صہیونی ریاست کے ذریعہ شمالی شام کے گیس کے ذخائر کو لوٹنے میں سویداء کا کردار
فاران تجزیاتی خبرنامہ: اسرائیل اس منصوبے کے تحت صوبہ سویداء شام کے شمالی صوبہ سویداء میں گیس اور تیل کے ذخائر سے تیل و گیس کو نکال کر مقبوضہ علاقوں تک پہنچانے والی پائپ لائن کے لیے اہم گزرگاہ ہوگا۔
2011 کے فسادات کے آغاز کے ساتھ ہی سویداء کے حالات اس ڈگر پر تھے کہ جو بھی ہوگا اسکا راست فائدہ صہیونی ریاست کو ہوگا۔
جب 2011 میں شام کے مختلف علاقوں میں بدامنی شروع ہوئی، تو جنوبی شام کے دروزی اکثریتی علاقے سویداء میں بھی مظاہرے ہوئے، جنہیں بظاہر عوامی احتجاج کہا جا رہا تھا، لیکن ان کے پیچھے اصل ہاتھ کہیں اور تھے۔ ایک مقامی دروزی ذریعے نے “دی کراڈل” نامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ یہ مظاہرے بنیادی طور پر اسرائیلی اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حمایت یافتہ گروپوں کی جانب سے منظم کیے جا رہے تھے۔ اس کے مطابق، سویداء میں سب جانتے ہیں کہ “رجال الکرامہ” تحریک اور “حزب اللواء السوری” ان مظاہروں کے مرکزی کردار ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔
وحید البلعوس کون ہے؟
مقامی ذرائع کے مطابق، “رجال الکرامہ” تحریک کی قیادت وحید البلعوس نامی دروزی رہنما کر رہے تھے، جو 2011 سے پہلے سویداء میں غیر معروف شخصیت تھے۔ 2012 کے بعد ان کا نام مسلح گروپوں کے ساتھ جوڑا جانے لگا۔ الجزیرہ کے مطابق، البلعوس دروزی کمیونٹی میں مقبول نہیں تھے اور ان کے اقدامات پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہا۔
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ البلعوس اسرائیل کی مخالفت کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن ان کے اسرائیلی دروزی رہنماؤں سے قریبی تعلقات تھے، جو اسرائیلی انٹیلی جنس سے جڑے ہوئے تھے۔ رپورٹوں کے مطابق، اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی “موساد” اور اسرائیل کے دروزی رہنما، خاص طور پر شیخ موفق طریف، رجال الکرامہ تحریک کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔
البلعوس کادروزیوں کا محافظ؟
2012 میں البلعوس نے ایک مسلح گروپ تشکیل دیا، جس کا مقصد دروزی کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنا بتایا گیا۔ تاہم، مقامی ذرائع کے مطابق، ان کے گروپ نے اپنے ہتھیار دہشت گرد تنظیم “جبهة النصرة” (شام میں القاعدہ کا ذیلی گروپ) کے ذریعے اسرائیل سے حاصل کیے۔ یہ تعلقات دروزیوں میں شدید تنقید کا باعث بنے اور بالآخر البلعوس اپنے ہی سماج میں تنہائی کا شکار ہو گئے۔
“حزب اللواء السوری” کا قیام
جب شام میں حالات کچھ حد تک پرسکون ہوئے، تو 2021 میں اسرائیل نے “حزب اللواء السوری” کی پشت پناہی کی، جس کی قیادت فرانس میں مقیم صحافی مالک ابوالخیر کر رہے تھے۔
یہ جماعت، جو بظاہر اقتصادی مسائل پر احتجاج کے لیے بنائی گئی تھی، درحقیقت قطر، فرانس، امریکہ، اور اسرائیل کی مالی اور عسکری حمایت سے فائدہ اٹھا رہی تھی۔
قسد، اللواء السوری اور رجال الکرامہ کا اتحاد
کچھ مہینوں بعد، شمالی شام میں سرگرم کرد ملیشیا “قسد” نے اللواء السوری کی حمایت کا اعلان کیا اور ان کے لیے تربیتی کیمپ قائم کیے۔ یہ اقدام اس بڑے منصوبے کا حصہ تھا، جس کا مقصد شام کو تقسیم کرنا اور شمالی گیس و تیل کے وسائل کو اسرائیل منتقل کرنا تھا۔
منصوبے کے اثرات
یہ منصوبہ نہ صرف شام کی معیشت کو کمزور کرے گا، بلکہ اسرائیل کو مصر کے گیس وسائل سے آزاد کر دے گا اور اسے یورپ تک گیس برآمد کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ شام کے میدان میں موجود دیگر طاقتیں، خصوصاً ترکی اور صدر رجب طیب اردگان، اس منصوبے کے مقابلے میں کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں خاص کر اردگان جو بہت سی امیدوں کے ساتھ اس فتنے میں کودے ہیں ۔
تبصرہ کریں