اسرائیلی ریاست کا ڈوبتا ہوا سراہ۔ ۸

مڈل ایسٹ مانیٹر: کیا اسرائیل ایران کے قائد کی پیشین گوئی سے پہلے مٹ جائے گا؟

ایران کے قائد آیت اللہ خامنہ نے سنہ 2015ع‍ میں اعلان کیا کہ "اسرائیل اگلے 25 برسوں کو نہیں دیکھ سکے گا؛ اور مسلمان مجاہدین کا دلیرانہ اور مجاہدانہ جذبہ اس عرصے کا ایک لمحہ بھی اس کو چین و سکون سے نہیں رہنے دیں گے"۔ آیت اللہ خامنہ سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی نے بھی اسرائیل کی نابودی کی خبر دیتے ہوئے اس کو "بہت قریب" قرار دیا تھا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسرائیل فلسطینی علاقوں پر اپنے غاصبانہ اور قابضانہ رویوں کے آغاز کے 74 سال بعد ممکن حد تک انتہائی بدامنی اور غیر محفوظ صورت حال سے دوچار ہے، سیاسی اور سماجی بے چینی نے حکام کی نیندیں حرام کر دی ہیں، اسرائیلی ریاست کے ساتھ وسیع فلسطینی مسلح تصادم کے امکانات روز بروز نمایاں ہو رہے ہیں اور “یہ سارے مسائل اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسرائیل مٹ رہا ہے۔”
مڈل ایسٹ مانیٹر نے اپنی رپورٹ میں غاصب ریاست کی اندرونی کشیدگیوں اور فلسطینیوں کی شدید مزاحمت – بالخصوص سیف القدس نامی کاروائی میں فلسطینی مزاحمت کی طرف سے مقبوضہ علاقوں پر تاریخ کے سب سے بڑے میزائل حملوں – کا جائزہ لیا ہے اور اس صورت حال کو یہودی ریاست کے اختتام کا آغاز اور رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کی اس پیشین گوئی سچ ثابت ہونے کی علامت قرار دیا ہے۔ مڈل ایسٹ مانیٹر نے لکھا ہے:
ایران کے قائد آیت اللہ خامنہ نے سنہ 2015ع‍ میں اعلان کیا کہ “اسرائیل اگلے 25 برسوں کو نہیں دیکھ سکے گا؛ اور مسلمان مجاہدین کا دلیرانہ اور مجاہدانہ جذبہ اس عرصے کا ایک لمحہ بھی اس کو چین و سکون سے نہیں رہنے دیں گے”۔ آیت اللہ خامنہ سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی نے بھی اسرائیل کی نابودی کی خبر دیتے ہوئے اس کو “بہت قریب” قرار دیا تھا۔
اس کے باوجود، موجودہ مرحلے حالات بہت ناگفتہ بہ ہیں، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان نئے تنازعات نے شدت اختیار کی ہے، مسجد الاقصیٰ میں نمازیوں پر اسرائیلی سیکورٹی اداروں کے مسلسل حملے اور تشدد آمیز اقدامات جاری ہیں؛ گذشتہ سال بیت المقدس میں شیخ جراح نامی محلے پر انتہاپسند یہودی نوآبادکاروں کے حملوں اور اس محلے کے باسیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنے کی کوششوں کے جواب میں فلسطینیوں نے بھاری میزائل اور راکٹ حملوں سے جواب دیا ہے۔ اور تل ابیب پر عظیم ترین میزائل حملہ کیا ہے۔ ایسے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران کے قائد کی پیش گوئی حقیقت کا جامہ پہننے کے بالکل قریب ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حتیٰ آیت اللہ خمینی نیز آیت اللہ خامنہ ای کے موقف کے اعلان سے پہلے بھی کئی مشہور شخصیات نے اسرائیلی ریاست کے مستقبل کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ بطور مثال مشہور سفارتکار اور سنہ 1970ع‍ کی دہائی میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنگر – جو یہودی ہیں – نے سنہ 2012ع‍ میں اعلان کیا کہ اگلے 10 سال تک اسرائیل کا نام و نشان تک بھی باقی نہيں رہے گا”؛ (گوکہ ان کے کچھ قریبیوں نے اس پیشین گوئی کا انکار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انھوں نے اپنے موقف کی تردید نہیں کی ہے)۔ کسنگر کے کہنے کے مطابق اسرائیل کو اسی سال (سنہ 2022ع‍ میں) کرہ ارضی سے مٹ جانا چاہئے۔
موجودہ مرحلے میں جاری حالات و واقعات اور اسرائیل کی شدید زدپذیری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی ریاست کا زوال و سقوط اس کے متعصب حامیوں کے خیالات و توہمات سے کہیں زیادہ تیزی سے وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی شین بیٹ (شاباک) کے سابق سربراہ (2005ع‍ – 2011ع‍) یوآل ڈسکن (Yual Diskin) نے اخبار “یدیعوت آحورونوت” میں ایک کالم کے ضمن میں افسوس کا اظہار کیا ہے اسرائیلی ریاست ممکنہ طور پر اگلی نسل (25 سال) تک قائم نہیں رہ سکے گی اور نیست و نابود ہو جائے گی۔ یہ موقف – وہ بھی ایک اعلیٰ صہیونی اہلکار کی طرف سے – ایک لرزہ خیز اور حیران کن موقف ہے۔
ڈسکن کا کہنا ہے: “میں ایران کے جوہری طاقت بننے، حزب اللہ کی میزائل قوت، یا اسرائیل کے خلاف سیاسی اسلام کے رویوں کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں، بلکہ میرا اشارہ آبادیاتی تبدیلیوں اور سماجی اور اقتصادی رجحانات کی طرف ہے جو اسرائیلی ریاست کی نوعیت کو بدل رہے ہیں۔ یہ رجحانات ایک نسل کی مدت (25 برس) میں اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں”۔ مقبوضہ فلسطین میں عرب مسلمانوں کی آبادی اسی وقت یہودی آبادی کے برابر ہو چکی ہے لیکن ڈسکن اپنے غیر حقیقت پسندانہ رویے کے جاری رکھتے ہوئے ضمنی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر کہتا ہے: “تقریبا اگلے چالیس سال کے عرصے میں مقبوضہ سرزمین کی تقریبا 50 فیصد آبادی مسلمانوں اور آرتھوڈاکس یہودیوں پر مشتمل ہوگی اور یہ اسرائیل کی سلامتی کو درپیش انتہائی سنجیدہ خطرہ ہے۔ اس کا بنیادی سبب بھی یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ فوج اور اس سے متعلقہ فعالیتوں میں خدمت کرنے سے معاف ہیں اور دونوں گروہ بہت حد تک صہیونیت کے خلاف ہیں”۔
مقبوضہ فلسطین میں “آبادیاتی ٹائم بم تھیوری” برسوں سے اسرائیلی ریاست کے لئے تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے۔ غزہ کی خالص فلسطینی آبادی، مغربی کنارے کی اکثریتی فلسطینی آبادی، نیز اسرائیلی عرب کہلوانے والے باشندوں کی آبادی – جو مقبوضہ سرزمینوں کی 20 فیصد آبادی کو تشکیل دیتی ہے – اس نظریئے کو مزید تقویت پہنچاتی ہے۔ چنانچہ بہت سے مبصرین کا تجزیہ یہ ہے مذکورہ چیلنجوں کے ہوتے ہوئے، بنیادی طور پر، ان چیلنجوں کے پیش نظر، یہ ممکن نہیں ہے کہ اسرائیل کی اکثریتی آبادی بھی یہودیوں کی ہو اور پھر اسی اثناء میں جمہوری ڈھانچہ بھی قائم رکھا جاسکے۔ یہ درحقیقت اسرائیل کے “اس طرح کی ریاست” بننے کی آرزو کے خاتمے کے مترادف ہے۔
اس سے پہلے بھی مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے عربوں نے بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے کرکے غزہ اور مغربی کنارے میں اپنے مسلم عرب بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے رہے ہیں جن کی تصاویر بھی شائع ہوئی ہیں، اور یہ تصور ہی اسرائیلی ریاست کے خوف اور بے چینی کا سبب رہا ہے کہ کہیں وہ بھی مسلح ہو کر مقاومت کا حصہ نہ بن جائیں؛ [لیکن 2022 کی ابتداء سے ایسی خبریں بھی آنا شروع ہوئی ہیں کہ وہاں کے کچھ لوگ یا مسلح ہوئے ہیں یا پھر چھریوں اور چاقؤوں سے مسلح ہوکر صہیونیوں کے خلاف کاروائی بھی کر چکے ہیں]۔
یہ مسئلہ خاص کر سنہ 2014‍ع‍ میں اسرائیل کے خاتمے کے لئے رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے پیش کردہ نو (9) نکاتی منصوبے کے بعد زیر غور آیا ہے۔ ایران کے رہبر انقلاب نے اس بارے میں خاص طور پر زور دیا ہے کہ “مغربی کنارے کو غزہ کی پٹی کی طرح ہتھیاروں سے لیس ہونا چاہئے”؛ اور آج اس منصوبے پر عملدرآمد کی نشانیاں مغربی کنارے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ہم نے واضح طور پر دیکھا کہ اسرائیل کے غلط رویوں کے جواب میں مقاومت نے صہیونیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ان کے ٹھکانوں پر تاریخ کا سب سے بڑا میزائل حملہ کیا۔ ایک واقعے میں صرف پانچ منٹ میں فلسطینیوں نے 137 میزائل مقبوضہ علاقوں پر داغے اور ہم سب نے ویڈیو تصاویر میں تل ابیب پر گرنے والے فلسطینی میزائلوں کی بارش کے مناظر دیکھ لئے۔
یہی نہیں بلکہ سینکڑوں میزائلوں کے مقبوضہ علاقے میں اترنے سے اسرائیل کے “آئرن ڈوم” نامی میزائل شکن نظام کی شکست بھی پہلے سے زیادہ عیاں ہوئی۔ ابتدائی حملے میں مقاومت کے داغے ہوئے سات میزائلوں میں سے صرف ایک کو اس سسٹم نے مار گرایا اور باقی اپنے نشانوں پر لگے۔ یہاں تک کہ بہت سے فوجی ماہرین نے حماس کی قوت کو خراج تحسین پیش کیا اور آئرن ڈوم کو فریب دینے کی حماس کی ٹیکنالوجی کو لائق توجہ ٹہرایا۔ نہ صرف آئرن ڈوم ناکام ہو گیا بلکہ ادھر صہیونی حکام کا بھی یہی حال تھا اور جو کچھ ہؤا وہ ان کی پیشین گوئیوں اور توقعات کے مطابق نہ تھا۔ انہیں فلسطینیوں کے پاس ہزاروں میزائلوں کی موجودگی اور پھر ان سینکڑوں میزائلوں کے مقبوضہ علاقوں کی طرف داغے جانے کی توقع نہ تھی۔ اسرائیلیوں کے لئے ان سے بھی زیادہ خفت آمیز واقعہ یہ تھا کہ انھوں نے مقبوضہ علاقوں میں مبینہ طور پر گذشتہ تین دہائیوں کی سب سے بڑی جنگی مشقوں کا اعلان کیا تھا جس کو مقاومت کے میزائل حملوں نے روک لیا۔ اور اس سے بھی زیادہ خوفناک مسئلہ – جس نے اسرائیلیوں کے لئے صورت حال کو مزید نازک کردیا ہے – یہ کہ اسرائیل کے خلاف مقاومت کی تمام تحریکیں متحد ہو چکی ہیں جیسا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، حزب اللہ لبنان اور یمن کی انصار اللہ تحریک، نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں فلسطینی مجاہدین کے خلاف شانہ بشانہ لڑیں گے۔
سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ گذشتہ دو سالوں میں چار مرتبہ پارلیمانی انتخابات ہوئے اور اب ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار پارلیمان کی تحلیل اور نئے انتخابات کا اعلان ہونے والا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے زعماء ایک دوسرے کی موت سے کم پر راضی ہوتے نظر نہیں آتے، اور یہ صورت حال بجائے خود کسی ریاست کے ٹوٹنے کے لئے کافی ہوتی ہے، اور معاشی صورت حال بھی یہ ہے کہ عربوں کی امداد بھی کارگر نہیں ہے اور اسرائیلی ریاست کو اپنی بقاء کے لئے ہمہ جہت طور پر امریکی امداد پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر کے سابق ڈپٹی چک فریلش (Chuck Freilich) اس بارے میں کہتا ہے: “اسرائیل کو درپیش اس سے بھی زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکی امداد کے بغیر اسرائیلی فوج ایک خالی اور کھوکھلے ڈھول سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ خوفناک نکتہ اسرائیل کے لئے یہ ہے کہ امریکی حکومت موجودہ دور میں اپنے بنیادی اور اہم مفادات کو مشرق وسطیٰ میں نہیں بلکہ مشرقی ایشیا میں دیکھ رہا ہے، اور اسرائیل کو دی جانے والی امداد کو کم کرنا چاہتا ہے اور اپنے مالی ذرائع کو یہاں خرچ کرنے کے بجائے چین کے ساتھ اپنے تزویراتی تقابل پر خرچ کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ صورت حال مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے موقف اور پوزیشن کو بہت حد تک کمزور کر سکتی ہے، اور ایک لحاظ سے “مستقبل قریب میں اسرائیل کی نابودی اور زوال” کی نوید ہو سکتی ہے۔
من حیث المجموع اسرائیلی ریاست اپنی غاصبانہ رویوں کے آغاز کے 74 سال بعد امن و امان کی بدترین صورت حال سے گذر رہی ہے اور اس کے اندرونی سیاسی اور سماجی کشیدگیاں اور دوسری طرف سے فلسطینیوں کے ممکنہ مسلحانہ اقدامات اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں کہ یہ ریاست رو بہ زوال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔