خطبہ نماز جمعہ 13 دسمبر 2024

شام کا زوال اردوگان اور مسلم حکمرانوں کی بڑی غداری کی وجہ سے شروع ہوا: علامہ جواد نقوی

عرب حکمران اپنی ملی بھگت میں پاگل کتوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ وہ فلسطین کے مصائب کو ختم کرنے کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کرتے۔ شام کی صورت حال پر جشن منانے والے درحقیقت اسرائیل کو نمایاں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

خطبہ 1: اپنے آپ کو ان لوگوں سے بچانے کے لیے جو آپ کو اللہ کے راستے سے دور کرتے ہیں تقویٰ اختیار کرو
خطبہ 2: شام کا زوال اردوگان اور مسلم حکمرانوں کی بڑی غداری کی وجہ سے شروع ہوا

تقویٰ کا تعلق تمام انسانوں کی زندگیوں سے ہے اس میں مرد و زن کی کوئی قید نہیں ہے۔ جیسے سورہ انعام کی آیت نمبر 71 میں ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ۔
آپ کہہ دیجیے کہ کیا ہم اللہ کے سوا اسے پکاریں، جو ہمارا بھلا برا کچھ نہ کرسکے، اور اللہ سے ہدایت پاکر کیا ہم الٹے پھرجائیں؟ اس کی مانند جسے شیطانوں نے جنگل میں بہکا کر حیران کر دیا ہے ، اس کے دوست راہ راست پر بلاتے ہیں ، کہ ہماری طرف آو ، آپ کہہ دیجیے جو خدا کی ہدایت ہے ، وہی حقیقی ہدایت ہے اور ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم رب العالمین کے سامنے سرتشلیم خم کریں۔
وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ ۚ وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ {72}
اور یہ کہ تم نماز قائم کرو اور اسی کا تقویٰ اختیار کریں۔ اور وہ وہی خدا ہے جس کے پاس تم جمع کیے جاؤ گے۔

انسان کی رہنمائی کا دائرہ

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہمارے اردگرد کے لوگ، جیسے والدین، رشتہ دار اور بزرگ، اکثر اخلاقی رویے اور عمومی خطرات کے بارے میں ہماری رہنمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں یہ رہنمائی والدین یا رشتہ داروں تک محدود نہیں رہی بلکہ آج کے میڈیا نے ہر کسی کو رہنمائی کا وسیع میدان دے دیا ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو رہنمائی کر رہا ہے کیا کھانا ہے، کیا خریدنا ہے ، کیا پہننا ہے، اور بہت کچھ کے بارے میں انسان کو مشورہ دیا جا رہا ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے فون پر موصول ہونے والے بہت سے پیغامات کا زیادہ تر حصہ ہدایت اور رہنمائی پر مبنی ہوتا ہے۔ لوگ اکثر ان پیغامات کا حوالہ دیتے ہیں جو انہوں نے موصول کیے ہیں یا دیکھے ہیں۔ اور ان پر بغیر کسی سوال کے عمل کرتے ہیں مخصوصا بعض اوقات طبی مشورے کے حوالے سے بھی لوگ عمل کرتے ہیں۔ کچھ افراد سوشل میڈیا کے رجحانات کی پیروی کرنے پر مجبوری محسوس کرتے ہیں، یہ مانتے ہیں کہ کوئی پروڈکٹ خریدنا صرف اس لیے ضروری ہے کہ انہوں نے اسے آن لائن دیکھا ہے۔ پیغامات کو اکثر بغیر تصدیق کے آگے بھیج دیا جاتا ہے، ان کی درستگی پر بہت کم غور کیا جاتا ہے۔

نفع نقصان نہ پہنچانے والی چیزوں سے دوری اختیار کرنا

اللہ تعالیٰ نبی کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو یاد دلائیں کہ جن مقدس چیزوں کی طرف وہ رہنمائی کے لیے رجوع کرتے ہیں وہ کسی کو کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بت جو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے، ان کی پوجا نہیں کرنی چاہیے۔ تاہم، جب بات انسانوں کی ہو، تو وہ درحقیقت نفع نقصان دونوں پہنچا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے فائدے کے لیے بادشاہوں، حکمرانوں اور سیاست دانوں سے قریب ہونے اور ان کے درباری بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ قرآن کی آیت اللہ کو چھوڑ کر ان لوگوں کی طرف جانے سے منع نہیں کرتی جو انسان کو نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو بالکل غلط ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر آپ کسی کی طرف نہیں جا سکتے، خواہ وہ فائدہ یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ اللہ کے سوا کسی چیز کو تلاش کرنے کا معیار نفع نقصان پر مبنی نہیں ہے۔ بلکہ صرف اللہ کی عبادت کو برقرار رکھنے پر توجہ رکھنا ہے۔ بت پرستی کے تناظر میں نفع نقصان کا حوالہ اس نکتے کو واضح کرتا ہے، لیکن وسیع تر اصول یہ ہے کہ اللہ کو کسی اور کے لیے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
مثال کے طور پر، اگر کسی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ لاہور سے ملتان کے لیے نہ نکلے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اگر ملتان نہیں جا سکتا تو اسلام آباد چلا جائے، ملتان سے روکنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ لاہور سے نکلے ہی نہیں چونکہ اس نے صرف ملتان جانے کا ارادہ بنایا تھا۔ آیت میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے لوگوں کو نجات کی طرف رہنمائی کی ہے، پھر بھی بعد میں انہوں نے دوسرے مسلمانوں کو بت پرستی کی طرف لوٹنے کی ترغیب دینا شروع کی، یہ دعویٰ کیا کہ نبی زندگی پر بہت زیادہ پابندیاں لگاتے ہیں، جبکہ بتوں کی پوجا میں کوئی پابندیاں نظر نہیں آتیں۔ یہ تضاد غیر منطقی اور عقل کے خلاف سمجھا جاتا ہے کیونکہ انسان جب ہدایت پا چکا ہے تو دوبارہ ہدایت کا راستہ چھوڑ کر گمراہی کا راستہ اختیار کرنا عقل کے خلاف ہے۔

شیطان کا انسان کو زمین پر مارنا

اس کے بعد آیت کہتی ہے کہ شیطان نے اس کو زمین پر گرا مارا ہے اور اسے گمراہ کر دیا ہے۔
شیطان سے متعلق پہلے بھی گفتگو ہوئی ہے اور مزید درکار ہے اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالی نے جتنا شیطان کا خطرہ عظیم قرار دیا ہے اتنی ہمیں اس کی نسبت حساسیت نہیں ہے ہم نے شیطان کو ایک ایسی طاقت سمجھ لیا ہے جس کا مقابلہ ناممکن ہے اور وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے۔ مثال کے طرف ایک لڑکا لڑکی جب آپس میں دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور ایک دوسرے کے نزدیک اتنا قریب ہو جاتے ہیں کہ ناجائز تعلقات قائم کر لیتے ہیں پھر جب معاشرے کو پتا چلتا ہے تو معاشرے والے یہ کہتے ہیں کہ اس کو شیطان نے ورغلایا تھا اور شیطان کے کہتے پر آ کے اس نے یہ کام کر لیا ہے اور اس کا کوئی قصور نہیں ہے اور وہ خود بھی یہی کہتا ہے کہ مجھے شیطان نے بہکا دیا۔

شیطان کو کیسے پہچانیں؟

شیطان سے انسان اس وقت بچ سکتا ہے جب اس کے وسوسہ ڈالنے سے پہلے ہم اسے پہچانتے ہوں۔ جب ہم شیطان کو دیکھ نہیں سکتے، وہ ہمیں نظر نہیں آتا تو ہم کیسے اس کو پہچان سکتے اور اس سے بچ سکتے ہیں۔
شیطان صفت ہے شیطان کسی چیز کا نام نہیں ہے شیطان نہ کسی جن کا نام ہے اور نہ کسی اور مخلوق کا نام ہے۔ شیطان کہتے ہیں دور کرنے والے کو۔ جو بھی انسان کو اللہ، حق، حقیقت، فرائض، ذمہ داریوں یا نیک کاموں سے دور کرے وہ شیطان ہے۔ وہ چاہے جس بھی شکل میں ہو انسان ہو یا غیر انسان، اپنا ہو یا پرایا، مرد ہو یا عورت، جو بھی ایسا کام کرے گا وہ شیطان ہو گا۔
آپ خود اندازہ لگا لیں جو لوگ ہمیں راہ راست سے ہٹاتے ہیں ان میں ایک بھی جن نہیں ہو گا سب انسان ہوں گے اور انسان بھی اکثر ہمارے جاننے والے اور رشتہ دار ہوں گے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی اپنی پچھلی زندگی پر غور کرتا ہے اور اپنی موجودہ صورتحال کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا اس نے مدرسہ چھوڑ دیا تھا، اس وجہ سے اس کی یہ حالت ہے۔ تو اسے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اسکول اور مدرسہ چھوڑنے کا مشورہ دینے والا کوئی جن نہیں تھا بلکہ اس کا کوئی اپنا ہی رشتہ دار رہا ہو گا۔ ان گمراہ کن اثرات کو ابتدائی طور پر پہچاننا بہت ضروری ہے، خاص طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ مذہبی راستہ ملازمت کے حصول کے مقابلے میں غیر اہم ہے۔ اس طرح کے تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی کو مذہبی تعلیمات میں مشغول ہونے سے روک کر شیطان کا کام کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی دوست کوئی اچھا مشورہ دیتا ہے کوئی نیک راستہ دکھاتا ہے مثلا کسی مفید کتاب کی تجویز کرتا ہے تو یہ خدائی ہدایت کی علامت ہے۔

امام حسین (ع) کے نزدیک نعمتوں کو پہچاننے کا طریقہ

امام حسین (ع) دعائے عرفہ میں اپنے اردگرد موجود نعمتوں کو پہچاننے کا طریقہ بیان کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پیدائش سے پہلے یہ پاکیزہ خاندان بنایا، اس خاندان میں حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کو مبعوث کیا اور ان پر قرآن جیسی کتاب اتاری، اور علی و فاطمہ جیسی عظیم ہستیوں کے گھر ان کی پیدائش ہوئی، یہ سارا انتظام اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ہی کیا ہوا تھا پیغمبر اکرم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور کفر کا نظام ختم کر کے اسلامی نظام قائم کیا۔ فرماتے ہیں کہ یہ سب اہتمام اللہ نے میرے لیے کیا ہے۔ کیا ہم نے بھی کبھی ایسا سوچا ہے کہ اللہ نے ہمارے لیے کیا کیا اہتمام کیا اور ہدایت کے کیسے کیسے اسباب فراہم کئے۔ ہدایت کے اسباب اکثر اللہ کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں، لیکن ہم انہیں محسوس نہیں کرتے۔

بلند مقام سے کیسے شیطان نیچے گراتا ہے؟

مزید برآں، آیت اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ شیطان کس طرح لوگوں کو ان کی بلندی سے گرتا ہے۔ جو لوگ اللہ کے اسباب سے مستفید ہوتے ہیں وہ بلندی پر پہنچ جاتے ہیں لیکن شیطان ان کی کامیابیوں کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، متعدد روایات میں آیا ہے کہ نبوت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو مقام مقرر فرمایا ہے وہ دینی طالب علم کا مقام ہے- طالب علم سے مراد صرف وہ نہیں ہے جو مدرسے میں داخلہ لے لیتا ہے، بلکہ ہر وہ شخص طالب علم ہے جو علم کے حصول کی راہ میں جانفشانی کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں، لوگ اپنے اپنے کام کاج کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم رسول اللہ سے حاصل کرتے تھے۔ اور رسول خدا اور ائمہ طاہرین کے نزدیک طالب سے مراد وہی طالب علم ہیں جو ہمیشہ علم کی تلاش میں رہتے ہیں چاہے کہیں پر بھی ہوں اور ممکن ہے انہوں نے زندگی بھر مدرسے کا منہ بھی نہ دیکھا ہو لیکن چونکہ علم کی تلاش میں ہے اسے طالب علم کہا جائے گا لیکن ایک شخص جو مدرسے میں رہ کر علم کی طلب نہیں رکھتا وہ طالب علم نہیں ہو سکتا۔ تاہم، شیطان ایسے طالب علموں کو دنیاوی خواہشات کے ذریعے نیچے کھینچنے کی کوشش کرتا ہے۔ علامہ اقبال موجودہ تعلیمی نظام کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ یہ عصر حاضر تیرے مقام کا قاتل ہے کہ اس نے تجھے طالب علمی کے مقام سے گرا کر طلب معاش کی فکر میں ڈال دیا ہے اور تیری فکر کو علم کی طرف سے موڑ کر مادیات کی طرف لگا دیا ہے۔ شیطان انسان کو اس کے مقام سے گرا کر پستی کی طرف لے جاتا ہے۔
سورہ اعراف آیت 175 میں ارشاد ہے:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ
اور ان کو اس شخص کا قصہ بتائیں جس کو ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں پھر وہ ان سے کنارہ کشی اختیار کر گیا تو اس پر شیطان آ گرا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ {176}
اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ضرور اور بلند کر دیتے۔ لیکن وہ زمین سے چمٹا رہا اور اپنی خواہش کی پیروی کرتا رہا تو اس کی مثال کتے کی سی ہے۔ اگر آپ اس پر حملہ کرتے ہیں تو وہ اپنی زبان نکال لیتا ہے اور اگر تم اسے اکیلا چھوڑ دو تو وہ اپنی زبان نکالتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ یہ داستانیں اور قصے سناو ان کو تاکہ وہ غور کر سکیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتائیں جسے اللہ نے اپنی نشانیاں عطا کی، پھر بھی اس شخص نے ان نشانیوں سے دوری اختیار کرنے کا راستہ انتخاب کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو اسے ضرور بلند کر دیتا۔ تاہم، شیطان نے اسے دھوکہ دیا، جس کی وجہ سے وہ پاگل کتے کی طرح پست حالت میں گر گیا۔ شیطان ہر اس شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو آپ کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ اعلیٰ مقام سے گرا دیتا ہے۔ بلعم باعور کے نام سے جانا جانے والا یہ فرد ایک زمانے میں اتنی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کہ ان کے زمانے کے انبیاء بھی اللہ سے دعا مستجاب کروانے کے لیے اس کے پاس آتے تھے۔ لیکن اس کا زوال کیسے شروع ہوا تاریخ میں بتایا جاتا ہے کہ ایک عورت نے ابتدا میں اس سے کسی مذہبی معاملے پر گفتگو کا سلسلہ شروع کیا اور آہستہ آہستہ اس عورت کی وجہ سے اسے اپنی عزت کا سمجھوتہ کرنا پڑا۔
كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ

شیطان ہدایت یافتہ لوگوں کی کمین میں رہتا ہے

شیطان اس طریقے سے انسان کو زمین پر مارتا ہے شیطان ہدایت یافتہ لوگوں کو ہی گمراہ کرتا ہے۔ کتنے لوگ حقیقت کو سمجھنے کے باوجود شیطان کی گمراہی میں آ جاتے ہیں اور اپنی زندگی میں پستی کی وجہ سے الجھن میں پڑ جاتے ہیں۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو جب حج اور زیارات کے سفر سے واپس آتے ہیں تو خدا سے ہی دور ہو چکے ہوتے ہیں کیوں؟ چونکہ شیطان ان کو راہ راست سے گمراہ کر دیتا ہے۔ شیطان کعبہ کے راستے پر کمین لگا کر بیٹھا ہوتا ہے اور انہیں گمراہ کر دیتا ہے۔ جب اُن کے دوست اُنہیں صحیح راہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ حقیقی رہنمائی صرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔

شیطانی گمراہی کے مقابلے میں صرف تقویٰ حفاظتی ڈھال ہے

ایسے افراد کے لیے نماز قائم کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ہے۔ تقویٰ انسان کی ہمت، اس کے ارادے اور عزم کو کمزور کرنے کی شیطانی کوششوں کے خلاف حفاظت کا کام کرتا ہے۔ تقویٰ کے بغیر انسان آسانی سے ہر گمراہی کا شکار ہو سکتا ہے اور مختلف خلفشار میں الجھ سکتا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو دوسروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ یہ وہ شیاطین ہیں جو لوگوں کو اللہ کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ تقویٰ اس طرح کی حوصلہ شکنی کے خلاف تحفظ کا کام کرے گا۔ اپنے عزم کو برقرار رکھنا اور اسے ڈگمگانے نہ دینا بہت ضروری ہے۔ اپنے عزم کو یقین کے ساتھ مضبوط کرنا ضروری ہے۔
جو لوگ دوسروں کی تعریف میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور ان کی تنقید سے ڈرتے ہیں وہ جلد ہی حوصلہ شکنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ دوسروں سے لاتعلق رہتے ہیں وہ اپنے عزم کو برقرار رکھتے ہیں۔ وہ بیرونی تصدیق سے نہیں بلکہ اللہ کے لیے اپنے اعمال سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ اگر لوگ ان کی تعریف نہ کریں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اگر اللہ ان کو قبول کر لیتا ہے تو وہ عزت کے مقام پر فائز ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ساری دنیا کسی کی تعریف کرے لیکن وہ اللہ کے نزدیک پست رہے تو وہ پاگل کتے کی طرح ہے۔ اللہ ہمیں ایسے دھوکے باز شیطانوں سے محفوظ رکھے۔

خطبہ 2
غزہ اور شام کے المناک واقعات کا سبب تقویٰ کا فقدان

بغیر تقویٰ والا شخص، بعلم باعور کی طرح اپنی انسانیت کھو دیتا ہے۔ اپنے علم کو برقرار رکھنے کے باوجود، وہ بالآخر ایک پاگل کتے جیسی حالت میں آ جاتا ہے۔ سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ نے تورات حاصل کرنے والوں کو گدھوں سے تشبیہ دی ہے لیکن اس کی تعلیمات کو مجسم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح بنی اسرائیل بھی اپنے اعمال کے نتیجے میں بندر بن گئے۔ قرآن کی یہ مثالیں تقویٰ کو ترک کرنے کے نتائج کی واضح یاد دہانی کے طور پر بیان ہوئی ہیں، اور ہم اپنے موجودہ زمانے میں اس کا اور بھی بڑا ثبوت دیکھ سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر غزہ کی پریشان کن صورتحال کو لے لیجئے جو چودہ ماہ سے برقرار ہے۔ شام میں ایک المناک منظر سامنے آیا ہے جہاں بعض عرب ممالک نے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے بشار الاسد کی حکومت ختم کرنے کے لیے صیہونیوں کے ساتھ تکفیریوں کو بھی بھیج دیا۔ پاکستان اور عرب ممالک اور مسلم دنیا میں بہت سے لوگ شام میں آمریت کے خاتمے پر راحت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے عرب حکمران اسد سے زیادہ آمرانہ اور بدتر ہیں۔ جب وہ شام میں ہونے والے واقعات کا جشن مناتے ہیں، تو وہ فلسطین کے مصائب پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں، جیسے یہ کوئی ایک دور دراز کا ڈرامہ ہو جس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہ ہو۔ ترکی کے مسلمان شام میں ہونے والی تبدیلی پر خوش ہو سکتے ہیں، لیکن وہ غزہ، رفح اور خان یونس میں جاری بمباری کے بارے میں خاموش ہیں، جہاں روز مرہ کی زندگی تشدد اور بھوک کا شکار ہے۔ صہیونی غزہ کے عوام کو محرومی کی حالت میں رکھے ہوئے ہیں، صرف ان علاقوں میں خوراک کی تقسیم کا اعلان کرتے ہیں جن پر بعد میں بمباری کر سکیں۔

عرب حکمرانوں کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں

یہ طرز عمل تقویٰ کی گہری کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ جس طرح قرآن نے بلعم باعور کو ایک پاگل کتے کے طور پر بیان کیا ہے، ہمیں یہ پوچھنا چاہیے کہ ہم ان لوگوں کے لیے کیا مثال پیش کریں جنہوں نے دوسروں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور بربریت کو نظر انداز کیا ہے۔ اگر یہ لوگ واقعی انسانیت کے مالک ہوتے تو شام میں ہونے والے اقدامات پر اظہار افسوس کرتے۔ فلسطینیوں پر جاری تشدد کے مقابلے میں زبان کھولتے اور اسے بند کروانے کی کوشش کرتے۔
عرب حکمران اپنی ملی بھگت میں پاگل کتوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ وہ فلسطین کے مصائب کو ختم کرنے کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کرتے۔ شام کی صورت حال پر جشن منانے والے درحقیقت اسرائیل کو نمایاں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اگرچہ امریکہ کو اکثر اسرائیل کے سب سے بڑے حامی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں بن سلمان، متحدہ عرب امارات اور مصر جیسے رہنماؤں نے اس سے بھی زیادہ اسرائیل کو مدد فراہم کی ہے۔ وہ حمایت جو امریکہ کبھی بھی فراہم نہیں کر سکتا تھا، اردگان نے وہ سہولت فراہم کر دی جو مذہبی اصولوں کے ساتھ غداری کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ خیانت تقویٰ کے فقدان سے ہوتی ہے۔