فاران تجزیاتی خبرنامہ: 11 دسمبر 2024 ء رہبر انقلاب اسلامی کنے شام کے موجودہ حالات کے سلسلہ سے ایک تاریخی خطاب خطاب کیا رہبر انقلاب اسلامی کا یہ خطاب انقلاب اسلامی کی تاریخ کے اہم ترین اور نمایاں بیانات میں سے ایک تھا۔ یہ تقریر ایک ایسے وقت میں کی گئی جب حالات بظاہر مزاحمتی محاذ کی شکست اور صیہونی منصوبوں کی کامیابی کی تصویر پیش کر رہے تھے، اور مزاحمتی عناصر یا ان کے ہمدرد طعن و تشنیع کی زد میں تھے۔ ایسے میں رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی اس خطاب میں نہایت مرتب، منظم اور تشریحی انداز میں ان شبہات اور سوالات کا جواب دیا جو مزاحمت کے حامیوں میں ناامیدی اور ممکنہ نقصان دہ ریزش پیدا کر سکتے تھے۔
ان بیانات میں رہبر انقلاب اسلامی نے مخالفین اور بدخواہوں کی جانب سے اٹھائے گئے شبہات کو سات بنیادی نکات کے ذریعے پیش کیا:
1. شام کے فتنے کی حقیقت کیا ہے؟
کچھ لوگ شام کی موجودہ صورتحال کو حکومتِ اسد کی اندرونی کمزوریوں اور ایک قدرتی داخلی تحریک کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے واضح کیا کہ یہ فتنہ دراصل ایک امریکی-صیہونی منصوبہ تھا۔ ترکی کو آپ نے بغیر نام لیے، شام کے “پڑوسی ملک” کے طور پر یاد کیا جو اس امریکی-صیہونی منصوبے کا نام نہاد ٹھیکیدار قرار پایا۔
البتہ، یہ کہنا حکومتِ اسد میں کسی خامی کے انکار کے مترادف نہیں۔ رہبر انقلاب نے اس حکومت کے اندر موجود کمزوریوں، مثلاً فوج کی پسپائی کو، مزاحمت کی ناکامی کا ایک عنصر قرار دیا۔ تاہم، شام میں تبدیلیوں کی اصل وجہ بیرونی عوامل ہیں۔ یہ غیرملکی مداخلت 2011 سے جاری ہے اور موجودہ صورتحال کسی پائیدار توازن کی عکاس نہیں۔
2. کیا مزاحمتی محاذ کمزور ہوا ہے؟
رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحمت کی صورتحال کو اس مثال کے ذریعے بیان کیا کہ “جو زخم تمہیں مار نہ سکے، وہ تمہیں مضبوط بناتا ہے۔” لبنان اور غزہ میں مزاحمتی محاذ نے سخت ضربات کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھا۔
حزب اللہ لبنان کی مثال واضح ہے، جس نے اپنے جنرل سکٹریٹری اور اہم فوجی کمانڈرز کی شہادت کے بعد اسرائیل کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا۔ یہ امر ثابت کرتا ہے کہ مزاحمت زخموں سے نہ صرف بچ گئی بلکہ مزید مضبوط ہو گئی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مزاحمت کا دائرہ مستقبل میں وسیع تر ہوگا۔
3. ہم شام میں کیوں موجود تھے؟
اس سوال کے جواب میں کہ ایران نے شام میں کیوں مداخلت کی، رہبر انقلاب اسلامی نے دو بنیادی وجوہات بیان کیں:
دوستی کا قرض چکانا: ایران نے شام کی مدد اس کے سابقہ احسانات کا جواب دینے کے لیے کی۔ ایران-عراق جنگ کے دوران شام نے ایران کی سیاسی اور معاشی مدد کی تھی، جو ایران کے لیے بہت قیمتی تھی۔
قومی سلامتی اور مقدس مقامات کی حفاظت: داعش جیسے خطرناک دشمن کے خلاف اقدام نہ کرنے کی صورت میں ایران اور اس کے مقدس مقامات کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ شام میں ایران کی موجودگی نے اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد دی۔
4. شام میں ایران کی موجودگی کی نوعیت کیا تھی؟
ایران کی موجودگی مختلف مراحل میں رہی، جو ابتدا میں مشاورتی تھی اور داعش کے عروج کے ساتھ محدود فوجی تعاون تک بڑھ گئی۔ لیکن اہم بات یہ تھی کہ شامی فوج میدان میں موجود رہی اور ایرانی کمانڈرز و دیگر اتحادی صرف مددگار تھے۔
5. ایران نے شام کو مزید مدد کیوں نہیں بھیجی؟
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کا سبب شام کی زمینی اور فضائی راستوں کی بندش اور شامی فوج کی اچانک پسپائی کو قرار دیا۔ انہوں نے شامی فوج کی اس صورتحال کا موازنہ ایرانی مسلح افواج کے بلند حوصلے سے کیا اور اس بات پر زور دیا کہ میدان چھوڑنے کی بجائے مزاحمت کی جاتی تو نتائج مختلف ہوتے۔
6. شام اور خطے کا مستقبل کیا ہوگا؟
رہبر انقلاب اسلامی نے جنگِ ارادے کو مستقبل کا تعین کرنے والا عامل قرار دیا۔ انہوں نے عراق کی مثال دی کہ جہاں امریکہ کو آخرکار پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اسی طرح، شام میں بھی مزاحمتی محاذ سے جڑے جوان حالات کو تبدیل کریں گے۔
7. کیا حالات ہمیں انفعال اور تسلیم کی طرف ڈھکیلتے ہیں؟
رہبر انقلاب اسلامی نے انفعالیت اور تسلیم کی سوچ کو سختی سے مسترد کیا۔ انہوں نے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی ضرورت پر زور دیا جو عوام کے دلوں میں خوف اور ناامیدی پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات جرم ہیں اور انہیں روکا جانا چاہیے، ورنہ قومی مزاحمت کا حوصلہ متاثر ہوگا۔
یہ بیانات ایران کی مزاحمتی پالیسی کا واضح خاکہ اور مستقبل کی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں