فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جنگ بندی پر منتہی ہونے والی یہ کامیابی صرف حماس کی نہیں تھی بلکہ ایران، لبنان، یمن اور عراق کی بھی تھیں، جو 15 ماہ تک فلسطینی مزاحمت کے شانہ بشانہ غزہ کی پٹی میں نتانیاہو کے عزائم کے خلاف کھڑے رہے۔
فارس پلس: اس سے پہلے کہ حالیہ جنگ بندی نافذ ہو، اسرائیل میں سبھی نتانیاہو کے خلاف ہو چکے تھے۔ ان کے نزدیک نتانیاہو کا حماس کے ساتھ معاہدہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی شکست اور اپنے اعلان کردہ مقاصد میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں ناکامی کا واضح ثبوت تھا۔
نتانیاہو، جو پچھلے 15 ماہ کے دوران مسلسل اپنے اہداف کے حصول تک جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتے رہے اور جنگ بندی کے تمام مواقع ضائع کرتے رہے، اب اس جنگ بندی کو قبول کرنے پر مجبور ہو گیے جو امریکہ نے اپنے بھر پور تعاون کے ساتھ غزہ پر مسلط کی تھی۔
امریکہ کے نئے صدر کو نتانیاہو کی جنگوں کا مزید بوجھ برداشت نہیں تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ جنگ کافی پہلے ختم ہو جانی چاہیے تھی، خاص طور پر اس وقت جب لبنان کے محاذ پر جنگ شروع ہوئی اور علاقے میں تبدیلیاں رونما ہوئیں، جیسے دمشق کا زوال۔
ٹرمپ کے خیال میں وہ لمحہ کامیابیاں حاصل کرنے کا بہترین وقت تھا، اور اگر اس وقت کامیابی حاصل ہوتی تو امریکہ خطے کی صورتحال کو بہتر انداز میں قابو میں کر سکتا تھا اور اسرائیل کی عسکری کامیابیوں کو مضبوط کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ، ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو محدود کیا جا سکتا تھا، حالانکہ اس مقصد کے حصول کے لیے لبنان، شام اور عراق میں طاقت کے ڈھانچے کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت تھی۔
ٹرمپ کے نقطہ نظر سے، یہ بات اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ اس مقصد کے مقابلے میں – چاہے وہ حاصل ہو سکے یا نہ ہو، یا ایران اور اس کے علاقائی اتحادی اس پر کیسا ردعمل دیں – نیتن یاہو اور ان کی انتہا پسند کابینہ کو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اگرچہ ٹرمپ نے خود کو ہر دوسرے امریکی صدر سے زیادہ صیہونی نواز ظاہر کیا ہے، لیکن ان کی سوچ اور نقطہ نظر اپنے پیشرو بائیڈن جیسا نہیں ہے۔ ٹرمپ کے لیے یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ اس جنگ کے نتیجے میں نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس شکست کی سو فیصد ذمہ داری نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے اپنے اہداف کا معیار اتنا بلند رکھا کہ ان کا حصول ممکن ہی نہیں تھا۔
ایک جملے میں، نتانیاہو اور ان کے ساتھی وہ نتائج فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں جو امریکہ چاہتا ہے، جیسے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا، تاکہ سعودی عرب کے علاوہ دیگر عرب ممالک کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ، اسرائیلی کابینہ میں ایتمار بن گویر، بیزلیل سموٹریچ، اور امیحای الیاہو جیسے افراد کی موجودگی سعودی عرب کو، جو پہلے ہی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کے باعث عوامی دباؤ میں ہے، مزید مشکل میں ڈال دے گی۔
اب سعودیوں کا لہجہ بھی، جو جنگ کے ان مہینوں میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش رہے تھے اور امارات سے اردن تک ایک زمینی راستہ کھولنے کی کوشش میں تھے تاکہ یمنیوں کی بحری ناکہ بندی کو توڑ سکیں اور اسرائیل کی ضروریات پوری کر سکیں، نیتن یاہو کے حوالے سے زیادہ سخت اور سنجیدہ ہو گیا ہے۔
یہ لہجے کی تبدیلی اس بات کی عکاسی نہیں کرتی کہ سعودیوں کے مؤقف میں کوئی بنیادی تبدیلی آئی ہے، بلکہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ خطے میں ٹرمپ کے مطلوبہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں، خاص طور پر جب وہی شخص دوبارہ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے والا ہے جس نے 2017 میں محمد بن سلمان کا سعودی عرب کی ولی عہدی کے لیے راستہ ہموار کیا تھا۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایسا نہیں لگتا کہ نتانیاہو کے پاس مزید کوئی موقع بچا ہے، خاص طور پر جب وہ کرپشن کے مقدمات کے علاوہ اب “طوفان الاقصیٰ” آپریشن میں ناکامی کا بوجھ بھی اٹھا رہے ہیں۔
تاہم، یہ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نتانیاہو جیسا شخص، جو زوال سے بچنے اور خود کو بچانے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے، یقینی طور پر گر جائے گا۔ بعید نہیں کہ وہ اپنی ناکامیوں کا کچھ بوجھ بن گویر پر ڈال دے اور اپنی کابینہ کو بچانے کے لیے بائیں بازو کے ساتھ اتحاد کر کے انہیں کچھ مراعات دے۔
نتانیاہو کی صورتحال جو بھی ہو، جنگ کا نتیجہ اب تک حماس اور فلسطینی مزاحمت کے لیے کامیابی کا باعث بنا ہے۔ اگرچہ اس کامیابی کے لیے غزہ کے عوام نے 15 ماہ تک ناقابل بیان تکالیف اور مصائب برداشت کیے۔
جنگ کے بعد غزہ کی صورتحال جو بھی ہو، چاہے حماس غزہ پر حکمران نہ رہے یا اپنی عسکری صلاحیتیں دوبارہ تعمیر نہ کر سکے، اس کے دو اہم نتائج سامنے آئے ہیں:
پہلا، یہ کہ مزاحمت کا راستہ ایک بار پھر سب سے مؤثر راستہ ثابت ہوا۔
دوسرا، یہ کامیابی صرف حماس کی نہیں تھی بلکہ ایران، لبنان، یمن اور عراق کی بھی تھی۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں