صہیونیت اور صہیونی ریاست کی تشکیل
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
صہیونیت کے اہداف یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کی تاسیس تک محدود ہیں۔ انھوں نے سنہ 1897ع کے ابتدائی مہینوں میں، سوئٹزر لینڈ کے شہر باسیل (Basel) میں عالمی صیہونی کانگریس کے پہلے عالمی اجتماع میں فلسطین کو اس بہانے اپنی ریاست قائم کرنے کے لئے چن لیا کہ یہ کسی زمانے میں یہودیوں کا مسکن تھا۔ صہیونی تحریک عملی طور پر، عرب دنیا کے قلب میں ایک بیرونی ریاست قائم کرنے اور اس سرزمین کے زیادہ تر باشندوں کو ان کے اپنے وطن سے نکال باہر کرکے دنیا بھر میں ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرنے، میں کامیاب ہوئی۔ صہیونی اقوام متحدہ کے زیادہ تر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور جب ان ممالک نے اسے تسلیم کیا تو گویا کہ اس عبرانی ریاست نے بین الاقوامی سطح پر ایک قسم کی مقبولیت حاصل کرلی۔
سلطنت عثمانیہ کی شکست و ریخت اور عربی و اسلامی دنیا سے ترکی کی علیحدگی کے بعد فلسطین برطانیہ کے زیر سرپرستی آگیا اور عالمی صہیونیت کا مرکزِ ثقل (Centre of Gravity) برطانیہ منتقل ہؤا بعض یہودیوں کو اعلی مناصب اور کابینہ اور پارلیمان میں رکنیت دی گئی؛ اور اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور (Arthur James Balfour) نے اپنا بدنام زمانہ استعماری اعلامیہ جاری کرکے فلسطین کا ایک حصہ صہیونی یہودیوں کے حوالے کر دیا۔ اور “اسرائیل” نامی ریاست چند سال بعد مورخہ 14 مئی 1948ع – عین اسی وقت معرض وجود میں آئی جب برطانیہ نے فلسطین کو ترک کردیا – معرض وجود میں آئی۔ (6)
جدید صہیونیت یورپ میں یہود دشمنی کی تازہ لہر اٹھنے کے بعد اور انیسویں صدی میں یورپی قوم پرستانہ تحریکوں کے زیر اثر، اس منصوبے کے ساتھ معرض وجود میں آئی، کہ فلسطین میں یہودیوں کی ملت واحدہ (یا متحدہ یہودی قوم) کی ایک حکومت ہونا چاہئے؛ اور صہیونیت کی آج کی مرکزیت امریکہ میں تمام صہیونیوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ (7)
یہ امر مسلّم ہے کہ “بیت المقدس” کے قریب یا “نیل سے فرات تک” کی دوسری سرزمینوں میں رہائش کا یہودی اشتیاق بہت دیرینہ ہے؛ لیکن انیسویں صدی تک یہ اشتیاق صرف زیارت اور مذہبی مقاصد تک محدود تھا؛ جس طرح کہ مسلمین مکہ اور مدینہ میں رہائش کے مشتاق ہیں؛ چنانچہ صہیونیت کے نظریہ پرداز عالمی یہودیوں کے مذہبی رجحانات کو “فلسطین” اور “نیل سے فرات تک” کی سرزمینوں اور صہیونی تحریک سے جوڑنے اور اس نوظہور بدعت [صہیونیت] کے لئے پس منظر گھڑنے کی تمام تر کوششیں باطل اور ناقابل اعتبار ہیں۔
واضح رہے کہ یہودیوں کی مقدس کتاب “تورات” نیز “تلمود” کی رو سے ان سرزمینوں میں یہودیوں کے لئے مخصوص سیاسی نظام کے قیام کا فریضہ یہودیوں کو نہیں سونپا گیا ہے؛ تاہم نہ صرف یہودیوں کے مقدس مصادر و مآخذ میں، بلکہ قرآن کریم اور عیسائیوں کی کتاب انجیل میں بھی ابراہیمی ادیان کے پیروکاروں کو، توحید اور یکتا پرستی پر استوار ایک عالمی حکومت کا وعدہ ضرور دیا گیا ہے اور تمام مذاہب و ادیان میں بیت المقدس کو اس حکومت کے قیام کے وقت کے عالمی تنازعات کے مرکز کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔
انیسویں صدی کے دوران یورپ میں “قومی-ریاست” (Nation-state) کی بنیاد جدید سیاسی تقسیمات کو استحکام ملنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے سیاسی و مذہبی عمائدین نے بھی مغرب کی غالب صورت حال سے متاثر ہوکر یہودیوں کو خاص جغرافیائی حدود میں اکٹھا کرکے اپنے لئے مخصوص حکومت کے قیام کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور اپنے خیالات و نظریات کو اس زمانے کے سیاسی حلقوں میں شائع کیا؛ لیکن یہ نظریہ صرف اس وقت سنجیدہ طور پر غور آیا جب اسے یہودی سرمایہ داروں کے سامنے پیش کیا گیا۔ (8)
یہودیوں نے یروشلم کی ویرانی کے بعد دنیا بھر میں منتشر ہونے کے باوجود اپنی مذہبی وحدت کو قائم رکھا اور چونکہ وہ نسلی و مذہبی اقلیت کی رو سے مسلسل تشدد اور آزار و اذیت کا نشانہ بنے تھے، لہذا کبھی بھی “ارض موعود” کی دیرینہ آرزو کو کبھی بھی نہیں بھولتے تھے؛ اور یہی آرزو ان کو متحرک رکھتی تھی۔ عالمی صہیونیت کے قیام کے بعد، سخت گیرانہ قواعد و ضوابط کے باوجود فلسطین کی طرف یہودیوں کا سفر شروع ہؤا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی سوچ سنجیدگی کے ساتھ ابھری اور فلسطین کی تقسیم کے بعد یہ ریاست معرض وجود میں آئی۔ (حقیقت یہ ہے کہ مغرب اور یہودیوں نے اس حقیقت کو مکمل طور پر نظرانداز کیا کہ فلسطین ایک گنجان آباد سرزمین ہے، جس کی اپنی تاریخ اور پرانی تہذیب بھی ہے اور فلسطینی عوام کو ان کے اپنے ملک سے نکال باہر کرکے “فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ” کھڑا کیا گیا)۔ صہیونیت کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے عالمی رائے عامہ میں اثر و نفوذ بڑھانے کی ضرورت تھی چنانچہ انھوں نے ایک نہایت سادہ سے نظریئے کے ذریعے بے شمار شعبوں پر مشتمل مواصلاتی نظام قائم کیا۔ صیہونیت کی بنیاد توسیع پسندی، نسل پرستی، منافقت اور اقوام عالم کے درمیان تفریق و انتشار پھیلانے پر استوار ہے۔
دنیا کے زیادہ تر ممالک میں صہیونی تنظیم کے جاسوسی کے مراکز ہیں اور ان کا مؤثر ترین حربہ پوری دنیا میں عمومی ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرنا ہے۔ (9) دنیا کی تسخیر کے لئے صیہونیت کو مؤثرترین اوزاروں کی ضرورت ہے جو قطعی افادیت کے حامل ہوں۔ وہ ماضی میں ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ حقائق کی تحریف اور لوگوں کے عقائد اور افکار کو بگاڑنے کے درپے ہیں جس کے لئے عالمگیر وسائل کی ضرورت ہے؛ چنانچہ دوسرے حصے میں ہم اس ذریعے کی افادیت پر روشنی ڈالیں گے؛ تاکہ یہودیوں کے انتخاب کا سبب معلوم ہوسکے۔
پوری تاریخ میں یہودیوں کی شناخت اس لئے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں ان کی استبدادیت اور باقی انسانوں پر تسلط [کی خواہش] ان کی ذاتی خصوصیت ہے جس کی پہچان ان کے آج کے رویوں کا بہتر تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ وہ دوسروں کو انسان بھی نہیں سمجھتے، چنانچہ انھوں نے اپنی یہی فوقیت ثابت کرنے اور اپنے دلی اعتقاد کی خاطر، کسی بھی ابلاغی اقدام سے دریغ نہیں کیا ہے۔
پوری تاریخ میں بنی اسرائیل کا چہرہ نہایب مکروہ دکھائی دیتا ہے اور وہ ایک مغرور اور پریشان قوم کے طور پر پہچانا گیا ہے فوقیت کی ایسی بے معنی لالچ بنی نوع انسان کو صریح گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ خدائے متعال نے بنی اسرائیل کے لئے متعدد پیغمبر بھیج دیئے یہاں تک کہ انھوں نے یہودی مذہب اختیار کیا لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی دینداری سرکشی اور استبدادیت کی طرف منحرف ہوئی؛ یہاں تک کہ وہ دوسروں کو اپنا غلام سمجھنے لگے؛ اور بنی اسرائیلیوں کی بالا دستی کی یہی لالچ ہی تھی جس نے دوسری اقوام کے قتل عام، دوسروں کے خلاف بہتان تراشی، آزار و اذیت اور تشدد کو آسان بنایا۔ [حتی کہ وہ انبیاء کو بھی بڑی آسانی سے قتل کر دیتے تھے]۔ دنیا کی دوسری اقوام کو حقیر اور صغیر سمجھنے کی یہ غلط یہودی سوچ دین و مذہب کے نام پر دوسروں کے ساتھ بد سلوکی کا سبب بنی ہے۔ اگلی یہودی نسلیں اسی روش سے پروان چڑھے ہیں چنانچہ یہودی سرکشی میں رفتہ رفتہ کئی گنا اضافہ ہؤا ہے۔ یہودیوں کو اندیشہ تھا کہ لوگ ان کی گمراہ کن روش اور دوسری قوموں اور عوام الناس کے حق میں ان کے اقدامات کی حقیقت سے کہیں آگاہ نہ ہو جائیں۔ لہذا انھوں نے تاریخ اور تشہیری ذرائع پر علبہ پانے کی کوشش کی، اور اپنے جرائم کو اپنے دشمنوں سے منسوب کیا۔ (10)
بنی اسرائیل اور یہود کے بارے میں قرآنی تاریخ کا ایک بڑا حصہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف یہودی اقدامات کو بیان کرتا ہے جس کی وجہ سے مسلمان مصنفین کو اس مسئلے پر اپنی توجہ مبذول کرنا چاہئے تھی مگر عمل میں ایسا کچھ ہؤا نہیں ہے کیونکہ یہودیوں نے تاریخ پر اثر انداز ہونے کے لئے وسیع پیمانے پر کوششیں کی ہیں اور تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر بے تحاشا سرمایہ خرچ کیا ہے۔ لہذا یہودیوں کے بارے میں مسلمانوں کی کاوشوں میں یہودی جرائم کا نام و نشان تک نہيں ہے۔ انھوں ایسا نظام قائم کیا ہے جو کتب میں سے اصل حقائق کو حذف کرتا ہے، کتابوں کو لائبریریوں سے غائب کراتا ہے اور یہودیوں کے خلاف لکھی ہوئی کتابوں کو سینسر کرتا ہے۔ (11)
حواشی
6۔ http://yahood[.]net/
7۔ غلامرضاعلی بابایی، فرہنگ سیاسی آرش، ص378؛ ناصر جمال زادہ، اصطلاحات سیاسی، ص59؛ داریوش آشوری، دانش نامہ سیاسی، ج1، ص226۔
8۔ http://bcir.pchi[.]ir/show.php?page=contents&id=9836
9۔ غلام رضاعلی بابایی، فرہنگ سیاسی آرش، ج1، ص378 و ربه طلوعی 1386، ج1، ص59۔
10۔ نجاح الطایی. مظلوم نمایی یهود (یہود کی مظلومیت کی اداکاری)، ج1، ص12۔
11۔ ابراہیم ارجینی، تبار انحراف (انحراف کی نسل)، ص19۔
[…] تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے […]