ یہودیوں کو دیکھا جو عبداللہ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ وہب نے بنی ہاشم کو خبر دی؛ تاہم عبداللہ نے معجزانہ طور پر یہودیوں کے نرغے سے نجات پائی جبکہ وہب اس معجزے کا عینی شاہد تھا اور عبداللہ کے چہرے میں نورِ نبوت کو دیکھ رہا تھا چنانچہ انھوں نے اپنی بیٹی آمنہ اور عبداللہ کی شادی کی تجویز دی اور یہ مبارک رشتہ قائم ہؤا۔(۶) ادھر یہودی کاہنوں نے ایک عورت کو بھجوایا جس نے کئی دن تک عبداللہ کا راستہ روک کر انہیں شادی کی تجویز دی؛ لیکن جب عبداللہ کے چہرہ مبارک میں وہ نور نظر نہیں آیا تو اس عورت نے اپنی تجویز نہیں دہرائی۔ کیونکہ عبداللہ کی شادی ہوچکی تھی۔ (۷) واضح رہے کہ یہودیت میں نسل ماں سے چلتی ہے اور اگر عبداللہ اس یہودی عورت سے شادی کرتے تو بہ آسانی دعوی کرسکتے تھے کہ نبوت کا سلسلہ پھر بھی بنی اسرائیل کے حصے میں آیا ہے۔
عبداللہ عین نوجوانی کے ایام میں شام کے سفر تجارت سے واپسی پر مدینہ میں وفات پا گئے اور گو کہ وہ عَبدُالمُطَلِّب کے فرزند اور مکّی تھے لیکن ان کی قبر یہودیوں کی قیام گاہ مدینہ میں واقع ہے جو باعث حیرت ہے۔ بہرحال عبداللہ کے بارے میں منقولہ داستانیں کچھ زیادہ واضح و آشکار ہیں۔ یہودی کئی بار انہیں قتل کرنے کی کوشش میں ناکام رہے تھے۔ (۸)
تالیف و تحقیق: فرحت حسین مہدوی
حواشی
۱۔ سفر پیدایش؛ باب ۱۷ ،آیات ۱۸ الی ۲۱۔
۲۔ سفر پیدایش ،باب ۱۷، آیت ۲۰۔
۳۔ الحاج بابا قزوینی يزدی، “رساله ای در رد یهودیت [محضر الشهود فی رد الیهود]”، تحقیق: حامد حسن نواب، مطبوعہ اسفند ۱۳۷۸ہجری شمسی، قم، ص۳۹-۴۰۔ واضح رہے کہ یہ حقائق الحاج بابا قزوینی یزدی نے اپنی کتاب “محضر الشہود فی رد الیہود] میں تحریر کئے ہیں۔ وہ یہود کے اکابرین علماء میں سے تھے جو اسلام کی حقانیت سے واقفیت حاصل کرکے مسلمان ہوئے۔ یہود کے بارے میں لکھنے والے علماء میں ان کی امتیازی خصوصیت یہ ہے وہ عبری زبان میں دستیاب تورات اور انبیائے بنی اسرائیل کی کتب اور ان کی تفاسیر سے واقف تھے۔
۴۔ تاریخ طبری، ج۲، ص۲۹۔ [مطبوعہ “بريل”، لائڈن (Leiden) سنہ ۱۸۷۹ع]۔
۵۔ رجوع کریں: مجلسی، بحار الانوار،ج۱۵، صص۵۱-۵۳۔
۶۔ بحارالانوار، مجلسی، ج۱۵، صص ۹۷ و ۹۸ و ۱۱۵۔
۷۔ رجوع کریں: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۱، ص۲۶؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۱۵، ص ۱۱۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۴۔
۸۔ رجوع کریں: مجلسی، بحار الانوار، ج۱۵، صص۹۰-۱۰۱۔
تبصرہ کریں