مسلمان کوفہ، تنہا مسلم

جب مطلع کارزار نمایاں ہوتا ہے، چمکتی ہوئی تلواریں ٹہرتی ہیں، کمانوں کی گڑگڑاہٹ تھمتی ہے، نیزوں برچھیوں والے اپنے نیزوں کو لئے پیچھے کی طرف ہٹتے ہیں تو پتہ چلتا ہے نہ سامنے کوئی فوج تھی، نہ کسی فوج کو جغرافیائی برتری حاصل تھی اور نہ بھاری اسلحے و ہتھیار تھے۔ صرف ایک جنگجو تھا ایک بہادر تھا جو ایک تاریک و تنگ گلی میں یک و تنہا لڑ رہا تھا۔

تلواریں بلند ہوتی ہیں، نیزے اٹھتے ہیں، کمانیں کڑکتی ہیں، تیر نکلتے ہیں، برچھیوں بھالے والے آگے بڑھتے ہیں، چمکتی شمشیروں، کوندتے ہوئے نیزوں بھالوں، سنسناتے تیروں لہراتی بھرچھیوں کو دیکھ تو یہی لگا کہ کوئی بڑا معرکہ ہوگا۔ جب معرکہ بڑا ہو اور گھمسان کا رن پڑے تب ہی عام طور پر امدادی فوج طلب کی جاتی ہے، پیچھے سے پہنچ رہی کمک کی خبر لشکر کو دے کر اسکی ہمت بندھائی جاتی ہے کہ “کچھ دیر اور مقابلہ کرو پیچھے سے امداد پہنچنے والی ہے، تازہ نفس فوجیوں کے ہوتے گھبرانے کی ضرورت نہیں میدان تمہارا ہے”۔
اب اگر کسی مقام پر بارہا امداد طلب کی جا رہی ہو اور لشکر سے کہا جا رہا ہے ہو کہ تھوڑی ہمت اور کرو پیچھے سے مزید تازہ نفس لشکر آ رہا ہے اور اس پر مرکز سے محمد بن اشعث جیسا کوفہ کا لڑاکا و جنگجو اگر مزید فوج طلب کرے تو کیا یہ بات یقین کرنے کے لئے کافی نہیں کہ بالمقابل بڑے ہی زبردست قسم کے شہسوار ہونگے جنکے پاس بہترین ہتھیار ہونگے اور فنون جنگی سے بھی خوب واقف ہوں گے اور یقینا کسی جغرافیائی برتری رکھنے والے خطہ پر قابض ہوں گے تبھی تو مزید امداد کی بات کی جا رہی ہے ۔۔۔
جب مطلع کارزار نمایاں ہوتا ہے، چمکتی ہوئی تلواریں ٹہرتی ہیں، کمانوں کی گڑگڑاہٹ تھمتی ہے، نیزوں برچھیوں والے اپنے نیزوں کو لئے پیچھے کی طرف ہٹتے ہیں تو پتہ چلتا ہے نہ سامنے کوئی فوج تھی، نہ کسی فوج کو جغرافیائی برتری حاصل تھی اور نہ بھاری اسلحے و ہتھیار تھے۔ صرف ایک جنگجو تھا ایک بہادر تھا جو ایک تاریک و تنگ گلی میں یک و تنہا لڑ رہا تھا۔ اکیلا شیر تھا جو گیدڑوں کا مقابلہ کر رہا تھا اور کیوں نہ ہو اکیلا شیر تھا اور دیباچہ کربلا کو اپنے دم پر رقم کر رہاتھا، تنہا سفیر حسینی تھا جو کوفہ کی حقیقت کو واضح کر رہا تھا کہ ان میں مرد کتنے ہیں اور مردوں کی نقاب میں بکریوں والا دل رکھنے والے چوپائے کتنے ہیں، یا پھر یوں کہا جائے ایسے کوفہ میں جہاں مرادنگی صرف ایک ذات نے دکھائی اور وہ بھی ایک خاتون جسکا نام طوعہ تھا، جہاں مرد چوڑیاں پہن کر گوشہ عافیت میں بیٹھ گئے ایسے شہر میں مردانگی کی تاریخ رقم کرنے والا وہی مرد تھا جس کے چچا کو زبان رسالت نے مرد کہہ کر خطاب کیا تھا، پورے مسلمان کوفے میں اکیلا مسلم، تنہا مسلم۔ عجیب بات ہے اس پورے کوفے میں اگر سفیر حسینی کو پناہ دی تو ایک عورت نے جسکا نام ’’طوعہ‘‘ تھا اور وہ عورت ہو کر بھی مردانگی کی راہ پر مرد بن کرجینا سکھا گئی۔
پھر وہ سارے مرد کہاں چلے گئے جنہوں نے سیکڑوں کی تعداد میں خطوط لکھ کر امام وقت کو بلایا تھا ؟۔۔۔آج ایک بار پھر یہی کیفیت ہے ظہور امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے قبل پرچمدار انقلاب عالم وقت کے یزیدیوں کے سامنے ڈٹا ہوا ہے لیکن کچھ لوگوں کو اسی طرح نظر نہیں آتا جیسے کل ابن زیاد کے درہم و دینار کی چکا چوند میں جناب مسلم ابن عقیل کا وجود۔ لیکن جس طرح کل طوعہ آگے بڑھی تھی دفاع ولایت کے لئے آج بھی ہزاروں مائیں ہیں جو طوعہ کی صورت مردانگی کا معرکہ سجائے اپنے بےسر محسن حججی جیسے پیاروں کو پیش کر رہی ہیں کہ کل مسلم تنہا رہ گیا لیکن آج نہیں رہے گا۔ کہتے ہیں تاریخ تکرار ہوتی ہے، آگے بھی ہو گی اور ہوتی رہے گی۔۔۔لیکن مسلم ابن عقیل کا سر ایک بار دار الامارہ کی بلندی پر قلم ہوا اب نہیں ہوگا اس لئے کہ کل طوعہ کو اپنی آغوش کے پالوں کو حسینیت پر قربان کرنے کا موقع نہ ملا لیکن آج نہ جانے کتنی مائیں اپنی گود کے پالوں کو پروان چڑھا کر انتظار میں ہیں کہ انہیں موقع ملے تو دفاع حرم اھلبیت میں اپنی گود کے پالوں کو قربان کر دیں۔
سو اب یہ سوچ کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ مسلمِ دوران کا کیا ہوگا؟ وقت کے مسلم کے ساتھ ہزاروں و لاکھوں کی تعداد میں آج ہانی ابن عروہ جیسے سپاہی موجود ہیں جنہیں دھوکہ دے کر شہید کرنا کسی وقت کے ابن زیاد کے بس میں نہیں، ہاں اتنا ضرور ہے ایسے میں کوفی صفت لوگوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے جو ہر ایرے غیرے تو کیا ابن زیاد تک کو حسین ؑسمجھ کر اسکی بیعت کے لئے تیار رہتے ہیں، اور ان عناصر سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو بالکل اسی طرح امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ورد کرتے نہیں تھکتھے جیسے کل کے کوفی امام حسین علیہ السلام کا ورد کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اس کے بعد انہوں نے ہی سفیر حسینی کے ساتھ وفا نہ کی تاریخ آئینہ ہے اور اسکی عبرتیں بے پایاں… “العواصم من القواصم” جیسی کتاب لکھنے والے قاضی ابوبکر ابن عربی دفن ہو گئے تاریخ کے قبرستان میں اورکوئی انکا نام لینا والا بھی نہیں کہ انہوں نے بزعم خود امام حسین علیہ السلام کی مزاحمت کو غیر ضروری جانتے ہوئے غیر معقول قرار دیا تھا، اسی طرح وہ لوگ بھی ختم ہو جائیں گے صفحہ روزگار سے جو قائد حریت کی شجاعتوں کو دیوانگی سے تعبیر کرتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح سربلند رہے گا جناب مسلم کا وہ کردار جو اپنے امام وقت کے سامنے خاضع و خاشع تھا، وہ کردار جو چودہ سو سال گزرنے جانے کے بعد بھی یہ درس دیتا ہے کہ اس شھر و قبیلہ میں مرد بن کر کیسے جیو جہاں کے لوگ کوفی ہو جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔