عید غدیر پیغام اور تقاضے

عید غدیر کا جو حقیقی پیغام تھا یعنی کہ اپنے امام سے عہد کرنا، ولایت کو دل سے نہ صرف قبول کرنا بلکہ اس کو زندہ کرنا تھا۔ اس کا مبلغ بننا تھا۔ لیکن افسوس ہم نے غدیر کو زیادہ تر نعرے بازی، لذیذ کھانوں، نئے لباس تک محدود کیا ۔بلکہ اب تو یہ چیزیں بھی دن بہ دن متروک ہوتی جارہی ہے۔ جن لوگوں نے ولایت کی نعمت کی قدر کی وہ آج بھی سر بلند ہے ۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: واقعہ غدیر کوئی حادثاتی یا نیا واقع نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ تکمیل دین کا ایک منفرد واقعہ ہے جس کے ساتھ مسلمانان عالم نے رحلت رسول (ص) کے بعد بہت نا انصافی کی۔ اسلام کی بنیاد اگرچہ دعوت ذولعشیرہ ہے تو اس کی انتہا دعوت غدیر ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس عظیم واقعے پر بیشمار تحقیق کی گئی ۔ علمائے اہل تسنن اور علمائے اہل تشیع نے ہر دور اور ہر زمانے میں اس واقعے کو روشناس کیا ہے اور انشا اللہ کرتے رہے گے۔ چونکہ آپ تاریخی اعتبار سے اس عظیم واقعہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔ لہذا اس مضمون میں میرا مقصد واقعہ غدیر کو پیش کرنا یا اس کی حقانیت بیان کرنا نہیں ۔ بلکہ ایک عام انسان کے لئے اس واقعہ میں چھپے پیغام کو پہنچاننے کی کوشش کرنا ہے۔ رسول اللہ (ص) جب اپنے پہلے اور آخری حج سے تشریف لا رہے تھے تو پرودگار عالم کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔ ’’اے رسول جو پیغام میں نے آپ کو پہنچایا اس کو لوگوں تک پہنچائے ۔آپ ڈرے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کو کافروں کے شر سے نجات دے گا‘‘ یہ ایک آیت جو واقعہ غدیر سے پہلے نازل ہوئی۔ دوسری آیت جو پیغام پہنچانے کے بعد نازل ہوئی ’’الیوم اکملت لکیم دینکم۔۔۔ ‘‘ یعنی کہ آج ہم نے دین اسلام کو مکمل کیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردی اور یقیناً کافر مایوس ہوگئے‘‘۔
اس آیت میں دو پیغام ہے ایک نعمات کی تکمیل اور دوم کفار کی ناکامی۔ اگر ہم نعمت الہی کی طرف غور کرے تو بیشمار نعمتیں اللہ تعالی ٰ نے ہم کو عطا کی ہیں جن کا شمار ہمارے بس کی بات نہیں ۔ مثلاً خود انسان اس کی ساخت، آنکھیں، کان، ناک، ہوا، پانی، مٹی وغیرہ جو کہ ایک انسان کے لئے انتہائی اہم ہے۔ لیکن یہ سبھی نعمتیں انسان کے کمال و عروج کے لئے کافی نہیں۔ کیونکہ انسان ایک دو طرفہ پہلو ہے ملکوتی اور مادی۔ یہ سب نعمتیں تو مادی ضروریات پوری کرسکتی ہیں لیکن ملکو تی ضروریات نہیں۔ پس انسان کی ساخت پر اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالی نے اس نظام مدافعت میں دل کو جسم کا سردار و حاکم قرار دیا ہے۔ یعنی کہ جسم کے تمام اعضا اسی پر منحصر ہے۔ اس کی ایک ایک دھڑکن انسان کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔ اگر خدانخواستہ دھڑکن بن ہو جائے تو پورا جسم مردہ اور بے قیمت ہو جاتا ہے۔ غرض کہ انسان کی مادی بقا کا راز اسی دل میں پوشیدہ ہے جس کو اللہ کے سو اے کوئی نہیں جانتا۔ انسان کا دوسرا پہلو یعنی معنوی یا ملکو تی پہلو بالکل اس کے برعکس ہے۔ یہی پہلو انسان کی اصل ہے ۔ ایک عظیم نعمت ہے جس کو اللہ تعالی نے حیات ابدی سے نوازا ہے۔ انسان کی تمام مادی نعمتیں ایک طرف اور یہ ملکو تی نعمت ایک طرف۔ انسان جب انسانیت کے گوہر سے درندہ بن چکا تھا۔ اس درندے میں ملکو تی جوہر بکھیرنے کے لئے پیغمبر اکرم کو مبعوث رسالت کیا۔ یہاں تک ہمارے پیارے نبی کو اتنی اذیتیں دی گئی کہ جن کا شمار ممکن ہی نہیں۔ لیکن اپنے حسن اخلاق اور علم و حلم کی بنیاد پر رسول اکرم نے نہ صرف دوستوں بلکہ اپنے دشمنو ں اور ان انسانیت سے عاری افراد کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا۔ جو کہ ایک ایک بات پہ سالوں سال لڑتے جھگڑتے تھے۔ لیکن بشریت اور ملوکیت سے بھرے اس عظیم انسان نے اپنے تعلیمات کی ذریعہ ان کے قلوب بدل ڈالے۔ یہاں تک کہ جو لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہ ایک دوسرے پہ جا نثاری کرنے لگے۔ اور یوں بنیاد پڑی ایک معاشرے کی جو کہ ایمان کی دولت سے مالا مال تھے جس کے سردار و حاکم رسول اللہ قرار پائے۔ غرض پیغمبر اکرم (ص) ہمارے لئے ایک عظیم نعمت ہے۔ انہوں نے انسان کو انسانی خوبیوں کا مظہر بنایا ۔دوسری طرف رسول اللہ کو پتہ تھا کہ میری امت میں ایک ہادی و رہبر کا ہونا بہت ضروری ہے وگرنہ عوام منتشر ہو جائے گی۔ لہذا فرمان خدا کے مطابق اپنے آخری حج میں واپسی کے دوران انہوں نے غدیر خم میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمعے سے خطاب کیا۔ جس سے خطبہ حجتہ الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس میں علی ؑ کے امیر ہونے کا اعلان کیا اور فرمایا’’جس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی ؑ بھی مولا ہے‘‘۔ لوگوں نے بڑھ چڑھ کے مبارک بادی پیش کی لیکن منافقین اور کفار دونوں مایوس ہوگئے۔ اعلان ولایت سنتے ہی ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ رسول اللہ کو جس بات کا اندیشہ ہوا تھا آخر وہی ہوا۔ رسول اللہ کی رحلت کے بعد لوگوں نے ان کی تجہیز و تدفین کے بجائے حکومت بنانا مناسب سمجھی۔ اور یوں علی ؑ کو ان کے حق سے محروم کیا گیا اور رسول اللہ نے ۲۳ سالوں میں جو دین کی بقا اور آبیاری کے لئے محنت کی تھی اس کو عوام نے پس پشست ڈال دیا۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ اور ان کے چند ساتھیوں نے حکومت میں شمولیت کے بجائے اپنے آقا و سرادر ، رحمت العالمین کی تجہیز و تدفین کی۔ پس اس طرح امت کی اکثریت نے مادی آرزؤں کی خاطر ملکوتی پیغام اور ولایت علی ؑ سے منہ موڑ لیا۔ وہی دوسری طرف اقلیت نے ولایت علیؑ کو دل و جان سے تو قبول کیا ۔لیکن یہ نعرے اب رسوماتی بن گئے۔ عید غدیر کا جو حقیقی پیغام تھا یعنی کہ اپنے امام سے عہد کرنا، ولایت کو دل سے نہ صرف قبول کرنا بلکہ اس کو زندہ کرنا تھا۔ اس کا مبلغ بننا تھا۔ لیکن افسوس ہم نے غدیر کو زیادہ تر نعرے بازی، لذیذ کھانوں، نئے لباس تک محدود کیا ۔بلکہ اب تو یہ چیزیں بھی دن بہ دن متروک ہوتی جارہی ہے۔ جن لوگوں نے ولایت کی نعمت کی قدر کی وہ آج بھی سر بلند ہے ۔ اور فخر سے اپنا سر اونچا کر کے دشمنوں کی آنکھ میں آنکھ ملا کے بات کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عید غدیر کے حقیقی پیغام کو سمجھنے، درک کرنے اور ہمیں ولایت کے نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔