فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کھلاڑیوں کے مفادات کا تصادم زیادہ واضح ہو رہا ہے جو دمشق کے زوال کا باعث بنے۔
خطہ مسلسل اور تیز رفتارتبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہا ہے، جو صرف فوجی تصادم تک محدود نہیں بلکہ سیاسی اتحادوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ ان اہم تبدیلیوں میں سے ایک، دمشق حکومت کا سقوط ہے، جو رواں سال 8 دسمبر کو ہوا۔ اس منظر کے پیچھے اسرائیل اور کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) اور شامی کرد ملیشیاؤں، جنہیں «قواتِ شامِ جمہوری» (قسد) کہا جاتا ہے، کے درمیان تعلقات کا جال نمایاں ہو رہا ہے، جو شمالی شام میں ایک کرد ریاست کے قیام کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
ان تبدیلیوں کے بعد ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ «کرد عوامی تحفظ یونٹس» (ی پ ج)، جو قسد کا سب سے بڑا دھڑا ہیں، کو تسلیم نہیں کرتا اور انہیں کردستان ورکرز پارٹی کی توسیع سمجھتا ہے، جسے انقرہ دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔
یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب دمشق کے سقوط کے بعد «تحریر الشام» نے قسد کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا، جن میں «تل رفعت» شامل ہے، جو ترکی اور حلب کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے، اور «منبج» جو شمالی شام کو اس کے مشرقی حصے اور «دیر الزور» شہر سے جوڑتا ہے۔
فی الحال، تحریر الشام «عین العرب» (کوبانی) پر قبضے کی تیاری کر رہا ہے، جو صوبہ حلب میں قسد کا آخری گڑھ ہے، اور ساتھ ہی «رقہ» شہر، جو صوبہ رقہ کا مرکز ہے۔
مشترکہ منصوبہ
اسرائیل، کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) اور قسد کے درمیان تعاون کسی سے پوشیدہ نہیں، اور اسرائیلی وزیر خارجہ «گیدون سار» کے حالیہ بیانات نے اس تعلق کو مزید نمایاں اور واضح کر دیا ہے۔
سار نے اپنی تقریر میں کردوں کو ایک “عظیم قوم” اور ایرانی و ترک امتیازی سلوک کا شکار قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ سیاسی اور سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر اسرائیل کے تعلقات کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان بیانات کو اسرائیلی میڈیا اور پی کے کے اور کرد عوامی تحفظ یونٹس (ی پ ج) کے قریبی پروپیگنڈہ چینلز کی جانب سے وسیع پیمانے پر پذیرائی اور تشہیر ملی۔
یہ میڈیا اور سیاسی حمایت شمالی شام میں کردوں کے “خودمختار حکومت” کے منصوبے، اور اس سے بھی آگے شام کی تقسیم اور کردستان کے قیام کی کوششوں کے لیے ایک اہم موڑ سمجھی جاتی ہے۔ اسرائیل کا ماننا ہے کہ کرد ریاست کا قیام اس کے “عظیم اسرائیل” منصوبے کا حصہ ہے۔ اس سے قبل، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے بیٹے «یائیر» نے ایسے نقشے جاری کیے تھے جو بالواسطہ طور پر اسرائیلی عزائم کی عکاسی کرتے ہیں۔
«تحریر الشام» اور اس کے اتحادی گروہوں کی شام کے 70 فیصد علاقوں پر گرفت نے کردوں کے اندر شدید خدشات پیدا کر دیے ہیں، جو شام کی تقسیم اور اپنی ریاست کے قیام کی کوشش میں ہیں۔
ترکی کی حمایت یافتہ «شامی قومی فوج» کے مشرقی فرات میں آپریشنز، جن کے نتیجے میں تل رفعت اور بعد میں منبج آزاد ہوئے، قسد کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئے، جو 2016 سے ان علاقوں پر قابض تھے۔ اس فوجی پیش رفت نے شام کی تقسیم کے منصوبوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا، جو امریکہ اور اسرائیل عرصے سے وہاں آگے بڑھا رہے تھے۔
ان حالات میں، ایسا لگتا ہے کہ شام میں تنازعات صرف داخلی نہیں رہیں گے، بلکہ علاقائی اور عالمی کھلاڑی بھی اس میں شامل ہوں گے۔ پی کے کے اور اسرائیل ان میں شامل ہیں، جو شام کے نئے منظرنامے میں اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن «تحریر الشام» اور اس کے اتحادی گروہ ان کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ صورتحال شام کو ایک نئے دور کے تنازعات اور جھڑپوں کے دہانے پر لے جا رہی ہے۔
مدد کی درخواست
مشرق وسطیٰ میں موجودہ غیر معمولی بحرانی حالات کے تناظر میں، ہم بے مثال اتحادوں اور مفادات کے تصادم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
9 دسمبر کو عبرانی زبان کے اخبار «جروزالم پوسٹ» نے انکشاف کیا کہ «ی پ ج» نے باضابطہ طور پر اسرائیل سے مدد کی درخواست کی ہے۔ یہ درخواست قسد کی جانب سے اپنی پوزیشن بچانے کی کوششوں کے تحت کی گئی، خاص طور پر تحریر الشام کے کردوں کے زیر قبضہ علاقوں میں پیش قدمی اور منبج و تل رفعت جیسے شہروں کے نقصان کے بعد۔
اس درخواست کے جواب میں، «سار» نے زور دیا کہ کردوں پر حملے بند ہونے چاہئیں اور کہا کہ “ہم اس معاملے پر اپنے وائٹ ہاؤس میں دوستوں اور دیگر ممالک سے مشاورت کریں گے۔” انہوں نے تحریر الشام کے جنگجوؤں کو “شامی باغی” قرار دیتے ہوئے کردوں پر حملے کے خلاف وارننگ دی اور کہا، “اگر کردوں پر شام میں حملہ ہوا تو اسرائیل ان کے دفاع میں مداخلت کرے گا۔”
یہ بیانات واضح طور پر ترکی کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے خلاف کردوں کی حمایت میں اسرائیل کے موقف کو ظاہر کرتے ہیں، خاص طور پر جب «سار» نے کہا کہ کرد صرف اسرائیل ہی کے حمایت یافتہ نہیں بلکہ امریکہ بھی ان کی حمایت کرتا ہے۔
سار کے ان بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے، امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر، جنرل «مائیکل ایرک کورل» نے 10 دسمبر کو کردوں کے مراکز کے دورے کے دوران باضابطہ طور پر امریکہ کی حمایت کا اعلان کیا۔
ادهرامریکی سینیٹر «لِنڈسی گراہم» نے ترکی کو کردوں کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر ترکی کے حملے جاری رہے تو واشنگٹن ماضی کی طرح انقرہ پر پابندیاں عائد کرے گا۔
ان تبدیلیوں کے درمیان، عبرانی میڈیا نے کردوں کی خودمختار حکومت کے منصوبے کو وسعت دینے کا مطالبہ کیا، تاکہ ایک ایسا وفاقی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جو جنوبی شام میں دروزی برادری کو بھی شامل کرے۔ اس منصوبے کا مقصد شام کی تقسیم کی سمت میں عملی اقدامات کرنا ہے، جو اسرائیل کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے، تاکہ خطے کو اسرائیل کے مفادات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
کردستان ورکرز پارٹی کے بانی اراکین میں سے ایک «صالح مسلم» نے ایک پریس انٹرویو میں کردوں کے بارے میں اسرائیل کے مؤقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا:
“ہم کسی بھی فریق کا خیر مقدم کرتے ہیں جو کردوں کے حقوق کی حمایت کرے۔ اسرائیل کا مؤقف درست ہے؛ انہوں نے ہماری قربانیاں دیکھیں اور سمجھا کہ ہم کبھی مشرق وسطیٰ میں یہودی قوم کی موجودگی کے منکر نہیں رہے۔”
مسلم نے زور دیا کہ اسرائیل کی حمایت بہت اہم ہے، کیونکہ اس سے بین الاقوامی پالیسی، خاص طور پر یورپی یونین پر اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اسرائیل کی حمایت صرف زبانی نہیں ہوگی بلکہ عملی اقدامات بھی کیے جائیں گے۔
یہ بیانات اور اقدامات اسرائیل اور کردوں کے درمیان مشترکہ کوششوں کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں، جو خطے میں توازن کو تبدیل کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ اب اسرائیل کوشش کر رہا ہے کہ کردوں کے ذریعے ترکی کو کمزور کرے اور شام و خطے میں اپنے مقاصد حاصل کرے، جبکہ شامی کرد غیر ملکی حمایت کے ذریعے تحریر الشام اور ترکی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال شام میں مفادات اور اہداف کے تصادم کی وجہ سے تنازعات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
اردوغان کا انتباہ
مشرق وسطیٰ میں مسلسل بحرانوں کے تناظر میں 1920 کی «سیور معاہدہ» ایک بار پھر زیر بحث آ رہا ہے۔
فرانس سے تعلق رکھنے والے «برنارڈ لیوی»، جو اسرائیلی موساد سے قریبی تعلقات اور شامی کردوں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے مشہور ہیں، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (پہلے ٹوئٹر) پر ایک متنازع پوسٹ میں لکھا:
“موجودہ تبدیلیاں دو ممکنہ نتائج پر منتج ہوں گی: یا تو شام میں ایک خودمختار کرد حکومت کا قیام یا کردوں کی آزادی اور کرد ریاست کا قیام۔”
یہ بیان صرف ایک تجزیہ نہیں بلکہ 1920 کی سیور معاہدے کی یاد دہانی ہے، جس کا مقصد سلطنت عثمانیہ کی تقسیم اور نئی قومی ریاستوں کی تشکیل تھا، جن میں کرد ریاست بھی شامل تھی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تاریخی منظرنامہ آج نئے انداز میں، موجودہ سیاسی توازن کے مطابق دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے۔
اسی سلسلے میں، ترکی کے صدر «رجب طیب اردوغان» نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبوں کے بارے میں خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبے فلسطین اور لبنان کے بعد ترکی کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ اردوغان نے کہا:
“نتن یاہو ایک ایسے خواب کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں اناطولیہ (ترکی) بھی شامل ہے، اور اس بارے میں وہ مختلف مواقع پر اشارہ دے چکے ہیں۔”
اردوغان نے کہا:
“اسرائیل خطے میں خاص طور پر شمالی شام اور عراق میں اپنے منصوبوں اور اہداف کو پورا کرنے کے لیے علیحدگی پسند تنظیموں اور گروہوں کا استعمال کر رہا ہے، جن میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) بھی شامل ہے، جسے ایک آزاد کرد ریاست کے قیام کا وعدہ دیا گیا ہے۔”
ترکی کا کہنا ہے کہ وہ ان خطرات کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا اور ان پیشگی اقدامات کو اپنائے گا جو امریکی اور اسرائیلی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبے خطے میں صہیونی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کردوں کو بطور آلہ کار استعمال کرنے پر مبنی ہیں۔
انقرہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان منصوبوں کا مقابلہ جاری رکھے گا اور جلد ہی دنیا کو یہ دکھائے گا کہ وہ خطے کی تقسیم کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی قوت رکھتا ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں