مغربی ایشیا میں طاقت کی رسہ کشی (حصۂ اول) 

حقیقت یہ ہے کہ ایران اور محاذ مزاحمت کے درمیان عسکری اور معاشرتی یکجہتی علاقے میں امریکی مفادات شدید خطرات سے دوچار ہوں گے؛ امریکی فوجی چھاؤنیاں اور اڈے نشانہ بنیں گے؛ یہودی اور سعودی ریاستوں سمیت امریکی حلیفوں کو حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا، امریکی بحری بیڑے نشانے پر ہونگے۔

فاران؛ ایران اور مغرب کے درمیان جامع جوہری معاہدے کی عدم کامیابی اور امریکہ کی طرف سے اس کی مخالفت کے بعد، فریقین نے ایک دوسرے کو عسکری اقدام کی دھمکیاں دینے کا آغاز کیا۔ اسی اثناء میں، علاقے میں ایران کے ناقابل انکار اثر و رسوخ کے مقابلے میں سعودی اور اسرائیلی علاقائی قوت پھیکی پڑ گئی چنانچہ یہ دو ریاستیں بھی امریکہ سے جا ملیں؛ گوکہ صرف یہودی ریاست اور ایران کے درمیان تناؤ کی کیفیت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ سامنے آئی، چنانچہ یہودی ریاست نے گذشتہ چند ہی دنوں کے دوران ایران کے حلیفوں کے طور پر شام، (1) لبنان، (2) اور عراق (3) کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہودی ریاست نے ماضی کے برعکس، اس بار اپنی اس کارکردگی کو عیاں اور اعلان کیا کہ “یہ سب ایرانیوں کی طرف کے خطرات کا جواب تھا”۔
چنانچہ ہم یہاں حالیہ صہیونی حملوں کے اسباب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، اس سوال کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ کیا یہ حملے مذکورہ فریقوں کے درمیان جنگ کا سبب بن سکتے ہیں؟
موجودہ صورت حال میں دوفریق “ایران اور صہیونی-یہودی ریاست” اپنے خبررسان اداروں اور خطابات میں مخالف فریق کی طاقت اور کمزوریوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسرائیلی ویب گاہ “اسرائیل نیشنل نیوز” اگرچہ اسرائیل کی عسکری قوت بیان کرنے میں مبالغہ آرائیوں اور شیخیوں سے کام لیتی ہے، لیکن وہ بھی ایران کی میزائلی طاقت کا انکار کرنے سے عاجز ہے؛ کیونکہ میزائلوں کے حوالے سے ایران دنیا کی پانچویں یا آٹھویں طاقت ہے۔ (4) اس ویب گاہ نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں حتی کہ ایران کی عسکری اور اسلحہ جاتی طاقت کے بارے میں اس ملک کے قائدین کے موقف کی طرف بھی اشارہ کیا، گوکہ اس نے رپورٹ کے آخر میں اپنے ماہرین کے خیالات کا حوالہ دیتے ہوئے ایرانی فوجی قائدین کے موقف کو “بعید از قیاس” قرار دیا!
ادھر ایران کے قائم مقام وزیر دفاع “جنرل قاسم تقی زادہ” نے کہا ہے: “ہمیں امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج علاقے میں ہزاروں امریکی فوجی موجود ہیں، اور ہم روزانہ ان کی نگرانی کرتے ہیں اور ان کے ہتھیاروں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں”۔ (5)

غالب اور مغلوب کا جائزہ 
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے راہنماؤوں کو ایران کے ساتھ جنگ کے سلسلے میں دی جانے والی رپورٹ – جو “علاقے میں طاقت کے توازن”، “غالب اور مغلوب کا جائزہ”، “سیاسی، معاشی اور عسکری معیارات” وغیرہ جیسے – اجزاء پر مشتمل ہے، جنگ کو دانشمندانہ اقدام قرار نہیں دیتی۔
نکتہ یہ ہے کہ امریکہ تنہا، ایران کے خلاف جنگ میں نہیں کود سکتا، کیونکہ اس صورت میں مغربی ایشیا میں اس کے تمام تر مفادات کو خطرہ لاحق ہوگا اور وہ اپنے ہتھیاروں کے صاحب ثروت عرب خریداروں کو کھو بیٹھے گا۔ چنانچہ اس نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایران کو جنگ کی دھمکیاں دیں اور یوں علاقے میں ایران کے دشمنوں کو پیغام ارسال کرکے انہیں ایران کے خلاف جنگ کی ترغیب دلائی؛ لیکن اسے کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
حقیقت یہ ہے کہ ایران اور محاذ مزاحمت کے درمیان عسکری اور معاشرتی یکجہتی علاقے میں امریکی مفادات شدید خطرات سے دوچار ہوں گے؛ امریکی فوجی چھاؤنیاں اور اڈے نشانہ بنیں گے؛ یہودی اور سعودی ریاستوں سمیت امریکی حلیفوں کو حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا، امریکی بحری بیڑے نشانے پر ہونگے، بین الاقوامی آبناؤں کی بندش کا امکان معرض وجود میں آئے گا، اور سید حسن نصر اللہ کے انتباہ کے مطابق “ایران پر حملہ ریاض اور تل ابیب پر حملے کا مترادف ہوگا”؛ یہ ناقابل انکار حقائق ہیں۔ (6)

جاری ہے…..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابواسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1 – https://www.farsnews.com/news/13980603000028
2- https://www.farsnews.com/news/13980603000055
3- https://www.mehrnews.com/news/4700399
4- https://www.mashreghnews.ir/news/985595.
5- https://www.farsnews.com/razavi/news/13980601000206.
6-  979760، www.mashrghnews.ir