غزہ کی پٹی میں عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ
فاران: صیہونی حکومت کے وزیر جنگ نے اعلان کیا کہ اس نے غزہ کی پٹی کی مکمل ناکہ بندی کا حکم جاری کر دیا ہے۔ صیہونی حکومت اور فلسطینی مجاہدین کے درمیان نئی جنگ گذشتہ ہفتے کے روز شروع ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ جنگ تحریک حماس کے جنگجوؤں نے شروع کی تھی، یہاں تک کہ بعض صیہونیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کی سخت پالیسیاں اور جرائم حماس کے جنگ میں جانے کے فیصلے کی وجہ تھے۔حماس کے رہنماوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ان کا یہ اقدام صیہونی حکومت کے جرائم، خاص طور پر قیدیوں اور مسجد اقصیٰ کے خلاف ان کی ہرزہ سرائی کے خلاف مشروع دفاع تھا۔ حماس کے حملوں سے مایوس اور حیران صیہونی حکومت غزہ کی پٹی پر شدید حملے کر رہی ہے۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا کہ ہم نے غزہ کی پٹی پر ایک ہزار ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد گرایا ہے۔
الاقصیٰ طوفان کی شکست کا بدلہ عام فلسطینی شہریوں اور بچوں سے
غزہ کی پٹی میں فلسطینی وزارت صحت کے اعلان کے مطابق غزہ پر صہیونی حملوں اور بمباری میں 91 بچوں اور 61 خواتین سمیت 496 فلسطینی شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ 244 بچوں اور 151 خواتین سمیت 2751 فلسطینی زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور نے بھی اطلاع دی ہے کہ غزہ کی پٹی کے 123,538 فلسطینی رہائشی بمباری کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ صیہونی حکومت جان بوجھ کر غزہ کے لوگوں کی پناہ گاہوں اور کیمپوں پر بمباری کر رہی ہے۔ اس کے باوجود صیہونی حکومت کے وزیر جنگ یوف گیلنٹ نے غزہ کی پٹی کی مکمل ناکہ بندی کے اپنے حکم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حکم کے مطابق اس علاقے میں پانی، بجلی یا ایندھن داخل نہیں ہونا چاہیئے۔
صیہونی حکومت کے وزیر جنگ کا غزہ کی مکمل ناکہ بندی کا حکم
اسرائیل کے وزیر جنگ کا یہ حکم کئی اہم نکات پر مشتمل ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ تل ابیب اپنی تاریخ کی سب سے حیرت انگیز اور سب سے بڑی فوجی شکست کا جبران خواتین اور بچوں سمیت غزہ کے عام شہریوں کو قتل کرکے پورا کرے گا۔ یہ صیہونی حکومت کی ایک اور مایوسی اور ناکامی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت اس تاریخی شکست کے عظیم درد کا مداوا غزہ میں عام شہریوں کا قتل عام کرکے کرنا چاہتی ہے، لیکن بلا شبہ ایسی کارروائیوں سے یہ درد کم نہیں ہوگا، کیونکہ طوفان الاقصیٰ سے صیہونی حکومت کی فوجی ساکھ تباہ ہوگئی ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین نے صیہونی حکومت کے ٹھکانوں کے خلاف فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی کارروائیوں کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے اچانک حملے کو صدیوں تک انٹیلی جنس کی ناکامی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ 365 مربع کلومیٹر کے چھوٹے سے رقبے کے ساتھ غزہ 16 سال سے مکمل محاصرے میں ہے اور یوں یہ علاقہ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل ہوچکا ہے، لیکن اس نے صیہونی جرائم کے آگے سر نہیں جھکایا اور گذشتہ ہفتے اس چھوٹے سے علاقے نے محدود سہولیات کے ساتھ صیہونی حکومت پر تاریخ کی سب سے بڑی شکست مسلط کر دی ہے۔ صیہونیوں کی جانب سے محاصرہ اور قتل و غارت غزہ کی ساکنین کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا باعث نہیں بنے گی بلکہ وہ صہیونیوں پر آج یا مستقبل میں ایک اور شکست مسلط کر دینگے۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ وہ ممالک جو گذشتہ ہفتہ سے صیہونی حکومت کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، انہیں غزہ میں عام شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کا قتل نظر نہیں آتا یا شاید وہ دیکھتے ہیں لیکن ان کے انسانی حقوق کی تعریف میں اس قتل کی کوئی جگہ نہیں۔ بلاشبہ اگر مغربی دعویدار طاقتیں صیہونی حکومت کے فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کو دیکھتی اور صیہونی حکومت کے ان جرائم کے خلاف احتیاطی اقدامات کرتیں تو شاید ایسی جنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔
تبصرہ کریں