اسرائیلی ریاست کا ڈوبتا ستارہ - 3

صہیونیت کے زوال کے بنیادی پیمانے کیا ہیں؟

کیا واقعی اسرائیل کی شکست و ریخت کا زمانہ آن پہنچا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہم صہیونیوں کے اعترافات کے اندر سے بھی اور صہیونی ریاست کی جلتی بھڑکتی صورت حال کو مد نظر رکھ کر بھی، تلاش کر سکتے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: کیا واقعی اسرائیل کی شکست و ریخت کا زمانہ آن پہنچا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہم صہیونیوں کے اعترافات کے اندر سے بھی اور صہیونی ریاست کی جلتی بھڑکتی صورت حال کو مد نظر رکھ کر بھی، تلاش کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ شواہد اور عینی ثبوتوں سے ظاہر ہے، خود اسرائیلیوں کا یقین و اعتقاد بھی یہی ہے کہ اس ریاست کے ٹوٹنے کے مراحل اندر ہی سے شروع ہو چکے ہیں:
آبادی
عارضی صہیونی ریاست کی جعلی تاریخ کے آغاز ہی سے اس کی سب سے بڑی کمزوری اسرائیلیوں کی آبادی ہے؛ جس کی وجہ سے اس ریاست کے سرغنے مختلف ادوار میں دنیا بھر کے ممالک میں رہنے والے یہودیوں کو اچھی زندگی کا جھانسہ دے کر مقبوضہ فلسطین میں آ بسنے کی ترغیب دلاتے رہے ہیں۔ سنہ 2020ع‍ کے ابتدائی مہینوں کے اعداد و شمار کے مطابق فلسطینیوں کی آبادی 5075000 نفوس پر مشتمل ہے، 1500000 فلسطینی لبنان، شام اور مصر کے مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں، 4000000 فلسطینی پڑوسی ملکوں میں کیمپوں سے باہر، رہائش پذیر ہیں۔ 1948ع‍ کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بھی 2000000 افراد فلسطینی سکونت پذیر ہیں جنہیں مبینہ طور پر اسرائیلی شہری کہا جاتا ہے۔ یوں [مذکورہ اعداد و شمار کی تاریخ سے دو سال سے زیادہ عرصہ ہونے کے پیش نظر] فلسطینیوں کی مجموعی آبادی ایک کروڑ پانچ لاکھ، 75000 (12575000) سے بھی زیادہ ہے۔
دوسری طرف سے صہیونیوں کی مجموعی آبادی چھیاسی لاکھ پچاس ہزار (8650000) ہے جن میں سے 75 فیصد یہودی، 21 فیصد اور 4 فیصد دوسرے ہیں۔ اور “دوسرے” سے مراد وہ لوگ ہیں جو نہ یہودی ہیں اور نہ ہی عرب لیکن دوسرے ممالک سے ترک وطن کرکے مقبوضہ فلسطین میں آ بسے ہیں۔ اس حساب سے یہودیوں کی آبادی اکسٹھ لاکھ اکتالیس ہزار پانچ سو (6141500) بنتی ہے اور یوں فلسطینیوں کی آبادی صہیونیوں سے دو گنا بڑی ہے۔
علاوہ ازاں اشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونیوں کی آبادی مسلسل گھٹ رہی ہے اور ان کے مقابلے میں فلسطینیں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اندازوں کے مطابق آگلے 10 برسوں میں صہیونیوں کی آبادی 42 فیصد اور فلسطینیوں کی آبادی 58 فیصد ہو جائے گی۔ [اور اس صورت میں فلسطینیوں کو صرف آزاد انتخابات کی ضرورت ہوگی کہ صہیونی ریاست کے لئے مجلس فاتحہ کا انتظام کیا جا سکے لیکن شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا 10 سال کا عرصہ صہیونی ریاست کی باقیماندہ عمر سے زیادہ ہے!]۔
الٹی ہجرت (Reverse migration):
مقبوضہ فلسطین پر قابض زیادہ تر یہودی غیر ملکی ہیں جنہیں مختلف روشوں سے یہاں منتقل کیا گیا اور غیر ملکی یہودیوں کو فلسطین میں آنے کے لئے صہیونی ریاست کے ترغیبی اقدامات مسلسل جاری ہیں لیکن یہ مسئلہ بھی ان کی مرضی کے مطابق آگے نہیں بڑھ سکا ہے اور یہاں آنے والے یا تو اپنے آبائی ممالک میں واپس چلے گئے یا پھر واپس جار رہے ہیں۔ سنہ 2018ع‍ میں “یہودیوں کی معکوس ہجرت اور [یہودیوں کی] نوآبادیاتی موجودگی کا مستقبل” کے عنوان سے ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق، “حالیہ دہائیوں میں مقبوضہ سرزمین چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد 15 لاکھ تک پہنچتی ہے اور اشاریے بتاتے ہیں کہ امن و امان کا مسئلہ یہودیوں کی الٹی نقل مکانی کا اہم ترین سبب ہے جبکہ یہ صورت حال سنہ 2000ع‍ اور سنہ 2006ع‍ میں حزب اللہ کے مقابلے میں صہیونی ریاست کی تاریخی شکستوں کے بعد کئی گنا زیادہ نازک ہوئی”۔
اندرونی اور مذہبی اختلافات:
مقبوضہ فلسطین میں آ بسنے والے یہودیوں کا تعلق عموما انتہاپسند یہودی فرقوں سے ہے۔ عارضی صہیونی ریاست کا جعلی معاشرہ مختلف انتہاپسند فرقوں اور مذاہب سے تشکیل پایا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف اور ایک دوسرے کے دشمن اور اکثر و بیشتر آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس ریاست کی مختلف یہودی حکومتیں بھی اس صورت حال پر قابو نہیں پا سکی ہیں۔

سیاسی ضعف اور ایک منظم قیادت کا فقدان:
صہیونی حالیہ برسوں کے دوران کابینہ کی تشکیل جیسے سیاسی معاملات میں عمومی طور ناکام رہے ہیں اور کمزور حکومتیں بنانے پر مجبور ہیں؛ اور جیسا کہ نفتالی بینیٹ کی موجودہ کابینہ – جو طویل المدت جھگڑوں اور اختلافات کے بعد تشکیل پا سکی ہے – زیادہ عرصے تک قائم رہنے کی قابل نہیں ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ اگلے چند ہی ہفتوں میں یہ کابینہ ٹوٹ جائے گی۔ صہیونی مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں بدعنوان اور موقع پرست سیاستدان صہیونی ریاست کی طاقت کے مراکز پر مسلط ہو چکے ہیں جو اپنے مفادات اور اقتدار کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی کمزوری اور اس کی تسدید قوت کا خاتمہ:
سنہ 2000ع‍ اور سنہ 2006ع‍ میں حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں صہیونی ریاست کی تاریخی شکستوں کے بعد خطے میں نئے جنگی قواعد رائج ہوئے جس کے بعد صہیونی حکام نے بارہا اپنی طاقت کی فرسودگی اور دفاعی نظام کے ٹوٹن پھوٹن اور تسدیدی قوت (Power of Deterrence) کی شدید تھکن! کا اعتراف کرتے رہے ہیں۔ اسی اثناء میں لبنان اور فلسطین کی مقاومتی تنظیمیں اور فلسطینی مجاہدین بھی بہت زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں اور اس طاقت کی کچھ علامتیں “سیف القدس” نامی کاروائی میں نمایاں ہوئیں چنانچہ اس کاروائی نے اسرائیلی فوج کو مشکلات میں ڈال دیا۔ صہیونیوں کی بری فوج بالکل نکمی ہے اور اسے صرف فضائیہ کا سہارا حاصل ہے اور یہی مقاومت کے مجاہدین کے مقابلے میں صہیونی فوج کی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔
فوج اور حکومت پر صہیونیوں کا عدم اعتماد
حالیہ ماہ رمضان میں فلسطینی مجاہدین کی مسلسل کاروائیوں سے – پہلے سے کہیں زیادہ – ثابت ہؤا کہ صہیونی حکومت اور فوج قابل اعتماد نہیں ہے اور بیرونی دنیا سے آ کر فلسطین کے غصب میں شریک ہونے والوں نے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے لیکن غیر محفوظ رہنے کے اس احساس کے اسباب اور بھی بہت ہیں اور اس احساس کی عملداری بھی فلسطینی مجاہدین کی کاروائیوں کی حدود سے بہت زیادہ وسیع و عریض ہے۔ صورت حال آج یہ ہے کہ حالیہ رائے شماری کے مطابق 64 فیصد صہیونی فوج پر اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اور تو اور، صہیونی فوج کے افسر اور جوان بھی اپنی حکومت اور فوج پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں اور بےشمار فوجی یا تو فوج میں رہنا نہیں چاہتے یا پھر فوج سے مفرور ہیں۔
فلسطینیوں کی شہادت سے بے خوفی:
عارضی صہیونی ریاست کی جعلی تاسیس کے بعد کے پہلے تین عشروں میں فلسطینی ناصریت اور عربیت پرمبنی عرب قوم پرستی کا شکار تھے لیکن چونکہ قوم پرستی قائدین کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ فرسودگی کا شکار ہوجاتی ہے لہذا فلسطینی زعماء بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں تھے اور پھر ان کے پاس اچھی خاصی دولت اور خوشحال زندگی کے وسائل کی بھی کوئی کمی نہ تھی چنانچہ وہ بھی موت کے خوف سے دوچار اور جہاد کے میدان سے گریزاں ہو گئے تھے، جبکہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امریکی حمایت یافتہ شہنشاہیت پر اللہ پر توکل کرنے والے ایرانی مسلمانوں کی فتح اور اسلامی انقلاب کی بعد فلسطینی قوم بھی معمول کی غفلت سے جاگ اٹھی، اسلام کی طرف متوجہ ہوئی، جہاد کو ذریعۂ نجات سمجھا اور موت سے ڈرنا بھول گئی۔ یہاں تک کے سنہ 1980ع‍ کے عشرے کے بعد سے غاصب یہودیوں نے بار بار اس حققیت کی طرف اشارہ کیا کہ فلسطینیوں پر – جو کہ اب موت سے نہیں ڈرتے – غلبہ پانا مزید ممکن نہیں ہے۔ فلسطینی موت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اپنی بقاء اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں گوکہ قبلۂ اول پر یہودی غاصبوں کے حملے فلسطین سے باہر کم ہی مسلمانوں کے ٹَس سے مَس ہونے کا سبب بن رہے ہیں اور باقی موت ہلاکت خیز خاموشی سے دوچار ہیں۔ عربوں کی سازباز اور مسلمانوں کی بے حسی کے باوجود حالیہ مہینوں میں فلسطینی مجاہدین نے بئرالسبع، الخضیرہ، تل ابیب، بنی براک اور العاد کے علاقوں میں 18 صہیونیوں کو ہلاک کردیا چنانچہ صہیونی ٹی وی جرنلسٹ زفی یحزقیلی (Zvi Yehezkeli) نے کہا کہ فلسطینی نوجوان مزید اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں اور فوج سے نہیں ڈرتے۔ فلسطینیوں کی یہ بےخوفی اور سیکورٹی کاروائیوں کے سہارے قائم عارضی صہیونی ریاست کی فوج اور سیکورٹی اداروں کی عدم کارآمدگی بھی صہیونی ریاست کے قریبی زوال کی اہم علامتیں ہیں۔
اتحاد فلسطینیان:
ماضی میں صہیونی ریاست کی قوت اور صہیونی منصوبوں کے سامنے فلسطینیوں کی کمزوری اور شکست کا سبب ان کا باہمی انتشار و اختلاف تھا گوکہ عرب ممالک کے حکمرانوں کی خیانت اور سازبار کا کردار بھی کچھ کم نہیں تھا لیکن اس وقت جبکہ کچھ عرب ملکوں نے ذلت و حقارت کے ساتھ ساز باز کرکے – یہ سمجھ کر کہ صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی کرکے ان کی حکومتیں بھی محفوظ رہیں گی اور امریکی سرکار بھی ان سے راضي و خوشنود ہوگی اور یہ بھول کر کہ ڈوبتا ڈوبتے کا سہارا نہیں لیتا، – فلسطینی قوم کی پشت میں خیانت اور منافقت کا خنجر گھونپ دیا ہے – فلسطینی عوام، جماعتوں اور مقاومتی تنظیموں نے شاندار اتحاد و یکجہتی کا ثبوت پیش کیا ہے اور آج فلسطینی قوم مقاومت کے ترسیم کردہ قواعد کی روشنی میں غاصب صہیونیوں کے خلاف متحد ہیں اور وہ اب وہ فلسطین سے صہیونیوں کی مکمل بےدخلی کے سوا کسی چیز پر تیار نہیں ہیں: نہر سے بحر تک فلسطینی سرزمین کی آزادی اب ان کا متفقہ مقصد ہے۔
محور مقاومت کی طاقت میں اضافہ:
اور ہاں! مذکورہ بالا تمام اسباب اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن سب سے اہم کردار – جو صہیونی ریاست کے وجود کو ہی خطرے میں ڈالتا ہے – خطے کے مقاومتی محاذ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور وحدت ہے۔ اسلامی محاذ مزاحمت فلسطین کے اندر بھی اور فلسطین کے آس پاس کے ممالک میں بھی ایک ناقابل انکار طاقت میں تبدیل ہو چکا ہے اور صہیونی ماہرین اور دانشوروں کے حلقے نیز صہیونی حکام بارہا اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ مقاومت کے ساتھ اسرائیل کی اگلی جنگ اس جعلی ریاست کے وجود کو مکمل طور پر مٹا سکتی ہے۔