رفع میں تاریخی قتل عام

درحقیقت صیہونی حکومت غزہ کے مختلف علاقوں پر بمباری اور گولہ باری کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں نسل کشی کو تیز کرنے کے لیے فاقہ کشی کا ہتھیار بھی استعمال کر رہی ہے اور اس علاقے میں خوراک اور ادویات کی ترسیل کو روک رہی ہے۔

فاران: غزہ پٹی کے جنوب میں واقع سرحدی شہر رفح پر حملے کے انسانی نتائج کے بارے میں بین الاقوامی اپیلوں اور انتباہات کو نظر انداز کرتے ہوئے صیہونی حکومت نے پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بکتر بند یونٹوں کو اس علاقے میں داخل کر دیا ہے۔ مصر سے متصل سرحدی شہر رفح، غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے لیے غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملوں کے نئے دور (7 اکتوبر 2023ء) کے بعد بیرونی دنیا کے لیے واحد گزرگاہ اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اہم بستی میں تبدیل ہوچکا ہے اور بہت سی پابندیوں کے باوجود رفح کا علاقہ اکیس لاکھ کی آبادی میں سے نصف کو اپنے اندر پناہ دینے پر محبور ہے۔ اسی وجہ سے ممالک، اداروں اور بین الاقوامی اداروں نے رفح پر حملے کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اگر اس علاقے میں صیہونی فوجی کارروائیاں کی گئیں تو رفح میں فلسطینیوں کی ایسی بے مثال نسل کشی ہوگی، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملے گی۔

رفح میں صہیونی جرائم کی مذمت کی عالمی لہر
رفح میں اسرائیلی فوج کے بکتر بند یونٹوں کی آمد کے بارے میں اطلاعات کی اشاعت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ اسرائیلی فوج کے مجرمانہ حملے میں کم از کم 45 فلسطینی جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے، شہید اور کم از کم 250 دیگر زخمی ہوچکے ہیں۔ صہیونیوں نے اتوار کی شب اس علاقے میں پناہ گزین کیمپ پر ایسے عالم میں حملہ کیا ہے کہ اس حملے پر تمام ممالک، حتیٰ کہ اس غاصب حکومت کے روایتی اور یورپی حامیوں کی طرف سے بھی شدید ردعمل اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حکومت کی جانب سے جنگ کا دائرہ رفح تک پھیلانے اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر اصرار اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس حکومت کو اپنی کامیابی پر شکوک و شبہات ہیں۔۔

صیہونی ایسے حالات میں رفح پر حملے کا منصوبہ بنا رہے ہیں کہ جمعہ کے روز عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں 13 حامی اور مخالفت میں دو ووٹوں کے ساتھ اس علاقے میں اسرائیلی کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کا حکم دیا ہے اور رفح کراسنگ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی سپلائی کے لئے اسے دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صیہونیوں کا جنگ اور جرائم کا دائرہ رفح شہر تک پھیلانے پر اصرار ہے، جبکہ گذشتہ 8 ماہ میں غزہ کے دیگر علاقوں پر اس حکومت کے وحشیانہ حملوں سے علاقے میں قحط اور بھوک کے پھیلاؤ، قتل عام، تباہی، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور امدادی تنظیموں پر بمباری کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 36 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 81 ہزار دیگر زخمی ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچوں کی ہے۔ علاقے میں 80 فیصد مکانات اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی غزہ پر حملے میں صہیونیوں کی جرائم کی ایک مثال ہے۔ اس نسل کشی پر عالمی اداروں خصوصاً اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے بارہا احتجاج کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں فلسطینی امور میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ “فرانسیکا البانس” نے حال ہی میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں عدم جوابدہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والی بعض بڑی طاقتوں کی حمایت، بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

درحقیقت صیہونی حکومت غزہ کے مختلف علاقوں پر بمباری اور گولہ باری کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں نسل کشی کو تیز کرنے کے لیے فاقہ کشی کا ہتھیار بھی استعمال کر رہی ہے اور اس علاقے میں خوراک اور ادویات کی ترسیل کو روک رہی ہے۔ یہ ایسے وقت ہے، جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد میں صیہونی حکومت سے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں تک بنیادی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔ صیہونی حکومت نے امریکہ کی حمایت سے غزہ کو بین الاقوامی انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے اس علاقے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

صیہونیوں کے جرائم کی حمایت اور اس وقت فلسطینیوں پر ظلم و ستم کو نظر انداز کرنا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مغرب کے دوہرے معیار اور انسانی حقوق کے میدان میں ان کی منافقت کو ظاہر کرتا ہے۔ بہرحال تمام تر دباؤ کے باوجود فلسطینیوں کے لیے یہ مشکل دور گذشتہ ادوار کی طرح بالآخر گزر ہی جائے گا، لیکن اس انسانی نسل کشی کے حوالے سے مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے درج ہوگا اور آئندہ آنے والی نسلیں ان منفی کرداروں کو مذمتوں کا نشانہ بناتی رہیں گی۔