فقدان شعور اور ہماری مشکلات
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جہاں پر بھی فکر و شعور کا فقدان ہوگا وہاں جہالت کا دور دورہ نظر آئے گا ، ہر طرف اونٹ پٹانگ باتیں ہوگیں، کھوکھلے نعرے ہوں گے بے جا تعریفوں کے پل ہوں گے ، چاپلوسی و مکاری ہوگی ہر حالت میں اپنا کام نکالنے کی ہوڑ ہوگی غیر ذمہ دارنہ […]
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جہاں پر بھی فکر و شعور کا فقدان ہوگا وہاں جہالت کا دور دورہ نظر آئے گا ، ہر طرف اونٹ پٹانگ باتیں ہوگیں، کھوکھلے نعرے ہوں گے بے جا تعریفوں کے پل ہوں گے ، چاپلوسی و مکاری ہوگی ہر حالت میں اپنا کام نکالنے کی ہوڑ ہوگی غیر ذمہ دارنہ طرز ہوگا لیکن جہاں بھی شعور و فکرو نظر کی کارفرمائی ہوگی وہاں حالات بالکل مختلف ہوں گے ، ہر جگہ زبان نہیں کھلے گی ، ہر مقام پر انسان اپنی رائے دیتا نظر نہیں آئے گا ہر منزل پر ہر کس و ناکس کے قصیدے گاتا نظر نہیں آئے گا غیر ذمہ دارانہ طرز کا رواج نہیں ہوگا اس لئے کہ فکر و شعور انسان کو ذمہ دار بناتی ہے اگر ہمارے وجود میں احساس ذمہ داری پیدا ہو جائے تو بہت سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے اس لئے کہ ہمارے مذہبی تعلیمات کے اندر ایسا بہت کچھ ہے جس سے ہم برے سے برے حالات سے خود کو نکال سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ہمیں پتہ ہو ہمیں کرنا کیا ہے ؟ انسانوں کی طرح جینا ہے یا جانوروں کی طرح ؟
ہمارا مذہبی تشخص ہماری اسلامی شناخت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ اپنے آپ کو غفلت سے نکالیں اور ایک ذمہ دارانہ طرز اختیار کرتے ہوئے دیکھیں کہ معاشرہ کی ضرورت کیا ہے سماج میں کس بدلاو کی ضرورت ہے ہم اس کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
یہ دنیا ہی سب کچھ نہیں ہے اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے بلکہ حقیقی زندگی کا آغا زہی آخرت سے ہے تو کیا یہ صحیح ہوگا کہ ہم اسی دنیا تک اپنے آپ کو محدود کر لیں؟ اس دنیا میں سکر کر وہی لوگ رہ جاتے ہیں جن کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہوتی انکی نظر دنیا کے سلسلہ سے عمیق نہیں ہوتی وہ دنیا کو سطحی نظر سے دیکھتے ہیں قرآن کریم نے ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کے ظاہر کو ہی زندگی سمجھتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں [1]۔
اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ لوگ وہ ہیں جو خود فراموشی کے مرض میں مبتلا ہیں انہوں نے حقیقی حیات کو فراموش کر دیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو عالم انسانیت سے خارج ہیں یہ دیکھنے میں انسان ہیں لیکن ان کے یہاں انسانوں والی کوئی بات نہیں ہے اگر انکے یہاں انسانیت ہوتی تو انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرتے ملک کو لیکر قوم کو لیکر معاشرہ کو لیکر بے تفاوت و لا تعلق نہ ہوتے صرف اپنے بارے میں نہ سوچتے خود میں مگن نہ رہتے اللہ نے انہیں عقل دی انہیں شعور سے نوازا ؟ لیکن انہوں نے اپنی ساری عقل اپنی ساری فکر کو کنارے ڈال دیا حیوانوں کی طرح حصول لذت میں جٹ گئے اور دائرہ انسانیت سے خارج ہو گئے امام علی علیہ السلام نے بہت خوبصورت اشارہ کیا ہے ’’ ایک صاحب عقل انسان کے لئے قبیح ہے کہ وہ حیوان ہو جبکہ وہ انسان بن کر جی سکتا ہے[2] ‘‘۔
قرآن کریم ایسے لوگوں کو مخاطب کرنے کے لائق ہی نہیں سمجھتا اور اپنے حبیب سے بھی مطالبہ کرتا ہے ان لوگوں کو انہیں کے حال پر چھوڑ دیا جائے[3] انہیں دنیا میں غرق چھوڑ دینا قرآن کا مطمع نظر نہیں ہے لیکن یہ اتنا آگے جا چکے ہیں کہ اب انکے اندر احساس ذمہ داری کو جگایا نہیں جا سکتا لہذا کہا گیا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر ان لوگوں کی طرف آپ متوجہ ہوں جو بیدار دل ہیں و بیدار ضمیر لوگ ہیں آج یہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کر رہے ہیں اور دنیا میں غرق ہیں لیکن کل نہ صرف ان سے سوال کیا جائےگا [4]بلکہ اللہ کی جانب سے دی گئی ہر نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا یہاں تک کہ ان کے کانوں، ان کی آنکھوں، ان کے دل سبھی سے سوال ہوگا [5] ۔
سوال صرف ان سے نہیں ہوگا جو دیوانے ہیں ورنہ ہر ایک صاحب عقل سے سوال ہوگا تم نے کیا کیا ؟ احساس ذمہ داری اسی لئے اہم ہے کہ ہر ذمہ دار انسان سے مالک سوال کرے گا کسی کو اس سے مفر نہیں حتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان سے بھی سوال ہوگا آپ نے فرمایا: مجھ سے بھی سوال ہوگا اور تم سے بھی سوال ہوگا ؟ [6]
اسی لئے امام علی علیہ السلام تقوی و پرہیز گاری کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں : میں تمہیں تقوی کی طرف دعوت دے رہا ہوں وہ چیز جس کے بارے میں تم سے سوال ہوگا اور تمہاری سرنوشت جس سے جڑی ہوئی ہے [7]۔
جب واضح ہے کہ اگر ہمارا تعلق گروہ انسانی سے ہے تو ہم سے سوال ہونا لازمی ہے تو کیا بہتر نہیں کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور جانے کے اس دنیا میں اگر وہ آیا ہے تو کونسی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر ہے جسے نبھائے بغیر اس کا مقصد حیات پورا نہیں ہو سکتا ۔
معرفت کی پہلی منزل :
چاہے بات فرد کی ہو یا معاشرہ کی جب تک انسان کے سامنے یہ بات واضح نہیں ہوگی کہ فردی و معاشرتی ذمہ داریوں میں جسے راضی رکھنا ہے وہ خود معاشرہ نہیں خدا ہے تب تک انسان بری الذمہ نہیں ہو سکتا ہے۔
ہر انسان کے ذہن میں پہلا سوال یہی قائم ہوتا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں ؟ ہمیں کہاں جانا ہے ؟ ہم کیوں آئے ہیں ؟ ہمیں کیا کرنا ہے ؟ کائنات کا پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اس نے ہمیں پیدا کر کے ہم سے کیا چاہا ہے ؟ اب ممکن ہے کوئی غفلت و بے خبری کی بنیاد پر ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اپنے اس ضمیر کی آواز کو تھپک تھپک کر خاموش کر دے اور اپنے وجود میں اس ضمیر کی بجتی ہوئی گھنٹی کو خاموش کر دے جو حقیقت حیات و مقصد حیات کی طرف بلا رہی ہے اور روح کی گہرائیوں سے اٹھنے والے سوالات کا جواب نہ دے لیکن انسان جب بھی غور و فکر کرےگا اس پر یہ بات آشکار ہوگی کہ فطری طور پر ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ اگر اسے اپنے خالق کا شکر ادا کرنا ہے تو مقامات شکر کو پہچانے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اللہ کے مقابل اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلی منزل اپنے مالک کی معرفت ہے۔
معرفت رب انسان کو ذمہ دار بناتی ہے :
جب تک انسان اپنے مالک کو نہیں پہچانے گا تب تک حقیقت اس پر عیاں نہ ہوگی معرفت ہی حقیقت تک پہنچنے کی سیڑھی ہے [8]
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : اللہ کی شناخت سب سے اعلی شناخت و معرفت ہے [9] ۔
اب اسی معرفت کی روشنی میں خالص تصور توحید نکھر کر سامنے آئے گا یہی معرفت انسان کو توحید تک پہنچائے گی مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں : جو خدا کو پہچان گیا وہ اس کی یگانگت کو بھی تسلیم کرے گا [10]
شناخت پروردگار ہماری زندگی میں وہ اہم منزل ہے جس پر بہت سے فردی و معاشرتی مسائل کا دارو مدار ہے ، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی ایک جگہ خود کو روک نہیں پاتا خود پر کنڑول نہیں رکھ پاتا اور ایسی باتیں کر بیٹھتا ہے جنکی وجہ سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اس جگہ زبان کھول دیتا ہے جہاں نہیں کھولنا چاہیے جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں انتشار پیدا ہوتا ہے ایسے انسان کو سمجھانے والے سمجھاتے رہتے ہیں لیکن کوئی بھی سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوتا جب بھی اسے موقع ملتا ہے ایک پھلجھڑی چھوڑ دیتا ہے جب کہ یہی انسان اگر معرفت کی منزلوں میں ہوتا تو ہرگز بے لگام گھوڑا نہ ہوتا اگر یہ ذمہ داری کا احساس کرتا تو ہر جگہ نہ بولتا ہر بات نہ کہتا ، ہر بات کہنے سے پہلے سوچتا اس کا رد عمل کیا ہوگا ؟ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
جو معرفت حاصل کرتا ہے وہ خود کو روک لیتا ہے اس کے اندر ضبط آ جاتا ہے [11] آج ہماری ایک بڑی مشکل بے جا بولنا ہے ؟ انسان کا اپنی زبان پر کنڑول نہیں ہے جہاں چاہا جو چاہا بول دیا بغیر سوچے سمجھے بولنے سے بہت سی مشکلات سامنے آتی ہیں معرفت وہ لگام ہے جو انسان کی زبان کو ہر جگہ ہر بات بولنے سے روکتی ہے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : جس نے خدا کی شناخت حاصل کر لی اور اسے بڑا مان لیا وہ اپنے منھ کو بات سے روک لیتا ہے وہ ہربات نہیں کہتا ہر کھانا نہیں کھاتا [12]۔
مختصر یہ کہ انسان کے وجود کے اندر فقدان معرفت و شعور جہاں بہت سے مشکلات کے وجود میں آنے کا سبب ہے وہی معرفت انسان کی بہت سی مشکلات کے برطرف ہو جانے کا سبب ہے ۔
جہاں وجود میں شعور آ جائے وہاں انسان اپنی ذمہ داریوں کو بھی پہچانتا ہے معاشرے کی مشکلات کو بھی سمجھتا ہے انہیں حل کرنے میں بھی کوشاں رہتا ہے ۔
ہمارے ملک میں آج ہماری ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمارے یہاں فکر و شعور ندارد ہے ، کتابیں پڑھنے کا ذوق ختم ہو چکا ہے تجزیاتی گفتگو کو ہم پسند نہیں کرتے نتیجہ یہ ہے کہ خود کو ہم نے حاشیوں میں رکھا ہوا ہے اور ملک کے متن میں وہ لوگ یکہ تاز ہیں جو پروگرامنگ و منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ جبکہ ہمارا درخشان ماضی ہمیں آواز دے رہا ہے پکار رہا ہے کہ تم کہاں جا رہے ہو؟ کاش ہم ہوش کے ناخن لیں اور جذباتی فیصلے نہ لیکر عقلانیت کی بنیادوں پر اپنے آنے والے کل کا فیصلہ کریں
یقینا فکر و شعور کی لہر معاشرے میں دوڑ جائے تو ہم بہت سی مشکلات کو حل سکتے ہیں ۔
يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ روم ۷ . [1]
شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۲۰ ص ۳۰۶. قبیح بذی العقل أن یکون بهیمه قد أمکنه أن یکون انساناً.[2]
انعام ۹۱ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ. [3]
۔۔صافات ۲۴ وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُم مَّسْـُٔولُونَ. [4]
اسرا
۳۶ . إِنَّ ٱلسَّمْعَ وَٱلْبَصَرَ وَٱلْفُؤَادَ كُلُّ أُوْلَٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔولًا.[5]
[6] ۔ كنز العمّال : 12911.]، اسی سے ملتی جلتی ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا : يا مَعاشِرَ قُرّاءِ القرآنِ، اِتَّقُوا اللّه َ عزّ و جلّ فيما حَمَلَكُم مِن كتابِهِ فإنّي مَسؤولٌ و إنّكُم مَسؤولُونَ ، إنّي مَسؤولٌ عن تَبليغِ الرِّسالَةِ ، و أمّا أنتُم فَتُسألُونَ عمّا حُمِّلتُم مِن كتابِ اللّه ِ و سُنَّتي
الكافي : 2/606/ بحار الانوار جلد ۲۳ ص ۱۴۱ ۲۹۱۱ .
اُوصِيكُم بتَقوَى اللّه ِ فيما أنتُم عنهُ مَسؤولُونَ و إلَيهِ تَصِيرُونَ ، فإنَّ اللّه َ تعالى يقولُ : «كُلُّ نَفْسٍ بما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ» .حديث و يقولُ : «و يُحَذِّرُكُم اللّه ُ نَفْسَهُ و إِلى اللّه ِ المَصِيرُ» .حديثو يقولُ : «فَوَ رَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُم أَجمَعِينَ * عمّا كانوا يَعْمَلُونَ»
۳۸۷ , بحار الانوار جلد ۷۳ ص [الأمالي للمفيد : 261/3 .]. [7]
آیت اللہ جوادی آملی ، معرفت شناسی ، جلد ۱۳ ص ۸۷[8]
مَعرِفةُ اللّه ِ سُبحانَهُ أعلى المَعارِفِ ، غرر الحکم ۱۰۴۸۴ .[9]
غررالحکم ۸۵۰۵ من عرف اللہ توحد۔ .[10]
ایضا ۸۳۲۵ من عرف کف ۔[11]
ص ۲۳۷2 ۔ من عرف اللہ و عظمہ منع فاہ من الکلام ۔۔۔ وسائل الشیعہ جلد ۱ ص ۱۸۷ ، کافی جلد [12]
تبصرہ کریں