خوف انتقام اور یاوہ گوئی؛

سابق امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو دالانِ وحشت میں

پومپیو کی یہ بات درحقیقت سامنے کی طرف فرار اور اصل جواب سے بھاگنے کے مترادف ہے اور کہنا والا یہ جتانا چاہتا ہے کہ وہ خود اور فیصلہ کرنے والی ٹیم کے افراد نہایت "نڈر" اور "شجاع" لوگ ہیں، حالانکہ جیسا کہ بیان ہؤا پومپیو اس مکالمے میں "ایران اور مقاومت کے انتقامِ سخت کی حتمی وعید" سے اپنا خوف نہ چھپا سکا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سابق امریکی وزیر خارجہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے ہرزہ گرد اور پریشان گو رکن مائک پومپیو نے شہید جنرل الحاج قاسم سلیمانی پر امریکی بزدلانہ حملے کے سلسلے میں سعودی چینل “العربیہ” کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ اس کی اپنی موجودہ روش اور سابق امریکی حکام کے رویوں سے متصادم ہے۔
1۔ سابق امریکی وزیر خارجہ اور ٹرمپ انتظامیہ کا ہرزہ گرد شخص مائک پومپیو نے شہید جنرل الحاج قاسم سلیمانی پر امریکی بزدلانہ حملے کے سلسلے میں سعودی چینل “العربیہ” کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ اس کی اپنی موجودہ روش اور سابق امریکی حکام کے رویوں سے متصادم ہے۔ اس نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جنرل سلیمانی کے قتل، جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی اور امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقل ہونے کی صورت میں جنگ کے بارے میں کچھ انتباہات پائے جاتے تھے۔ چنانچہ “ہم نے ان کاموں میں سے ایک دو کام انجام نہیں دیئے بلکہ تینوں کام انجام دیئے اور جنگ نہیں ہوئی”۔
پومپیو کی یہ بات درحقیقت سامنے کی طرف فرار اور اصل جواب سے بھاگنے کے مترادف ہے اور کہنا والا یہ جتانا چاہتا ہے کہ وہ خود اور فیصلہ کرنے والی ٹیم کے افراد نہایت “نڈر” اور “شجاع” لوگ ہیں، حالانکہ جیسا کہ بیان ہؤا پومپیو اس مکالمے میں “ایران اور مقاومت کے انتقامِ سخت کی حتمی وعید” سے اپنا خوف نہ چھپا سکا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ اس ہرزہ سرا امریکی سفارتکار نے کہا، نہ صرف ایک ایال اور زین و ساز کے بغیر کے گھوڑے کی بےبسی کا اظہار تھا بلکہ اس کے الفاظ اس حقیقت کی عکاسی بھی کررہے تھے کہ یانکی (Yankees) اسلامی جمہوریہ ایران کی انتقامی کاروائی سے بدستور خائف ہیں اور انتقام کی تلوار کو اپنے سروں پر لٹکا دیکھ رہے ہیں۔ پومپیو نے گذشتہ سال فاکس نیوز چینل کے ایران دشمن اینکر شان ہینٹی (Sean Hannity) کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا: “صدر رئیسی نے کہا ہے کہ مجھ پر صدر ٹرمپ پر مقدمہ چلایا جانا چائے اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو ہمیں قتل کیا جائے؛ یہ باتیں حقیقتا بے مثل اور غیر معمولی ہیں، اور جو بائیڈن کی سیاسی قیادت کی ٹیم پر حقیقتا میری اور ٹرمپ کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے”۔
2۔ پومپیو نے اپنے ملک کو سورما کے طور پر متعارف کرانے کی بہتیری کوشش کی، حالانکہ آج وہ اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں شکستِ مطلق کی تصویر بن گیا ہے۔ وہ علاوہ ازیں کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی میں ناکام رہا بلکہ اس سے پہلے کے عہدوں – بالخصوص سی آئی اے کی سربراہی – کے دوران بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکا اور خفت و ذلت کے سوا کچھ بھی اس کی قسمت میں نہ آیا۔
یہ سابق امریکی وزیر خارجہ جنوری 2017ع‍ سے اپریل 2018ع‍ تک، ایک سال کے عرصے کے لئے سی آئی اے کا سربراہ تھا؛ اور اس دوران اس نے سینٹ کام کے کمانڈر سے کہہ دیا تھا کہ عراق اور شام میں تکفیری دہشت گردوں کی حمایت کرے اور انہیں ان دو ممالک پر مسلط ہونے میں مدد پہنچائے۔ پومپیو کو شہید جنرل سلیمانی سے پرانا بیر تھا، کیونکہ وہ شام اور عراق میں تکفیریوں کی راہ میں رکاوٹ بنے تھے، چنانچہ جنرل سلیمانی کی شہادت کے فورا بعد اس نے اپنے اکاؤنٹ پر اپنے کرائے کے گماشتوں کے ہجوم کے جشن و سرور کی ایک ویڈیو شیئر کر دی جو اس کی گہری دشمنی کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی پسماندگی کا ثبوت بھی تھی۔
3۔ امریکہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں ایران کا اثر و رسوخ اور کاروائی کی صلاحیت، ایرو-اسپیس کی قوت اور ڈرونز (یا یو اے وی) کی اہلیت، معلومات جمع کرنے اور انٹیلی جنس کی جدید ٹیکنالوجی، مختلف قومیتوں کی مزاحمتی قوتوں کے مجموعے کے ذریعے بدلہ لینے کا امکان وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو امریکیوں کو معلوم ہیں اور وغیرہ ان چیزوں میں سے ہیں جو امریکی وہ بار بار اپنے وجود سے واقف تھے، اور وہ جانتے ہیں کہ ایرانی دھمکیاں حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں۔
دوسری طرف سے امریکی سیکورٹی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ پومپیو سمیت جنرل سلیمانی پر دہشت گردانہ حملے میں ملوث افراد کی حفاظت پر ماہانہ 21 لاکھ 75 ہزار ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہو رہی ہے۔ امریکہ کے لئے – جسے ایندھن کی قیمتوں میں شدید اضافے، خشک دودھ اور بعض اشیائے خورد و نوش کے ناپید ہونے جیسے مسائل کا سامنا ہے – اگر ان اخراجات کو کم کیا جائے تو اس سے امریکی معیشت کو براہ راست مدد ملے گی۔ کیونکہ ان افراد کا منظر عام سے حذف ہونا امریکی بہبود اور سلامتی کے معیاروں کو تقویت پہنچائے گا۔
4۔ رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حفظہ اللہ)، صدر اسلامی جمہوریہ اور سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف نے الحاج قاسم سلیمانی کے قاتلوں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کن اعلان کیا ہے اور ملک کے اندر اور باہر اس اعلان کا وسیع خیرمقدم کیا گیا ہے، چنانچہ امریکی اس قطعی نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ جنرل الحاج قاسم سلیمانی کے قاتلوں سے سخت انتقام لینے کے لئے اسلامی جمہوریہ کا عزم اور حوصلہ ایک دائمی ترجیح ہے اور اس سے کبھی ابھی انحراف و ختلاف نہیں کیا جائے گا۔
5۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکیوں کے لئے ثابت ہو چکا ہے کہ ایران کے سخت انتقام کو عوامی اور عمومی پشت پناہی حاصل ہے؛ اور جب تک ایرانی قوم اس سطح کی خون خواہی کی خواہاں ہوگی، بغداد کے ہوائی اڈے کے دہشت گردوں کے خلاف مقدمہ چلانے اور انہیں سزا دینے کی کاروائی کو بڑی سیاسی اور انتظامی حمایت حاصل ہے اور یانکیوں کی تاریخی بربریت کے معاملے میں انتقام کا آپشن سب سے زیادہ معتبر ہے۔
6۔ قصاص کے فیصلہ کے نفاذ سے قبل اسلامی جمہوریہ نے ایک کامیاب نفسیاتی کاروائی کرکے “انتقام ناگزیر ہے” کے عنوان سے ایک اینیمیشن کا اجرا کیا؛ جو کہ دشمنوں پر ضرب لگانے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کی کامیاب حکمت عملی کا ایک دوسرا پہلو تھا۔
یہ اینیمیشن شہید جنرل سلیمانی کے قتل کے دو سال پورے ہونے کے موقع پر جاری کیا گیا تھا، جس پر واشنگٹن کے سیکورٹی اور فوجی حکام کے خوفزدگی پر مبنی رد عمل کا باعث ہؤا اور ساتھ ہی پومپیو اور سابق امریکی حکام کے منفعلانہ (passively) [اور نادمانہ] رد عمل ظاہر کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے اس جرم میں ملوث افراد کی سزا کو حتمی کرکے، انہیں ایک نفسیاتی جنگ میں دوہرے خوف و دہشت سے دوچار کر دیا ہے۔
اور آخری بات یہ اسلامی جمہوریہ ایران، نہتے شہریوں کو نشانہ بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کوشاں امریکی حکام کے برعکس، صرف ان لوگوں کو نشانہ بنائے گا جنہوں نے یا تو بغداد کے ہوائی اڈے پر اس تاریخی اور شرمناک جرم کے احکامات جاری کئے یا پھر انہیں سزا دے گا جنہوں نے ان احکامات پر عمل درامد کیا، اور ان فوجیوں یا غیر فوجیوں کو نشانہ نہیں بنائے گا جو اس جرم میں ملوث نہیں تھے۔
کسی وقت، جنوبی افریقہ میں امریکی سفیر کو ہلاک کیا گیا تو ٹرمپ انتظامیہ نے اس اقدام کو جنرل سلیمانی کے قتل کے قصاص کا ایک جزو قرار دیا لیکن اسے سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف جنرل سلامی کے منہ توڑ جواب کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے کہا: “دشمن ہر جگہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، اور اگر ضروری ہؤا تو اسلامی جمہوریہ کی گولی کا نشانہ بنایا جائے گا”، اور یوں امریکہ اور اس کے حلیفوں کو یاددہانی کرائی کہ انتقام “حتمی”، قطعی”، “حقیقی” اور “سنجیدہ” ہے اور یہ حکم پوری طرح بہادرانہ، مردانہ وار، جوانمردانہ اور منصفانہ انداز سے نافذ کیا جائے گا؛ کیونکہ پیچھے سے وار کرنا اور تیسرے ملک میں نہتے افراد پر ڈرون حملے کرنا، صرف بزدلوں کا شیوہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈآکٹر پروفیسر سید ہادی سید افقہی