فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بائیڈن اس وقت غزہ میں جنگ بندی میں اپنے کردار کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جب کہ بہت سے ناقدین ان کی حکومت کی پالیسیوں کو تناؤ میں اضافے کا باعث اور امریکہ کی اسرائیل کو مالی اور عسکری حمایت کو غزہ میں جرائم کا سبب سمجھتے ہیں۔
نیوز ایجنسی فارس: “جو بائیڈن” نے اپنی صدارت کے آخری دن اور جنگ بندی کے آغاز کے ساتھ ہی اسیروں کے تبادلے کے عمل کے دوران غزہ میں جنگ بندی کے قیام، علاقے کے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر، اور امدادی ٹرکوں کے غزہ میں داخلے کی توقعات پر غور طلب بیانات دیے۔ بائیڈن نے جنگ بندی کے قیام میں اپنے کردار کے بارے میں وضاحت کی حالانکہ اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے بعد انہوں نے بارہا جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ لیکن اب وہ غزہ میں امدادی ٹرکوں کے داخلے پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے، جبکہ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران وہ ڈالرز، ہتھیاروں اور بموں کے ذریعے اسرائیل کو معاونت فراہم کرتے رہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 50 ہزار بے گناہ بچے، خواتین اور مرد غزہ میں خاک و خون میں غلطاں کردیے گئے۔
کلنک کو صاف کرنے کی کوششیں
بہت سے ناقدین گزشتہ چار سالوں میں بائیڈن حکومت کی پالیسیوں کو خطے میں تناؤ اور عدم استحکام میں اضافے کا سبب سمجھتے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بھی بائیڈن حکومت کا غزہ میں عوام کے خلاف جرائم کا سیاہ ریکارڈ موجود ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو مالی اور عسکری حمایت فراہم کرکے جنگ کی قیادت میں بنیادی کردار ادا کیا۔ بائیڈن اپنی صدارت کے آخری دن مشرق وسطی اور غزہ میں ایک غیر معمولی موقع کی بات کر رہے ہیں، جب کہ ان کی صدارت کے دوران مشرق وسطی میں وسیع پیمانے پر تناؤ اور جھگڑے دیکھے گئے۔ بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں امریکہ کے اقدامات نے بحرانوں میں اضافہ کیا ہے، نہ کہ بہتر مستقبل کی تعمیر کی ہے۔ اگرچہ غزہ میں جنگ بندی ایک مثبت قدم شمار کیا جاتا ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ اقدامات بائیڈن کی صدارت کے دوران کیوں نہیں کیے گئے؟ اس سوال کا جواب پہلے ہی بہت سے تجزیہ کار دے چکے ہیں، یہ تجزیہ کار جو بائیڈن کے جنگ بندی کے ساتھ ساتھ مذاکرات کے دوران رویے کو امریکہ کی تصویر بہتر بنانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
بائیڈن کی متضاد باتیں
جنگ بندی کے بعد بائیڈن کا یہ دعویٰ کہ سینکڑوں امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں، اس حقیقت کے برخلاف ہے کہ وہ کئی بار غزہ میں انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ بنے اور حتیٰ کہ جنگ بندی کو روکنے کے لیے اپنے ویٹو کے حق کا استعمال کیا۔ دوسری جانب ماہرین کا ماننا ہے کہ بائیڈن کا لبنان، فلسطین اور شام میں مواقع کی فراہمی کا دعویٰ اس وقت قابل یقین ہوگا جب امریکہ کی ان ممالک میں قابضانہ حمایت اور براہ راست مداخلت کی پالیسیوں کا خاتمہ ہوگا، ورنہ یہ صرف ایک نعرہ ہوگا۔
بائیڈن کا مضحکہ خیز دعویٰ
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ بندی میں امریکی سفارت کاری کے کردار کے بارے میں بائیڈن کا دعویٰ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ تاہم، اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا امریکہ واقعی پائیدار امن کا خواہاں ہے یا خطے میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب امریکی پالیسیوں کے پیش نظر بالکل واضح ہے۔ بائیڈن کے صدارت کے آخری دن کے بیانات زیادہ تر مشرق وسطی میں اپنی شبیہہ کو بہتر بنانے کی کوشش کے مترادف ہیں، اور مستقبل یہ ظاہر کرے گا کہ آیا یہ جنگ بندی اور اعلانات پائیدار امن کے لیے بنیاد بنیں گے یا محض ایک سیاسی مظاہرہ ثابت ہونگے ۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں