قیس بن مسہر صیداوی اسدی
فاران تجزیاتی ویب سائٹ؛ کوفے میں ایک دور وہ تھا جب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی حکومت تھی ایسی حکومت جسکا حاکم گھر گھر جا کر لوگوں کی خبر گیری کرتا ، سخت تپتی ہوئی دھوپ میں لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے کوفے کی گلیوں میں گھومتا کہ کوئی ضرورت مند دار الامارہ میں گھنٹوں قطار میں نہ کھڑا رہے جسکا جو کام ہے فورا حل کر دیا جائے ، ایسا حاکم جسے کبھی بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا جاتا تو کبھی غریبوں اور ناداروں کے ساتھ محو گفتگو جو کبھی یتیموں کو دوش پر سوار کرتے نظر آتا تو کبھی کسی فقیر کے گھر آذوقہ اپنے کاندھوں پر ڈالے دکھتا لیکن اب زمانہ بدل گیا کوفے کی حکومت شام کے زیر نگیں ہے اور شام پر امیر شام کی حکومت ہے نہ شام کے حاکم کو کوفے کی فکر ہے نہ کوفے کے والی کو کوفے کی عوام کی مشکلات کی۔ لوگ اس صورت حال میں علی کی حکومت کے دوران گزارے گئے دنوں کو یاد کر رہے ہیں کتنے اچھے دن تھے جب علی ع ہم پر حاکم تھے کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بار پھر کوئی ایسا حاکم ہمیں مل جائے جو سیرت و کردار میں علی ع ہو لوگوں کی نظریں علی ع کے انصاف علی ع کے طرز حکومت کو تلاش کرتے کرتے امام حسین ع پر پہنچتی ہیں لیکن کیسے کوفے کے والی کو ہٹا کر زمام امور امام حسین ع کے حوالے کی جائے لوگ اسی تگ و دو میں تھے کہ امیر شام کے اس دنیا سے گزر جانے کی خبر نے کوفے کے لوگوں کے سامنے ایک بہترین موقع فراہم کر دیا یوں بھی کوفے میں طرز حکومت کو لیکر ہر طرف سے آوازیں بلند ہو رہی تھیں بلند ہوتی ہوئی آوازوں کے لئے اس سے بہتر موقع اور کیا ہو سکتا تھا کہ شام کی سلطنت کا امیر اب نہیں رہا ،جیسے ہی لوگوں کو پتہ چلا، تیزی کے ساتھ لوگ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر جمع ہو گئے سب نے مل کر امام حسین ع کے نام ایک خط لکھا یہ کوفے کے لوگوں کی جانب سے پہلا خط تھا جو عبد اللہ بن سبع اور عبد اللہ بن وال کے ذریعہ امام تک پہنچایا گیا دو دن کے بعد ایک دوسرا خط لکھا گیا اس خط کو امام حسین تک پہنچانے کی ذمہ داری تھی قیس بن مسہر صیداوی اسدی اور عبد الرحمن بن عبد اللہ ارجبی کی۔ دونوں نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ،ابھی قیس و عبد الرحمن بن عبد اللہ کے ذریعہ کوفہ کے لوگوں کے خطوط پہنچے دو ہی دن ہوئے تھے کہ سعید بن عبد اللہ اور ہانی بن عروہ کے ذریعہ امام تک اس مضمون کا خط پہنچا :
مومن شیعوں کی جانب سے حسین ابن علی علیہ السلام کے نام : اما بعد آپ جلدی کریں لوگ آپ کے منتظر ہیں ،انکی حمایت صرف آپ کے لئے ہے آپ جلدی کریں والسلام۔
اس خط کے بعد امام حسین علیہ السلام نے مسلم ابن عقیل کو بلایا اور اپنا سفیر بنا کر کوفے بھیجنے کا فیصلہ کیا جناب مسلم کے ساتھ کوفے کی طرف بھیجنے کے لئے جن دو ساتھیوں پر مولا کی نظر انتخاب پڑی وہ ہیں قیس بن مسہر صیداوی اسدی اور عبد الرحمن ارحبی ۔یہیں سے قیس بن مسہر صیداوی اسدی کی اہمیت و انکا مقام و مرتبہ واضح ہو جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے مورد اعتماد سفیر کی ہمراہی کے لئے جس شخصیت پر اعتماد کیا اسکا نام قیس ہے ۔
*****
ماہ مبارک رمضان کے آخری ایام تھے جب جناب مسلم ابن عقیل نے مکہ سے مدینہ کا رخ کیا آپ مسجد النبی میں پہنچے دو رکعت نماز پڑھی اپنے اہل خانہ سے رخصت ہوئے قیس بن مسہر صیداوی نے یہاں پر راستہ جاننے والے دو لوگوں کا مزید انتظام کیا ان دونوں کی رہنمائی میں جناب مسلم آگے بڑھتے گئے راستے میں گرمی و پیاس سے جاں منھ کو آتی تھی۔[1] لیکن جناب مسلم نے سفر جاری رکھا یہاں تک کے قیس بن مسہر صیداوی کی جانب سے فراہم کئے جانے والے راستے کی پرکھ رکھنے والے دو لوگوں نے بطن جنت نامی علاقے کی نشاندہی کی یہ قبیلہ کلب سے متعلق ایک ایسا علاقہ تھا جہاں پانی تھا [2] یہ وہ مقام ہے جہاں سے امام حسین علیہ السلام کے لئے جناب مسلم نے ایک خط اس مضمون کا لکھا :
اما بعد: ہم مدینہ سے نکل گئے با اینکہ راستے میں ہم نے دو راستے کی پرکھ رکھنے والے جانکار افراد کو بھی ساتھ لیا پھر بھی راستہ بھٹک گئے اور تشنگی کا ہم پر غلبہ ہوا ہمارے ساتھ راستے سے واقفیت رکھنے والے لوگ دم توڑنے ہی والے تھے کہ آخر کار ہم ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں پانی تھا ، آخری پلوں میں ہماری نجات کا ذریعہ ہماری آخری سانسیں تھیں اور بس یہ حادثہ کچھ ایسا ہوا کہ آگے کے سفر کو ہم بہت اچھا نہیں دیکھ رہے ہیں [3]۔
اب اس خط کو امام حسین علیہ السلام تک پہنچانے کا مرحلہ تھا اسکے لئے جناب مسلم نے ایک بار پھر یہ ذمہ داری قیس کے سپرد کی قیس اس مقام سے جناب امام حسین علیہ السلام تک خط لیکر پہنچے امام ع نے خط ملاحظہ کیا اور جواب میں لکھا :
مجھے ڈر ہے جیسا کہ مستقبل کے بارے میں تم نے کہا ہے ویسا نہ ہو سو جیسا کہ میں نے تمہیں کہا ہے تم اسی طرح آگے بڑھتے رہو والسلام [4]۔
قیس امام علیہ السلام کا یہ مکتوب لیکر دوبارہ جناب مسلم کی خدمت میں پہنچے جناب مسلم نے اپنے امام کے فرمان پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے کوفے کا سفر جاری رکھا ، جب آپ کوفہ پہنچ گئے اور آپ نے وہاں کے حالات کا جائزہ لیا تو ایک بار پھر کوفے کے حالات سے مولا کو ظاہری طور پر باخبر کرنے کے لئے ایک مکتوب لکھا اس بار پھر اس کام کے لئے جناب قیس بن مسہر پر نظر ٹہری اور جناب مسلم نے عباس شاکری اور شوذب کے ہمراہ جو جناب قیس کے غلام تھے کوفے کے حالات پر مشتمل ایک مکتوب مکہ کی طرف روانہ کیا اس خط کو بھی قیس نے پوری امانت داری کے ساتھ مولا تک پہنچایا ۔
امام علیہ السلام جب مقام حاجز پر پہنچے تو آپ نے ایک خط جناب مسلم کے لئے لکھا اور قیس ہی کے حوالے کیا لیکن راستے میں حصین بن نعیم نے قیس کو گرفتار کر لیا حصین نے قیس کو گرفتار کرنے کے بعد عبید اللہ ابن زیاد کے حضور پیش کیا ، عبید اللہ نے جیسے ہی قیس کو دیکھا اس کی آنکھیں چمک اٹھیں وہ اسی موقع کی تلاش میں تھا کہ اسے پتہ چل سکے وہ کون لوگ ہیں جو کوفے سے امام علیہ السلام کو خط لکھ رہے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے امام کے ہاتھوں پر بیعت کی قسم کھائی ہے عبداللہ نے دیکھتے ہی کہا قیس وہ خط مجھے دے دو جو تمہارے مولا نے لکھا ہے۔
قیس کا جواب تھا: و ہ خط تو میں نے پھاڑ دیا
ابن زیاد کی گردن کی رگیں غصے سے نمایاں ہو گئیں
یہ کیا حماقت ہے تم نے وہ خط کیوں پھاڑ دیا ؟ وہ میرے لئے بہت اہم تھا ۔
قیس کا جواب : اس لئے پھاڑ دیا کہ تجھے پتہ نہ چلے میرے مولا نے کیا لکھا ہے میں نہیں چاہتا تھا تیری نجس نگاہیں آیہ تطہیر کے مصداق میرے مولا کی پاکیزہ تحریر پر پڑیں ابن زیاد یہ سنتے ہی آگ بگولہ ہو گیا اور کہتا ہے بہت خوب قیس تم نے اپنے مولا کا مکتوب تو پھاڑ دیا لیکن مجھ سے بچ نہیں پاوگے جاو منبر پر جاو اور جا کر کذاب ابن کذاب پر لعنت کرو، ابن زیاد کی مراد معاذ اللہ امام حسین علیہ السلام تھے قیس نے کہا ٹھیک ہے منبر کا انتظام کر لوگوں کو خبر کر ۔ جس قیس نے منبر کا مطالبہ کیا اور لوگوں میں یہ بات مشہور ہوئی کہ قیس حکومتی منبر سے سید الشہدا علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے والے ہیں تو بعض شیعوں کے درمیان چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئیں بعض نے کہا کہ لگتا ہے ابن زیاد نے سخت شکنجہ کسا ہے اور بہت زیادہ ہی قیس کو مارا ہے قیس کے پاس ابن زیاد کے ظلم کے مقابل ایمان بیچنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا ، بعض نے کہا کہ قیس کو ہم ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے اسے منبر پر جانے سے پہلے ہی قتل کر دیں گے کہ ہمارے آقا کے خلاف وہ زبان کھولے ہمیں برداشت نہیں کچھ اور بھی لوگ تھے انہوں نے کہا بالکل ایسا ہی ہوگا لیکن کسی کو سزا اسی وقت دی جاتی ہے جب اس سے جرم سرزد ہو پہلے قیس کو منبر پر جانے دو پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اگر اس نے امام حسین علیہ السلام کے خلاف ایک لفظ بھی کہا تو ہم بھی اسے بتا دیں گے کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی خلافت کے مرکز میں انکے شیعوں کے درمیان حکومت کے ایما پر توہین امامت کی سزا کیا ہوتی ہے ۔
***
پورے کوفے میں حکومت کے کارندوں کی جانب سے یہ منادی کرا دی گئ کہ کوفے کے منبر سے قیس امام حسین علیہ السلام کے خلاف بولنے والے ہیں ، ہر طرف چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں بعض لوگ کہہ رہے تھے یہ قیس وہی ہیں جو جناب مسلم کے ہمراہ تھے ،بعض کہہ رہے تھے سفیر حسینی کے ساتھ رہنے کے باوجود کیوں کر قیس نے خود کو بیچ دیا بعض کہہ رہے تھے دنیا پرستی میں انسان دین و ایمان سب بیچ کھاتا ہے کل تک جو امام حسین ع کے ساتھ تھا آج ابن زیاد کا خطیب بن گیا ہے ، گھر گھر میں باتیں ہو رہی تھیں کہ قیس حکومتی منبر سے خطاب کریں گے کوئی وقت کا انتظار کر رہا تھا کوئی وقت سے پہلے قیس کے جرم کا حکم سنا رہا تھا ۔ الغرض وہ گھڑی آن پہنچی ، چاروں طرف تیر انداز تھے جنہوں نے قیس کے خطاب کی جگہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا ابن زیاد کو ڈر تھا کہ قیس جب امام حسین علیہ السلام کے خلاف کچھ بولیں گے تو ممکن ہے بعض شیعہ سننے کی تاب نہ رکھیں اور حملہ کر بیٹھیں لہذا چپے چپے پر سپاہی تعینات تھے لوگ جمع ہو چکے تھے ہر ایک سانس سینے میں حبس تھی کیا ہونے والا ہے ، چاروں طرف مجمع ٹھاٹھیں مار رہا تھا لوگ حیرت سے ایک دوسرے کا منھ دیکھ رہے تھے کہ قیس کو بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ لایا گیا منبر لایا گیا قیس منبر کے نیچے اور ابن زیاد کا خطیب منبر کے اوپر اور مجمع قیس کا منتظر ، ابن زیاد کے خطیب نے کہا کہ اب تمہارے سامنے قیس جو کہ سفیر حسینی کے ساتھی تھے خطاب کریں گے اور بتائیں گے کون جھوٹا ہے کون سچا ہے، مجمع سے شور و غل کی آواز بلند ہوئی جس پر ابن زیاد نے کہا خاموش ہو جاو اور سنو کہ قیس کیا کہتے ہیں ؟
قیس منبر پر پہنچے اور پہلا جملہ ” اے لوگوں میں قیس بن مسہر صیدای اسدی تم سے مخاطب ہوں خدا کی قسم حسین ابن علی خلق خدا میں سب سے بہترین ہیں ، اسکے بعد فرمایا : وہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بیٹے ہیں جو دختر رسول تھیں اور میں انہیں کی جانب سے تمہارے درمیان بھیجا گیا سفیر ہوں میں انکے ساتھ تھا اور مقام حاجز پر ان سے جدا ہو گیا جو وہ کہتے ہیں اس کی اطاعت کرو انکی دعوت پر لبیک کہو جیسے ہی یہ جملے عوام نے سنیں مجمع سے آواز آنے لگی لبیک یا حسین لبیک یا حسین ابن زیاد نے فورا قیس کو خاموش کرنے کا حکم دیا کئی لوگوں نے آکر قیس کو پکڑنا چاہا لیکن قیس بولتے رہے اور جس منبر کو ابن زیاد نے توہین امامت کے لئے استعمال کرنا چاہا تھا قیس نے وہیں سے ترویج ولایت کا کام کرکے بتایا کہ امام کے سچے عاشق ماحول اور حالات کو دیکھ کر اپنی ڈگر نہیں بدلتے بلکہ ماحول اور حالات کو اپنی حق بیانی سے بدنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ قیس اکیلے تھے ابن زیاد کے پاس لاو لشکر تھا اکیلا انسان ہزاروں کے مقابل کیا کرتا قیس کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اب ابن زیادہ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ قیس کے قتل کا حکم دے چنانچہ اس نے حکم صادر کر دیا کہ قیس کو دارالامارہ کی بلندی پر لے جا کر اوپر سے دھکا دے کر نیچے پھینک دیا جائے اور ظالموں کا آخری حربہ یہی ہے جب یہ منطق کے سامنے شکست کھا جاتے ہیں تو اسکا اعلان اپنے مقابل کھڑے ہونے والے حق کے پرستار کے قتل سے کرتے ہیں ۔
ابن زیاد کے حکم کے مطابق قیس کے ہاتھوں کو پشت سے باندھ کر دار الامارہ کی بلندی پر لے جایا گیا اور جلاد نے بلندی سے قیس کو گرا دیا جس سے آپ کی بدن کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں[5] اور آپ نے جان جان آفریں کے سپرد کی یقینا جناب مسلم کی طرح گرتے گرتے قیس نے آواز دی ہوگی السلام علیک یا ابا عبد اللہ الحسین ۔
ادھر امام حسین علیہ السلام جب مقام عذیب الہیجانات پر پہنچے تو کچھ لوگ امام کے ساتھ ملحق ہوئے امام نے اپنے سفیر کے بارے میں سوال کیا لوگوں نے سوال کیا آپ کی مراد سفیر سے کون ہے ؟آپ نے فرمایا قیس اس مقام پر عائذی نے جناب قیس کی شہادت کی پوری تفصیل امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی کہ کس طرح حصین نے انہیں گرفتار کیا اور کس طرح ابن زیاد نے انہیں حکم دیا کہ آپ اور آپ کے بابا پر لعنت کریں لیکن انہوں نے اسکے حکم کے برخلاف آپ اور آپ کے بابا پر درود بھیجا اور ابن زیاد و اسکے باپ پر لعنت بھیجی جسکے بعد ابن زیاد نے دار الامارہ کی بلندی سے نیچے گرا کر قتل کرنے کا حکم دیا یوں آپ کے سفیر کو دار الامارہ کی بلندی سے گرا کر شہید کر دیا گیا امام حسین علیہ السلام کی آنکھوں میں یہ ماجرا سن کر آنسو آ گئے آور آپ نے جناب قیس کی شہادت پر اس آیت کی تلاوت کی : مِنَ المُؤمِنينَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيهِ ۖ فَمِنهُم مَن قَضىٰ نَحبَهُ وَمِنهُم مَن يَنتَظِرُ ۖ وَما بَدَّلوا تَبديلًا۔ احزاب ۲۳ ۔ ہمارا کروڑوں اور لاکھوں سلام ہو ان جانثاران حسینی پر جنہوں نے کائنات عشق محبت کے لئے ایک نئی تاریخ رقم کر دی اور بتایا کہ سچی محبت کیسے کی جاتی ہے ۔
[1] ۔ سماوی ، ابصار العین ص ۸۰
[2] ۔ معجم البلدان جلد ۲ ص ۳۴۳
[3] ۔ تاریخ الامم والملوک جلد ۵ ص ۳۵۴
[4] ۔ ایضا ص ۳۵۵، الارشاد جلد ۲ ص ۴۰
[5] ۔ تاریخ الامم والملوک جلد ۵ ص ۳۹۵
ابصار العین ص ۱۱۲
تبصرہ کریں