عرب حکمرانوں کی غزہ جنگ کے دوران فلسطینی عوام سے غداری بے نقاب

عرب ممالک اب بھی فلسطین کے مسئلے کے دفاع کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر صیہونیوں کے اعتراف کے مطابق، انہوں نے غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو خورد و نوش کی اشیاء سے لے کر اسلحہ تک فراہم کیا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: عرب ممالک اب بھی فلسطین کے مسئلے کے دفاع کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر صیہونیوں کے اعتراف کے مطابق، انہوں نے غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کو خورد و نوش کی اشیاء سے لے کر اسلحہ تک فراہم کیا۔

فارس نیوز ایجنسی کی اقتصادی رپورٹنگ ٹیم؛ “عرب ممالک نے فلسطینیوں کی تباہی کے لیے ہمیں اسلحہ فراہم کیا، اور ان کے 10 بلین ڈالر کے تجارتی لین دین نے اسرائیلی معیشت کو بچا لیا۔” یہ الفاظ ایک صیہونی محقق کے ہیں۔

حالیہ عرصے میں، قابض اسرائیلی ریاست نے اپنی میڈیا مشینری کے ذرہعہ خاص طور پر عربی زبان میں، عرب ممالک جیسے کہ مصر، اردن، امارات، بحرین، اور مراکش کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے فوائد کی تشہیر کی ہے، تاکہ دیگر عرب ممالک کے عوام کو، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے مخالف ہیں، قائل کیا جا سکے کہ یہ معاہدہ ان کے لیے اقتصادی اور سیکیورٹی فوائد کا حامل ہوگا۔

غزہ جنگ کے دوران بعض عرب ممالک نے واشنگٹن کے حکم پر اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا

غزہ جنگ کے دوران، کچھ عرب ممالک، خواہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کر چکے ہوں یا نہ ہوں، واشنگٹن کے حکم پر اور اپنی سرزمین پر موجود امریکی فوجی اڈوں کے ذریعے صیہونی ریاست کو اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم کر رہے تھے۔ ان عرب حکومتوں نے قابض صیہونی فوجیوں کے لیے خوردو نوش کی اشیاء اور مشروبات بھی مہیا کیے، جس نے ان ممالک کے عوام میں شدید غم و غصے اور ناراضگی کو جنم دیا۔

عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تجارتی لین دین 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اثرات تجارتی میدان میں واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔ 2020 میں امن معاہدوں کے بعد، عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ان اعداد و شمار میں سیاحت اور خدمات کا شعبہ شامل نہیں ہے، تاہم سال 2024 کے پہلے سات مہینوں میں، اسرائیل کی کئی عرب ممالک کے ساتھ تجارت 2021 کی اسی مدت کے مقابلے میں تین گنا بڑھ چکی تھی۔

اسرائیل کے حالیہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2019 سے ابراہیم معاہدے میں شامل عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تجارت، سیاحت، سائبر سیکیورٹی، بنیادی ڈھانچے اور معیشت کے شعبوں میں 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔

یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عرب ممالک کئی دہائیوں تک اسرائیل کو ایک دشمن ریاست قرار دیتے رہے اور سعودی عرب کے سابق بادشاہ، شاہ عبداللہ کے اس اقدام کی حمایت کرتے رہے، جس کے تحت فلسطین کے مسئلے کا جامع اور منصفانہ حل نکلنے تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی تمام شکلوں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ یہ تجویز 2002 میں بیروت میں ہونے والے عرب سربراہی اجلاس میں عرب-اسرائیل تنازع کے حل کی بنیاد کے طور پر پیش کی گئی تھی۔

عرب ممالک کی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط اور بعض ممالک کی علیحدگی

اس منصوبے کے تحت، عرب ممالک نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا انحصار اس کے 1967 میں قبضہ کیے گئے تمام مقبوضہ علاقوں سے مکمل انخلا، مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے اور فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کا منصفانہ حل نکالنے پر ہے۔

تاہم، متحدہ عرب امارات نے اس عربی اتفاقِ رائے سے علیحدگی اختیار کر لی، اور اس کے بعد بحرین، سوڈان اور مراکش نے بھی 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس میں ابراہیم معاہدے پر دستخط کر کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے مرحلے میں داخل ہو گئے۔

جنگ کے دوران عرب ممالک اور اسرائیل کی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ

اسرائیلی مرکزی ادارہ برائے شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق، جنگ کے مہینوں کے دوران، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے عرب ممالک کی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا، اور اسرائیل کے ساتھ تجارتی حجم 4 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ بعض ممالک نے تو اپنی جنگ سے پہلے کی تجارت کے مقابلے میں اسے دوگنا کر دیا۔

عرب ممالک کی اسرائیل کو برآمدات سے متعلق ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے جنگ کے دوران عرب ممالک کی اسرائیل کو کی جانے والی کل برآمدات میں سے 81.4 فیصد کا حصہ اپنے نام کیا، جس کے بعد مصر، اردن، مراکش اور بحرین کا نمبر آتا ہے۔

مزید یہ کہ، ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے دوران مصر اور اسرائیل کے درمیان تجارتی حجم پچھلی ایک دہائی میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

اسرائیل اور مصر کے درمیان تجارتی تعلقات میں مضبوطی، سالانہ تجارت 700 ملین ڈالر تک پہنچنے کی امید

اسرائیلی وزارتِ معیشت نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اور مصر اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کی راہ پر گامزن ہیں اور امید ہے کہ 2025 کے اختتام تک دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارتی حجم 700 ملین ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔

اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق، ایک نئے منصوبے کے تحت، جسے اسرائیل اور مصر نے مشترکہ طور پر تجویز کیا ہے، دونوں ممالک نیتسانا سرحدی گزرگاہ کو ترقی دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ گزرگاہ مصر کے سینا میں العوجه اور جنوبی اسرائیل میں نیتسانا گاؤں کے درمیان ایک بین الاقوامی سرحدی راستہ ہے۔

یہ منصوبہ اس گزرگاہ کو ایک علاقائی لاجسٹک مرکز اور سبز توانائی کے شعبے میں مشترکہ صنعتی علاقہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس کے تحت مصر اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست پروازوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے تحت، اسرائیل مصر سے خوراک، تازہ مچھلی اور تعمیراتی مواد کی درآمد میں اضافہ کرے گا جبکہ اپنی زرعی ٹیکنالوجیز اور دیگر وسائل برآمد کرے گا۔

اسرائیلی وزارتِ معیشت کے مطابق، “2025 تک، مصر اور اسرائیل کی سالانہ تجارت (سیاحت اور اسرائیلی گیس کی برآمدات کے علاوہ) تقریباً 700 ملین ڈالر تک پہنچ جائے گی، جو 2021 کے مقابلے میں 400 ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔”

اسرائیل اور مصر کے درمیان تجارتی تعلقات میں نمایاں اضافہ

اسرائیلی وزارتِ تجارت و صنعت کی رپورٹ کے مطابق، 2021 میں مصر اور اسرائیل کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 330 ملین ڈالر تک پہنچ گیا تھا، جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 63 فیصد زیادہ تھا۔

اسرائیل نے مصر کے ساتھ ایک “تاریخی معاہدہ” بھی کیا ہے، جس کی مالیت 15 ارب ڈالر ہے۔ اس معاہدے کے تحت، مصر اسرائیل کے سمندری حدود میں واقع تامار اور لیویاتان گیس فیلڈز سے 85 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس حاصل کرے گا۔

اسرائیل کی عرب ممالک کو دفاعی مصنوعات کی برآمدات میں نمایاں اضافہ

قابض صیہونی حکومت کی وزارتِ دفاع کی سرکاری رپورٹ کے مطابق، 2021 میں ان عرب ممالک کو، جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے، اسرائیلی دفاعی مصنوعات کی برآمدات کی مالیت 800 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی۔

اس وزارت نے ایک سرکاری بیان اور عبرانی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس میں اعلان کیا کہ “اسرائیل کی مجموعی برآمدات کا 7 فیصد، یعنی 791 ملین ڈالر، ان عرب ممالک کو برآمد کیا گیا جو ابراہیم معاہدے کے دستخط کنندہ ہیں۔”

اسرائیل اور مراکش کے درمیان تجارتی تعلقات میں تبدیلی

اسرائیلی مرکزی شماریاتی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق، 2021 میں اسرائیل سے مراکش کو برآمدات 2020 کے مقابلے میں 214 فیصد بڑھ کر 12 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ تاہم، مراکش سے اسرائیل کو کی جانے والی برآمدات 2021 میں 57 ملین ڈالر رہیں، جو کہ 2020 کے 67 ملین ڈالر کے مقابلے میں 15 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔

عرب ممالک کی خیانت پر صیہونیوں کی خوشی

اسرائیلی محقق عنات مروم نے عبرانی اخبار معاریو میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا کہ ابراہیم معاہدے کے چار سال گزر جانے اور غزہ پر جاری اسرائیلی جنگ کے باوجود، یہ معاہدے منسوخ ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنگ اور ایران سے خوف نے ان عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ اپنے سیکیورٹی، اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے تعلقات مزید مستحکم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے مطابق، متحدہ عرب امارات اور بحرین وہ واحد عرب ممالک تھے جنہوں نے اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کی مذمت کی۔

اسرائیلی محقق نے مزید کہا کہ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات ایسے وقت میں مستحکم ہو رہے ہیں جب اسرائیل دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر بائیکاٹ اور پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، اور یہ اسرائیل کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: “اگرچہ اسرائیل کے اندر سے ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ عادی سازی اسرائیل کے حق میں نہیں رہی، اور تل ابیب ابراہیم معاہدے کے وقت دیے گئے وعدوں کے مطابق مزید ممالک کو اس میں شامل کرنے میں ناکام رہا، لیکن عرب حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات حیران کن ہیں۔”