مقدسات کی اہانت اور ہمارا رد عمل (۱)

جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ دونوں ہی اہانت کرنے والوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے اور علماء و دانشور طبقے کے ساتھ عوام نے دونوں ہی کو مسترد کرتے ہوئے دین حق سے اپنی قلبی وابستگی کا واضح طور پر اعلان کیا ہے یہ اور بات ہے کہ حدیث کو غلط انداز میں پیش کرنے کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو وقتی تشویش ضرور ہوئی کہ ہماری کتابوں میں کس قسم کی روایات ہیں جسے علماء نے علمی جواب دیکر کافی حد تک حل کر دیا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حق کا رنگ اتنا ثابت و پائدار ہے کہ ساری دنیا مل کر بھی چاہے تو اسے ہلکا نہیں کر سکتی ، حق کے وجود میں اتنی طاقت ہے کہ کسی ایک حق پرست کے سامنے پورا جہان باطل کھڑا ہو جائے تو بھی اسکا کچھ بگاڑ نہیں سکتا ، حق ہمیشہ پایدار ہے حق ہمیشہ لازوال ہے حق ہمیشہ اپنی جگہ اٹل ہے با طل ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے حق تو اپنی جگہ ہمیشہ مطمئن و پائدار رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب باطل حق کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہو جاتا ہے تو اہانتوں پر اتر آتا ہے ، تاریخ گواہ ہے کہ جب سے اسلام کے آفاقی تعلیمات کا نزول ہوا ہے، تبھی سے اہریمنی طاقتوں کی جانب سے ان کی مخالفت شروع ہو گئی اور اسلامی مقدسات کے مذاق اور انکی توہین کا بازار گرم ہو گیا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور مقدسات کی اہانت کے واقعات سے تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔
گزشتہ صدیوں میں عمومی سطح پر اس اہانت یا کسی معتبر و مقدس شخصیت کے مذاق کی علت کو ممکن ہے اسلامی شخصیات اور مقدسات کے تقدس اور احترام سے اقوام و ملل کی نا آگاہی کے طور پر بیان کیا جائے لیکن ایک نقطہ میں سمٹتی ہوئی دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جو نہ جانتا ہو کہ کس مذہب کے ماننے والوں کے لئے کیا چیز مقدس اور کیا ان کی نظروں میں محترم ہے؟ جس دور میں ایک منٹ کے ہزارویں حصے میں اربوں، کھربوں اطلاعات کے ذخائر برقی لہروں کے ذریعے دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں منتقل ہوجاتے ہیں، اس دور میں کیونکر کسی مذہب کے مقدسات کی بے حرمتی کرنے کے بعد یہ عذر تراشا جا سکتا ہے کہ ہمیں اپنے اس اقدام سے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہماری وجہ سے کسی کے دل آزاری بھی ہو سکتی ہے؟ کیا موجودہ شگفت انگیز ارسال و ترسیل اور ذرائع ابلاغ کے ترقی یافتہ نظام کے باوجود یہ ممکن ہے کہ انجانے میں کوئی ایسا اقدام کیا جائے جس سے کسی مذہب یا خاص فرقے کے ماننے والوں کے جذبات مجروح ہوں؟!۔ جب الکٹرانک میڈیا اور جدید ارسال و ترسیل کے وسائل نے دنیا کو ایک چھوٹا سا دیہات بنا دیا ہے ، ایسی صورت میں یہ احتمال نقطۂ صفر پر پہنچ جاتا ہے کہ انجانے میں اسلام کی عظیم ترین کتاب یا شخصیت کی اہانت کی جائے اور اہانت کرنے والے افراد کو پتہ ہی نہ ہو کہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ اہانت کے زمرے میں آسکتا ہے۔
یقینا آج کے ترقی یافتہ دور میں انسان کسی بھی معروف شخصیت کے بارے میں کچھ کہہ رہا ہے یا کچھ لکھ رہا ہے تو خوب اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ وہ شخصیت کن صفات کی حامل ہے اور الٰہی مکاتب فکر کی نظر میں اس کا مقام کیا ہے۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی توہین اور ہمارا رد عمل :
حال ہی میں حیدرآباد کے نام نہاد بظاہر خود کو مسلمان کہنے والے بوالہوس کی جانب سے جو گستاخی امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی شان اطہر میں ہوئی اسکے بعد سے لیکر اب تک دوست داران اہلبیت اطہار علیھم السلام کے درمیان جو ناراضگی کی لہر پائی جا رہی ہے عاشقان اہلبیت ع کی اپنے عقائد کے سلسلہ سے حساسیت کی دلیل ہے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ علماء و دانشور طبقے کے ساتھ عوام کے ہر ایک دھڑے نے اس گستاخی پر نوٹس لیا اور ایف آئی آر سے لیکر احتجاج و مذمت تک جو ہو سکا سب نے کیا، لائق صد تحسین و آفرین ہیں وہ لوگ جو اس وقت تک احتجاج کرتے رہے جب تک مجرم نے اعتراف جرم کرتے ہوئے اپنی خطا کو تسلیم نہ کر لیا لیکن یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ کیا یہ اہانت حادثاتی ہے یا ملک کے حالات کے پیش نظر بہتی گنگا میں اسلام دشمن عناصر نے ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے اور سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے ہو رہا ہے ۔
کیا حالیہ اہانت ایک حادثاتی واقعہ ہے ؟
جیسے حالات ملک میں چل رہے ہیں اور جو فضا فرزندان توحید کے لئے بنائی جا رہی ہے اسکو دیکھتے ہوئے اس اہانت کو قطعا حادثاتی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اچانک ایک خبط الحواس شخص نے کچھ کہہ دیا ہو بلکہ جو کچھ ملک میں حالات چل رہے ہیں ان حالات کے مد نظر یہ قرین قیاس ہے کہ دانستہ طور پر اس اہانت کے سلسلہ کو رکھا گیا ہے تاکہ وقتا فوقتا اسلامی مقدسات کی اہانت کر کے ایک خاص مذہب کے لوگوں کو مشتعل کیا جائے اور پھر انکے احتجاج کو ملک کی سالمیت کے لئے خطرے کے طور پر پیش کیا جائے الحمد للہ ہمارے جوان بیدار ہیں اور انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ سازشی ذہنوں کے مقاصد پورے ہو سکیں چاہے اپنے ارتداد کا اعلان کرنے والا کوئی انسان نما جانور ہو ہو یا اپنے واضح انحراف کا اعلان کرنے والا مسلمان نما قاطر اس طرح کے افراد دشمنوں کے ہاتھوں کا مہرہ ہیں جنہیں دشمن اپنے مفاد کے لئے استعما ل کرتا ہے اور جب تک کام چلتا ہے ان سے کام چلاتا ہے جب کام نکل جائے گا دودھ کی مکھی کی طرح انہیں نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا ۔
اس طرح کی حرکتوں پر ہم کیا کریں ؟
یہاں پر جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم مختلف حوادث کا تجزیہ کر سکیں سمجھ سکیں کہ کیا ہو رہا ہے اس کے محرکات کیا ہیں ان کے پیچھے کون سے لوگ ہیں ؟ چاہےحالیہ اپنے ارتداد کا اعلان کرنے والے کا معاملہ ہو یا انحراف کے گٹر میں چھلانگ لگانے والے بہروپیے کا، اس بات کو کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں دونوں ہی دنیا پرست اور سستی شہرت کے بھوکے ہیں دونوں ہی اہانت مقدسات کے لئے دشمنان اسلام کا بہترین مہرہ ہیں ایک نے قرآن کی توہین کی رسول رحمت کی شان میں گستاخی کر کے اپنے ارتداد کا اعلان کیا تو دوسرے نے قرآن ناطق کی توہین کر کے اپنی جہالت و اپنے انحراف کا اعلان کیا دونوں کے پیچھے ایک جیسے ہی عوامل کار فرما ہیں جن میں سب سے بڑا عامل جہالت و حماقت ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے ، چنانچہ جس طرح امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ سے حدیث سے غلط مفہوم اخذ کرتے ہوئے غلط ترجمہ کر کے لوگوں کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے کی کوشش کی گئی سب پر واضح ہے اور خاص کر بار بار ایک مرتد شخص کو ایک خاص مذہب سے جوڑنے کی کوشش یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہاں بات نہ سمجھ پانے کا مسئلہ نہیں ہے کہ عدم درک کی وجہ سے مشکل پیش آئی ہو بلکہ بات یہ ہے کہ خاص طور پر ایک فرقے کو دوسرے کے خلاف اکسانا مقصود تھا اسی لئے بار بار قرآن کریم و رسول رحمت کی اہانت کرنے والے شخص کو شیعہ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا جبکہ واضح ہے کہ تیاگی ملعون کا نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی شیعت سے کوئی واسطہ ہے ۔
جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ دونوں ہی اہانت کرنے والوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے اور علماء و دانشور طبقے کے ساتھ عوام نے دونوں ہی کو مسترد کرتے ہوئے دین حق سے اپنی قلبی وابستگی کا واضح طور پر اعلان کیا ہے یہ اور بات ہے کہ حدیث کو غلط انداز میں پیش کرنے کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو وقتی تشویش ضرور ہوئی کہ ہماری کتابوں میں کس قسم کی روایات ہیں جسے علماء نے علمی جواب دیکر کافی حد تک حل کر دیا ممکن ہے کچھ لوگوں کے ذہن میں اب بھی کچھ شبہات ہوں تو علماء حق کی جانب سے دئیے گئے جوابات کو بہت ہی مختصر انداز میں ہم ایک بار پھر پیش کر رہے ہیں۔

جاری