غزہ میں شکست پر اسرائیلی حکام کے ردعمل کے طور پر استعفوں کا سلسلہ

جب کہ اسرائیلی حکومت پر جوابدہ ہونے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، سینئر فوجی حکام کے استعفوں نے بنجمن نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر دباؤ کو دگنا کر دیا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جب کہ اسرائیلی حکومت پر جوابدہ ہونے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، سینئر فوجی حکام کے استعفوں نے بنجمن نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر دباؤ کو دگنا کر دیا ہے۔
فارس نیوز ایجنسی سیاسی گروپ: اسرائیل میں سیاسی اور فوجی بحران ہر روز نئی جہتیں اختیار کر رہا ہے۔ اعلیٰ فوجی سطح پر پے در پے استعفے فلسطینی مزاحمت کے خلاف بھاری شکست کے اعتراف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آپریشن الاقصیٰ طوفان کے بعد، جس کے نتیجے میں 1,200 سے زیادہ صیہونی ہلاک ہوئے، اور غزہ جنگ میں اسرائیل نے ناکامی کا منہ دیکھ کر بالآخر جنگ بندی قبول کی، جس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی حکام یکے بعد دیگرے مستعفی ہو رہے ہیں۔
غزہ میں بھاری شکست؛ استعفوں کی بڑی وجہ
غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی نہ صرف اپنے اعلان کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی بلکہ صیہونیوں کو بھاری قیمت اور ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا۔ یہ بڑی شکست فوج کے جنوبی ڈویژن کے کمانڈر انچیف یارون فنکل مین اور اسرائیلی فوج کی چیف آف اسٹاف ہرزی ہلوی جیسے کمانڈروں کے استعفیٰ کی بنیادی وجہ ہے۔
دونوں عہدیداروں نے اس بات پر زور دیا کہ 7 اکتوبر کو سکیورٹی کی ناکامیاں اور غزہ جنگ کے مقاصد کے حصول میں ناکامی اس فیصلے کے اہم عوامل تھے۔


ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کی وجہ سے استعفیٰ
اسرائیلی فوج کی چیف آف سٹاف ہرزی ہلوی نے اعلان کیا کہ وہ 7 اکتوبر کی سکیورٹی کی ناکامی کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد 6 مارچ 2025 کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ انھوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ انھوں نے حماس کے حملے میں فوج کی شکست کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہ سرکاری اعتراف اس گہرے بحران کی عکاسی کرتا ہے جس نے اسرائیلی فوج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔


غزہ میں فوجی آپریشن کے انچارج یارون فنکل مین نے بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ فنکل مین ان کارروائیوں کی ہدایت کے لیے براہ راست ذمہ دار تھا، جو بہت سے لوگوں کا خیال ہے، نہ صرف اپنے بیان کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے، بلکہ فلسطینی مزاحمت کو اسرائیلی جنگی مشین پر فتح کی علامت میں بھی بدل دیا۔ ان کا استعفیٰ مزاحمت کے خلاف اسرائیلی فوج کی بھاری شکست کا مزید ثبوت ہے۔


شن بیٹ کے سربراہ رونن بار نے بھی قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ مکمل ہونے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ان استعفوں نے اسرائیل کے سیکورٹی اور عسکری اداروں میں بحرانوں کا ایک سلسلہ پیدا کر دیا ہے۔ 7 اکتوبر کو فوج کی جانب سے سیکیورٹی میں ناکامیوں کا اعتراف، اور نیتن یاہو کی ناکامیوں کی ذمہ داری عسکری اداروں پر ڈالنے کی کوشش نے اسرائیلی حکومت کے اندرونی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔


اسرائیلی وزیر خزانہ Bezalel Smotrich نے بھی کہا کہ اگر غزہ کے خلاف جنگ دوبارہ شروع نہ کی گئی اور حماس اقتدار میں رہی تو وہ حکومت سے نہ صرف مستعفیٰ ہوں گے بلکہ اسے تحلیل کرنے کی کوشش کریں گے۔


اسرائیل کے چینل 12 ٹی وی نے بھی حال ہی میں یہ اطلاع دی ہے کہ اسرائیل کے داخلی سلامتی کے وزیر Itamar Ben-Giver اور کابینہ میں شامل ان کی جماعت کے وزراء نے حماس کے ساتھ معاہدے کی مخالفت میں اپنے استعفے پیش کر دیے ہیں۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق اسرائیلی فوج میں سدرن ڈویژن کے کمانڈر یارون فنکل مین اور چیف آف جنرل سٹاف ہرزی ہلوی سمیت استعفوں کا سلسلہ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کے خلاف بھاری شکست کا واضح اعتراف ہے۔
نیتن یاہو اور اسرائیلی حکومت پر بڑھتا ہوا دباؤ
اسرائیلی حکومت کی جانب سے جوابدہی کے لیے ملکی اور بین الاقوامی دباؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سینیئر فوجی حکام کے استعفوں نے بنجمن نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر دباؤ دوگنا کر دیا ہے، ہلوی کے استعفے کے ردعمل میں، اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نیتن یاہو اور ان کی حکومت ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کریں اور عہدہ چھوڑ دیں۔


مزاحمت کے سامنے شکست؛ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کا خاتمہ
اسرائیل کبھی آپریشن الاقصیٰ طوفان کو مزاحمت کی ایک بڑی شکست سمجھتا تھا لیکن آج سب پر واضح ہو گیا ہے کہ اس آپریشن نے صیہونی حکومت کی سلامتی اور فوجی ڈھانچے کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ غزہ جنگ کے اہداف کے حصول میں ناکامی خطے میں طاقت کی مساوات کو بدلنے کا ایک اہم موڑ بن گئی ہے۔
صیہونی حکومت کے سیکورٹی اور سیاسی ڈھانچے میں گہرا بحران
سینئر اسرائیلی حکام کے پے در پے استعفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کی بھاری قیمت اور فلسطینی مزاحمت کا مقابلہ کرنے میں ناکامی نے صیہونی حکومت کی سلامتی اور سیاسی ڈھانچے میں گہرا بحران پیدا کر دیا ہے۔ یہ استعفے فلسطینی مزاحمت کے سامنے اسرائیل کی پے در پے شکستوں کی واضح علامت ہیں۔