صلح امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور انقلاب امام حسین علیہ السلام کا موازنہ
فاران: امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) نے صلح و مصالحت کا راستہ کیوں اپنایا اور امام حسین (علیہ السلام) نے جنگ اور قتال کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ ان دو معصوم اماموں کے عصری تقاضوں میں فرق کیا تھا؟ جواب: شک نہیں ہے کہ امام حسن (علیہ السلام) کے زمانے کے تقاضے امام حسین (علیہ […]
فاران: امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) نے صلح و مصالحت کا راستہ کیوں اپنایا اور امام حسین (علیہ السلام) نے جنگ اور قتال کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ ان دو معصوم اماموں کے عصری تقاضوں میں فرق کیا تھا؟
جواب: شک نہیں ہے کہ امام حسن (علیہ السلام) کے زمانے کے تقاضے امام حسین (علیہ السلام) کے زمانے سے بالکل مختلف تھے اور ہر ایک نے اپنے زمانے کے خاص تقاضوں کے مطابق مختلف حکمت عملیاں اختیار کی ہیں۔
یعنی اگر امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) امام حسین (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوتے تو یقینا وہی کچھ کرتے جو امام حسین (علیہ السلام) نے کیا اور اگر امام حسین (علیہ السلام) امام حسن (علیہ السلام) کی جگہ ہوتے، تو وہی کچھ کرتے جو امام حسن (علیہ السلام) نے سرانجام دیا۔
اسلام صلح کا دین ہے یا جنگ کا؟
جہاد و قتال سے بیزار اور عرفی عقلیت کے دھارے میں بہنے والے اصطلاحی دانشور عام طور ـ مغرب کی خوشنودی کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہوئے ـ کہتے ہیں کہ اسلامی امن و آشتی کا دین ہے، یا بعض کے بقول “رحمانی مکتب” ہے، اور اس کا جنگ و جہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے، جنہیں چاہئے کہ عصری تقاضوں کی بنیاد پر موقف اپنائیں اور اسلام کو اپنی خواہشوں کے اظہار کا ذریعہ بنانے سے اجتناب کریں۔
بہرحال اگر کوئی پوچھے کہ اسلام مصالحتوں کا دین ہے یا جنگ و جہاد کا دین؟ تو جواب یہ ہوگا کہ:
قرآن کریم کی وحیانی تعلیمات میں جنگ کا حکم بھی آیا ہے اور مصالحت کا بھی۔
خدائے متعال کفار و مشرکین کے خلاف جنگ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
“وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا؛ [1]
اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو خود تم سے لڑتے ہیں اور [اللہ کی] حدود سے تجاوز نہ کرو”۔
اور دوسری آیات کریمہ میں مصالحت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
“وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا؛ [2]
اور اگر وہ [امن و] صلح کی جانب مائل ہوں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہو جائیے”۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
“وَالصُّلْحُ خَيْرٌ؛ [3]
اور صلح تو بڑی اچھی چیز ہے”
چنانچہ اسلام صلح و مصالحت کو ایک اٹل اصول کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور مسلمانوں سے نہیں چاہتا کہ کسی بھی حال میں صلح و مصالحت اور التوائے جنگ کے لئے کوشاں رہیں، اور ساتھ ساتھ ہر حال میں جنگ کا خواہاں بھی نہیں ہے اور مسلمانوں سے نہیں کہتا کہ تم ہر حال میں جنگ اور قتال میں مصروف رہو!
اسلام میں اصولی طور پر صلح اور جنگ کا دارومدار حالات کے تقاضوں پر ہے۔ خواہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانے میں خواہ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام)، امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) کے زمانوں میں، خواہ دیگر ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) کے زمانوں میں، مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر وقت اور ہر مقام پر ان کے اہداف و مقاصد کے حصول، اسلامی اور الٰہی اقدار کے فروغ اور مسلمانوں کے حقوق کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں رہیں۔ انہیں اجتہادی اور ماہرانہ آراء کی روشنی میں دیکھنا چاہئے کہ اپنے زمانے اور اپنی جغرافیائی حدود میں کیا وہ جنگ و قتال کے ذریعے اپنے مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں، یا صلح اور التوائے جنگ کے ذریعے؟ اصولی طور پر یہ سوال ہی درست نہیں ہے کہ اسلام جنگ کا دین ہے یا صلح کا۔ کیونکہ یہ دونوں حالات کے تابع ہیں۔
امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کے عصری تقاضوں میں فرق
1۔ امام حسن (علیہ السلام) مسند خلافت پر رونق افروز تھے اور امام حسین (علیہ السلام) ناقد
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد امام حسن (علیہ السلام) مسند خلافت پر رونق افروز ہوتے ہیں؛ معاویہ خاص تاریخی وجوہات کی بنا پر روز بروز طاقتور ہو جاتا ہے؛ معاویہ عراق پر قبضہ جمانے کے لئے روانہ ہوتا ہے؛ امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) خلیفۂ مسلمین ہیں اور ایک باغی اور طاغی گروہ نے آپؑ کے خلاف بغاوت کی ہے، اور حالات بدل جاتے ہیں۔ ان حالات میں امام حسن (علیہ السلام) کا قتل خلیفۂ مسلمین کا قتل اور مرکز خلافت کی شکست ہے! چنانچہ صلح کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ امام حسین (علیہ السلام) ایک فاسق و فاجر اور اسلام دشمن حکمران کے خلاف اٹھتے اور اس راہ میں قتل بھی ہوتے تو یہ آپؑ کے لئے باعث فخر اور اسلام کے لئے باعث بقاء ہوتا، اور یہی کچھ ہؤا بھی۔
2۔ ایک وسیع البنیاد جنگ کی صورت میں شکست کا امکان
اگر امام حسن (علیہ السلام) جنگ کو ترجیح دیتے تو یہ جنگ مسلمانوں کے دو شامی اور عراقی مسلمانوں کی عظيم آبادی کے مابین چند سالہ جنگ ہوتی؛ فریقین میں سے لاکھوں افراد کے مارا جانا حتمی تھا، چنانچہ جنگ حتیٰ آپؑ کی فتح کی صورت میں بھی حتمی نتیجے کے بغیر، اختتام پذیر ہو جاتی، گوکہ امامؑ کے لشکر کے بہت سارے حجازی کمانڈر معاویہ کے دیناروں کے سامنے سرتسلیم خم کر چکے تھے، اس تلخ حقیقت سمیت باقی تاریخی شواہد سے اس جنگ میں آپؑ کی شکست کا امکان بھی پایا جاتا تھا۔
امام حسین (علیہ السلام) کے قیام کے اسباب اور امام حسن (علیہ السلام) کے زمانے کے حالات کا تقابلی جائزہ
امام حسن مجتبی اور امام حسین (علیہما السلام) کے زمانوں کے حالات بھی بہت مختلف تھے، اور امام حسین (علیہ السلام) کے قیام کے تین اہم اور بنیادی عوامل تھے:
1۔ ظالم حکومت وقت، امام حسین (علیہ السلام) سے بیعت مانگ رہی تھی
یزید لعین اور اس کی حکومت کے کارندے آپؑ سے بیعت لینے پر اصرار کر رہے تھے اور آپؑ اس بیعت سے مکمل طور پر انکاری تھے اور آپؑ کا جواب نفی میں تھا۔ لیکن کیا کسی نے امام حسن (علیہ السلام) سے کسی نے بیعت کا تقاضا کیا تھا؟ نہیں! کیونکہ صلح کے معاہدے میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ معاویہ آپؑ سے بیعت کا تقاضا نہیں کرے گا۔ چنانچہ ایک نکتہ جس نے امام حسین (علیہ السلام) کو شدید مزاحمت پر آمادہ کیا وہ امام حسن (علیہ السلام) کے زمانے میں نہیں پایا جاتا۔
2۔ کوفیوں کی آمادگی
گوکہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کوفیوں کی دعوت امام حسین (علیہ السلام) کی تحریک کا سببِ تامّ ہے، کیونکہ آپؑ نے اپنی اس احتجاجی تحریک کا آغاز ماہ رجب المرجب سنہ 60ھ میں مدینہ منورہ سے کیا تھا، اور بارہا فرمایا تھا کہ یزید مجھے ضرور قتل کروائے گا۔
مثال کے طور پر، آپؑ مکہ سے کوفہ عزیمت کرتے وقت عبداللہ بن عباس کے منع کرنے پر جوابا فرمایا: “میں دوسرے کسی بھی مقام پر قتل ہونا مکہ میں قتل ہونے سے زیادہ پسند کرتا ہوں”۔ [4]
یا یہ کہ ابن عباس نے عاشورا کے بعد یزید کے نام ایک خط میں لکھا: میں ہرگز نہیں بھولوں گا کہ تو نے حسین کو کس طرح حرم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نکلنے پر مجبور کیا اور تو نے اپنے گماشتوں کو حکم دیا کہ آپؑ کو حرم میں قتل کر ڈالیں۔ [5]
نیز آپؑ نے اسی حوالے سے عبداللہ بن زبیر سے فرمایا: خدا کی قسم! اگر میں ایک شبر (بالشت) بھر مکہ سے باہر مارا جاؤں، تو میرے لئے زیادہ پسندیدہ ہے کہ ایک شبر بھر حرم کے اندر مارا جاؤں، خدا کی قسم! اگر مجھے جانوروں کے گھونسلے میں بھی چھپ جاؤں وہ مجھے نکال لائیں گے اور مجھے قتل کر ڈالیں گے”۔ [6]
یا مثلا آپؑ اپنے بھائی محمد حنفیہ سے واضح الفاظ میں فرماتے ہيں کہ یزید کے گماشتے مجھے اللہ کے حرم امن میں قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ [7] اور تاریخی متون میں بوضوح بیان ہؤا ہے کہ یزید نے کچھ افراد کو بڑی ہتھیار میں اسلحہ دے کر حرم کی حدود میں امام حسین (علیہ السلام) پر دہشت گردانہ حملہ کرنے کے لئے بھجوایا تھا۔ [8]
جبکہ کوفیوں کے خطوط آپؑ کے مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران آنا شروع ہوئے تھے؛ اور آپؑ کی کوفہ کی طرف عزیمت کا عقلی سبب یہ تھا کہ اگر آپؑ کوفیوں کی دعوت پر عراق کی طرف عزیمت نہ کرتے تو کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ “اگر امام حسین (علیہ السلام) کوفہ کی طرف عزیمت کرتے اور کوفیوں کی دعوت کو نہ ٹھکراتے تو جام شہادت نوش نہ کرتے اور تاریخ اسلام میں یہ افسوسناک واقعہ رونما نہ ہوتا”، اور اس الزام کو جواب دینا ممکن نہ ہوتا۔
بہرحال امام حسین (علیہ السلام) جب مکہ مکرمہ میں مقیم تھے، تو کوفیوں نے 18000 خطوط روانہ کئے اور آپؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی، جبکہ امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں کوفہ کے حالات بالکل مختلف تھے۔ کوفہ اس زمانے میں ایک ایک درماندہ، شکست خورد، پریشان، منتشر اور متفرق شہر کی تصویر پیش کر رہا تھا۔
3۔ امر و نہی، تحریک حسینی کا اہم مقصد
امام حسین (علیہ السلام) نے، یزیدیوں کی طرف سے بیعت کے تقاضوں یا کوفیوں کی دعوت سے قطع نظر، اپنا مشن بیان کرتے ہوئے کئی بار فرمایا:
“وَأَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِرَاً وَلَا بَطِراً وَلَا مُفْسِدَاً وَلَا ظَالِماً وَإنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأنْهَى عَنِ المُنْكَرِ وَأُسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَأبِي عَلِيِّ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلُيهِ السَّلَامُ؛ [9]
میں سرکشی کرنے، انتشار اور فساد پھیلانے یا ظلم کو ہوا دینے کے لئے نہیں نکلا بلکہ اپنے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا، میں چاہتا ہوں امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں (یعنی نیکیوں اور اچھائیوں کا حکم دوں اور اور برائیوں سے منع کروں) اور اپنے جد امجد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور والد ماجد علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) کی سیرت پر گامزن رہوں”۔
امام حسین (علیہ السلام) اپنے زمانے کے امام تھے، حالات کے رخ کو سمجھتے تھے، لوگوں نے بھی یزید لعین کے ظلم و جور اور اسلامی آثار کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا چنانچہ معاشرے کی سطح پر بھی آپؑ کی دعوت غیر مقبول نہیں تھی، یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کی اکّثریت ـ بالخصوص اہل حجاز ـ نے آپؑ کا ساتھ نہیں دیا جس کی اپنی وجوہات ہیں جن کا جائزہ لینے کے لئے الگ تحقیق کی ضرورت ہے۔
چنانچہ جیسا کہ امام حسین (علیہ السلام) کے کلام سے واضح ہے، آپؑ امر و نہی کو اپنا پہلا فریضہ سمجھتے تھے، کیونکہ جور و عدوان کی حکمرانی تھی اور آپؑ نے اس حکمرانی کے خلاف اعلانیہ احتجاج کا عزم کر رکھا تھا۔ یوں سمجھئے کہ امام حسن (علیہ السلام) کی صلح تحریک حسینیہ کے لئے تمہید کی حیثیت رکھتی ہے اور امام حسن (علیہ السلام) نے ہی امام حسین (علیہ السلام) کی عاشورائی تحریک کے لئے تمہید فراہم فرمائی تھی: سلام اللہ علیہما۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1]۔ سورہ بقرہ آیت 190۔
[2]۔ سورہ انفال، آیت 61۔
[3]۔ سورہ نساء، آیت 128۔
[4]۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ والنہایہ، ج8، ص159۔
[5]۔ یعقوبی،احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبى، ج2، ص 249۔
[6]۔ أبی مخنف، لوط بن یحیىٰ ازدى، وقعۃ الطف، ص152۔
[7]۔ (سید ابن طاؤس الحلی، علی بن موسیٰ، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص64۔)
[8]۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص339۔
[9]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص328۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تالیف: فرحت حسین مہدوی
تبصرہ کریں