سعودی عرب نے فلسطینیوں کی نسل کشی میں کیسے سرمایہ کاری کی؟

سعودی عرب نے کئی ایسی مصنوعی ذہانت کی (AI) ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کی ہے جو اسرائیل کی 15 ماہ طویل جنگ کے دوران غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کا سبب بنی۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سعودی عرب نے کئی ایسی مصنوعی ذہانت کی (AI) ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کی ہے جو اسرائیل کی 15 ماہ طویل جنگ کے دوران غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کا سبب بنی۔
فارس پلس گروپ: بلا شبہ، حالیہ اسرائیل-غزہ جنگ کی سب سے نمایاں خصوصیت میدان جنگ میں مصنوعی ذہانت کا وسیع پیمانے پر استعمال تھا۔ یہ ٹیکنالوجی اس جنگ کا ایک بنیادی عنصر بنی اور ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کا ذریعہ بنی۔
حال ہی میں ایک صحافتی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ سعودی عرب نے کئی ایسی AI ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کی جو غزہ کی 15 ماہ طویل جنگ کے دوران فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کا سبب بنیں۔
2024 میں، “مستقبل کی سرمایہ کاری کا اقدام” (Future Investment Initiative) ادارے نے “ترجیحی کانفرنس” (Priority Summit) کا تیسرا ایڈیشن میامی میں منعقد کیا۔ یہ کانفرنس بنیادی طور پر سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) اور سعودی حکومت کے دیگر اداروں، جیسے وزارت سرمایہ کاری، کی مکمل حمایت سے منعقد ہوئی۔
اس اجلاس میں بڑی تعداد میں سرمایہ کاروں اور سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی، جن کی مشترکہ توجہ AI ٹیکنالوجی پر مرکوز تھی اور انہوں نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کو اپنی ترجیح بنایا۔
تمام ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (AI) کمپنیوں میں سے جو اس کانفرنس میں شریک تھیں، ایک نام سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنا: “پالانٹیر ٹیکنالوجیز” (Palantir Technologies)۔
“آلکس کارپ”, جو پالانٹیر کمپنی کے صدر ہیں، “مستقبل کی سرمایہ کاری کے اقدام” (Future Investment Initiative) کی سالانہ کانفرنس میں شریک تھے۔ اس کانفرنس نے انہیں ایک پلیٹ فارم فراہم کیا جہاں انہوں نے “مختلف صنعتوں میں مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کے استعمال” کے بارے میں اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار کیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کارپ کی طرف سے پیش کردہ مصنوعی ذہانت کا استعمال صرف صنعتی شعبے تک محدود تھا؟ اور کیا یہ سعودی عرب اور پالانٹیر کے درمیان واحد تعاون کا میدان تھا؟
یقیناً، ان دونوں سوالوں کا جواب “نہیں” ہے۔
2025 کے آغاز میں، سعودی “الٹرکی ہولڈنگ” نے “چیلنج برائے مصنوعی ذہانت” (AI Challenge) کے نام سے ایک ایوارڈ متعارف کرایا۔ یہ ایوارڈ “مایکروسافٹ” اور “پالانٹیر” کے اشتراک سے شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد ان کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنانا تھا۔
اس کے علاوہ، سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) نے 2023 میں چار قومی کمپنیوں میں 5 بلین سعودی ریال کی سرمایہ کاری کی، جن میں نسما اینڈ پارٹنرز کنٹریکٹنگ کمپنی، الترکی ہولڈنگ، نسما کنٹریکٹنگ کمپنی لمیٹڈ، روابی ہولڈنگ، اور اب خود پبلک انویسٹمنٹ فنڈ شامل ہیں۔

پالانٹیر کمپنی

پالانٹیر کمپنی 2003 میں امریکہ کے عراق پر حملے اور اس ملک پر فوجی قبضے کے دوران بالواسطہ طور پر امریکی خفیہ ایجنسی (CIA) کے ذریعے قائم کی گئی۔ اس کمپنی کا بنیادی کام عراق اور افغانستان کی جنگوں کے لیے انٹیلیجنس سافٹ ویئر فراہم کرنا تھا۔ اس کے علاوہ، پالانٹیر جدید جنگوں کے تجزیے میں ایک اہم کردار ادا کرنے والی کمپنیوں میں شامل رہی ہے۔
بہت سے تجزیہ کار پالانٹیر کو امریکہ کی “خوفناک ترین” ٹیکنالوجی کمپنیوں میں شمار کرتے ہیں، جبکہ بعض دیگر ماہرین اسے “اکیسویں صدی میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے اسلحے کی تجارت کرنے والی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک” قرار دیتے ہیں۔
“بلومبرگ بزنس ویک” نے اپریل 2018 کے شمارے میں پالانٹیر کو متعارف کراتے ہوئے اپنے سرورق پر یہ عنوان لکھا:
“آپ پالانٹیر کو نہیں جانتے؟ لیکن پالانٹیر آپ کو جانتا ہے”
جبکہ اس کے اندرونی مضمون کا عنوان تھا: “پالانٹیر آپ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے”
یہ کمپنی ایک ایسا سافٹ ویئر فراہم کرتی ہے جو وسیع پیمانے پر ڈیٹا اکٹھا اور تجزیہ کرتا ہے اور اپنے صارفین کو یہ صلاحیت فراہم کرتا ہے کہ وہ افراد اور گروہوں کے خفیہ نیٹ ورکس اور تعلقات کو دریافت کر سکیں اور یہاں تک کہ “دہشت گرد حملوں” کی پیشگوئی بھی کر سکیں۔
پالانٹیر کو دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں سے جو چیز منفرد بناتی ہے، وہ اس کا انتہائی آسان اور سادہ استعمال ہے۔ جہاں دیگر کمپنیوں میں ایسے پیچیدہ سسٹمز موجود ہیں، وہیں پالانٹیر کی ٹیکنالوجی اتنی آسان ہے کہ کوئی بھی اسے باآسانی استعمال کر سکتا ہے۔ اس نظام میں، اگر کوئی صارف خطرہ محسوس کرے، تو محض ایک بٹن دبانے یا ایک کلک کرنے سے مطلوبہ ہدف پر حملہ یا بمباری کر سکتا ہے۔

اسرائیل اور پالانٹیر کا قریبی تعلق

پالانٹیر ٹیکنالوجی کمپنی نے 2013 میں اسرائیل میں ایک تحقیق و ترقی (R&D) مرکز قائم کیا، جو “ہاموتال مریدور” کی سربراہی میں کام کر رہا ہے اور اسرائیلی فوج کے انٹیلیجنس یونٹ 8200 کے ساتھ قریبی اور وسیع تعلقات رکھتا ہے۔

گزشتہ سال، اسرائیل کی خسارے میں جاتی ہوئی ٹیکنالوجی مارکیٹ کے ساتھ یکجہتی کے اظہار میں، پالانٹیر نے اپنی پہلی بورڈ میٹنگ تل ابیب میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔
اسی اجلاس میں، پالانٹیر کے سی ای او نے اسرائیلی وزارتِ جنگ کے ساتھ ایک بڑا معاہدہ کیا، جس کے تحت فریقین اس بات پر متفق ہوئے کہ پالانٹیر کی جدید ٹیکنالوجی کو اسرائیلی فوج کے جنگی مشنز کی معاونت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
پالانٹیر کے نائب صدر “جاش ہیرس” نے اس معاہدے کے بارے میں کہا:
“اس اسٹریٹجک شراکت داری کا مقصد اسرائیلی وزارت جنگ کی قابلِ ذکر مدد کرنا ہے تاکہ وہ اسرائیل کی موجودہ صورتحال کو زیادہ مؤثر طریقے سے سنبھال سکے اور وہاں کے حالات کو بہتر بنا سکے۔”
پالانٹیر کی رپورٹس کے مطابق، اس کمپنی نے اسرائیلی فوج اور خفیہ اداروں کو ایک جدید مصنوعی ذہانت (AI) پلیٹ فارم فروخت کیا ہے، جو صارف کو ممکنہ اہداف کی نشاندہی اور انہیں نشانہ بنانے کے فیصلے کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔
اسرائیلی جریدوں “972+” اور “لوکل کال” نے کئی رپورٹس شائع کی ہیں، جن میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے کس طرح مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں، بشمول خواتین اور بچوں، کا قتل عام کیا۔
اب تک کئی مطالعات اور رپورٹس شائع ہو چکی ہیں جن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پالانٹیر کمپنی کے سسٹمز اور سافٹ ویئرز کو اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ وہی کمپنی ہے جو سعودی عرب کے ساتھ قریبی اور وسیع تعاون رکھتی ہے۔
اسرائیلی فوج، خاص طور پر انٹیلیجنس یونٹ 8200 نے حالیہ غزہ جنگ میں “لاونڈر” نامی مصنوعی ذہانت (AI) سافٹ ویئر استعمال کیا۔
یہ سافٹ ویئر جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں ہزاروں فلسطینیوں کو غلط طور پر نشانہ بناتا رہا، صرف اس بنیاد پر کہ وہ حماس یا مزاحمتی گروہوں کے جنگجو ہو سکتے ہیں۔
“لاونڈر” کے تحت، اسرائیلی فوجیوں کے پاس صرف 20 سیکنڈ کا وقت ہوتا ہے تاکہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ ہدف مرد ہے یا عورت، جس کے بعد سسٹم ازخود فیصلہ کرتا ہے کہ گولی چلانی ہے یا بمباری کرنی ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے ذریعے، اسرائیلی فوج نے غزہ کے مختلف علاقوں میں ہزاروں فلسطینی گھروں کو تباہ کیا اور ہزاروں خاندانوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ حتیٰ کہ کئی خاندانوں کے نام فلسطینی سول رجسٹری سے مکمل طور پر مٹا دیے گئے۔
جب پالانٹیر کے سی ای او “ایلکس کارپ” نے فرانسیسی اخبار “Le Nouvel Observateur” کو انٹرویو دیا، تو ان سے سوال کیا گیا کہ ان کی کمپنی ان ممالک کے ساتھ کیوں تعلقات رکھتی ہے جن کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ریکارڈ خراب ہے، جیسے سعودی عرب؟
انہوں نے جواب دیا:
“ہر ملک کا اپنا اخلاقی منشور ہوتا ہے، جو ہمارے منشور سے مختلف ہو سکتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان سے تعلقات نہ رکھیں یا ان کی سرمایہ کاری کو خوش آمدید نہ کہیں۔”
سعودی کمپنی “سنابل” (جو سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی ایک ذیلی کمپنی ہے) نے 2023 میں اعلان کیا کہ اس نے 40 امریکی انویسٹمنٹ کمپنیوں میں سرمایہ لگایا ہے، جن میں “فاؤنڈرز فنڈ” (Founders Fund) بھی شامل ہے، جو کہ پالانٹیر کے شریک بانی “پیٹر تھیل” کی ملکیت ہے۔
مئی 2024 میں، جب “کیمبرج یونین” میں پیٹر تھیل سے یہ سوال کیا گیا کہ اسرائیل نے غزہ میں غیر فوجی فلسطینیوں کو بمباری اور قتل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کیوں کیا؟
تو اس نے پہلے تو سوال کا گول مول جواب دینے کی کوشش کی، لیکن جب صحافیوں نے اصرار کیا، تو اس نے صاف الفاظ میں کہا:
“میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہوں۔”

پالانٹیر: اسرائیلی جنگی مشین کا ستون

اگر ایک جملے میں خلاصہ کیا جائے، تو کہا جا سکتا ہے کہ پالانٹیر ٹیکنالوجی کمپنی نے 15 ماہ کی اسرائیلی جنگ کے دوران، غزہ کو “ڈیجیٹل جنگوں کی لیبارٹری” میں تبدیل کر دیا۔
یہ کمپنی اسرائیلی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اپنے فوجی AI سسٹمز کو فلسطینیوں پر آزمانے کے لیے استعمال کرتی رہی۔
پالانٹیر نے فلسطینیوں کے نجی ڈیٹا کو اپنے جنگی AI نظام کے لیے فیڈ کے طور پر استعمال کیا، جس میں شامل تھا:

ای میلز

کال لاگز (رابطوں کی تفصیلات)

فون نمبرز

واٹس ایپ پیغامات

سوشل میڈیا اکاؤنٹس

جغرافیائی مقامات (لوکیشن ڈیٹا)

یہ تمام معلومات ڈیجیٹل پیشگوئی پر مبنی ٹارگٹ سسٹمز کو فراہم کی گئیں، جن کا سب سے بڑا “فائدہ” یہ تھا کہ انہیں دور بیٹھ کر، صرف ایک آسان سافٹ ویئر کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
اب سعودی عرب، ولی عہد محمد بن سلمان کے “وژن 2030” منصوبے کے تحت، انہی کمپنیوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر رہا ہے، ان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، اور ان کی خدمات سعودی عرب میں لا رہا ہے۔

یہ سب کچھ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے کہ “اس ٹیکنالوجی کی قیمت، جنگ کے میدان میں مارے جانے والے ہزاروں فلسطینی بچے، خواتین، مرد، بوڑھے اور عام شہری چکا رہے ہیں۔”