فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سید حسن نصراللہ ان غیر معمولی علما ء میں سے ایک تھے جو امام خمینیؒ کے مکتب میں تربیت پائے اور اس کے بعد رہبر معظم انقلاب کے مکتب میں اپنی شخصیت کو کمال تک پہنچایا۔ ابھی چند روز پہلے تک ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ہم یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ جیسے ققنوس (Phoenix) اپنی راکھ سے دوبارہ جنم لیتا ہے، ( ایک افسانوی پرندہ جس کے کئی جنم ہوتے ہیں )وہ بھی ضاحیہ (بیروت) سے سر اٹھائیں گے، اپنی مخصوص سکون بھری مسکراہٹ کے ساتھ اسٹیج پر آئیں گے، اور ہم ہمیشہ کی طرح ان کی تقریر سننے کے لیے ٹی وی اسکرین سے نظریں نہیں ہٹائیں گے۔ لیکن افسوس، اتوار کے روز ہم نے ان آرزوؤں کو ان کی مطہر پیکر کے ساتھ ہی مٹی کے سپرد کر دیا، اور اپنی آنکھوں، دلوں اور کانوں کو اس نوید سے تسلی دی کہ وہ امام زمانہ (عج) کے ہمراہ ظہور کے وقت لوٹ کر آئیں گے۔
اے غزہ کے معصوم بچوں کے محافظ!
ہم اس طویل فراق کو برداشت نہیں کر سکتے۔ خدا کی عزت و شرف کی قسم! اے دین خدا کے سچے محافظ اور مقاومت کے چراغ، ہمیں زیادہ دیر انتظار میں نہ رکھو۔ اب جب کہ تم اپنے مولا کے حضور عزت و قرب حاصل کر چکے ہو، ان سے دعا کرو کہ وہ جلد ظہور کریں تاکہ ہمارا دوبارہ ملنا ممکن ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ تم لوٹ کر آؤ گے!
عصر حاضر میں روحانیت کا نمونہ
شہید سید حسن نصراللہ ہمارے دور کے مثالی عالم دین تھے، وہی نمونہ جسے پیر جماران (امام خمینیؒ) نے اپنی تاریخی “منشور روحانیت” میں بیان کیا تھا۔ نصراللہ نے 40 سال تک صہیونی مجرموں کے خلاف ایک ناقابل تسخیر دیوار بن کر کھڑے رہے۔ وہ سورہ فصلت کی آیت 30 کے کامل مصداق تھے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
“بے شک، جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اس پر ثابت قدم رہے، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں: خوف نہ کرو، غم نہ کھاؤ، اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔”
یہ الٰہی وعدہ سید نصراللہ اور ان کے وفادار ساتھیوں کے لیے سچ ثابت ہوا۔ بیروت میں ہونے والے بے مثال جنازے نے ثابت کر دیا کہ وہ لاکھوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ لوگ جو جنازے میں شریک نہ ہو سکے، وہ مساجد، حسینیہ اور عاشور خانوں میں بیٹھ کر ملائکہ کے ساتھ ان کے لیے اشک بہا رہے تھے۔
حقیقی روحانیت کا استعارہ
ان دنوں میڈیا میں سید مقاومت کے لیے جذباتی تحریریں لکھی جا رہی ہیں، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اسی مکتب کے شاگرد تھے جسے امام خمینیؒ نے قائم کیا۔ منشور روحانیت کا اجرا بھی انہی دنوں ہوا تھا جب نصراللہ کی تشییع جنازہ ہو رہی تھی، اور یہی منشور حقیقی علماء کی شناخت کے لیے ایک روشن چراغ ہے۔
اگر ہمیں نصراللہ کی شخصیت کا خلاصہ کرنا ہو تو یہ کہنا کافی ہوگا:
“وہ حقیقی اسلامی روحانیت کے مثالی نمونہ، الٰہی عالم دین، اور خالص محمدی (ص) اسلام کے حقیقی نمائندے تھے۔”
امام خمینیؒ اور منشور روحانیت
امام خمینیؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں “منشور روحانیت” میں حقیقی علماء کی دو اقسام کو واضح کیا:
الٰہی، متعہد اور مجاہد علماء جو اسلام ناب محمدی (ص) کے محافظ اور ظالموں کے خلاف قیام کرنے والے ہوتے ہیں۔
تحجر یا تجدد کے شکار علما، جو یا رجعت پسند ہوتے ہیں یا مغرب زدہ، مگر دونوں ہی باطل کے دو پہلو ہیں۔
سید نصراللہ، حقیقی علمائے ربانی کے نمونہ
امام خمینیؒ نے حقیقی علمائے دین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
“سلام ہو ان علماء پر جو اپنی علمی اور عملی رسالہ کو شہادت کی روشنائی سے تحریر کرتے ہیں۔
مبارک ہو ان پر جو عافیت و مصلحت پسندی کے ساتھ درس و بحث کو ترک کر کے حق کی دعوت کے لیے پہلی قربانی دیتے ہیں،
جن کا خاتمہ شہادت پر ہوتا ہے،
جو اپنی روحانی مناجاتوں میں شہادت کی آرزو رکھتے ہیں،
اور جو اللہ کے حضور خلوص کے ساتھ صرف شہادت کی عطا مانگتے ہیں۔”
سید حسن نصراللہ انہی الٰہی علماء میں سے تھے، جنہوں نے اپنی چالیس سالہ زندگی کو مقاومت کے لیے وقف کر دیا، اور بالآخر اپنی قربانی سے اسلام اور محور مقاومت کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
سید مقاومت کی بے نظیر مقبولیت اور امام خمینیؒ کا منشور روحانیت
اس بے مثال جنازے کے بعد، جس کی نظیر کسی عرب معاشرے میں نہیں ملتی، شہید سید حسن نصراللہ کی محبوبیت اور اثر و رسوخ لبنان، ایران اور عرب ممالک سے آگے بڑھ کر اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ ان کی شہادت نے ان کے اثر کو عالمی سطح پر مزید گہرا کر دیا ہے۔
امام خمینیؒ نے منشور روحانیت میں اس الٰہی محبوبیت کا راز یوں بیان کیا ہے:
“یہ لوگ زہد، تقویٰ اور ریاضت کے ساتھ علم حاصل کرتے ہیں۔ علمی اور روحانی درجات پر پہنچنے کے بعد بھی وہ اسی زاہدانہ طرزِ زندگی پر قائم رہتے ہیں۔ وہ فقر اور سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور کبھی کسی کے زیرِ بار احسان یا ذلت نہیں جاتے… نہ ان کے پیچھے طاقتور حکمرانوں کی تلوار تھی، نہ دولت مندوں کی سرمایہ کاری، بلکہ ان کا اپنا اخلاص، سچائی اور قربانی تھی جس نے انہیں لوگوں کا محبوب بنایا… قناعت، شجاعت، صبر، زہد، علم کی طلب، طاقتوں سے آزادی، اور سب سے بڑھ کر عوام کے لیے احساسِ ذمہ داری، یہی وہ خصوصیات ہیں جنہوں نے روحانیت کو زندہ، مستحکم اور محبوب بنا دیا ہے۔”
سید مقاومت کی شہادت
کتنا حسین ہے کہ ہمارے عزیز امام خمینیؒ نے سید مقاومت کی تقدیر اور انجام کو پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔
یہ وہی سید تھے جو ان روحانیوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنے 18 سالہ بیٹے کو لبنان کے جنوبی علاقوں کی آزادی کے لیے قربان کر دیا تھا۔ یہ 1997 کی بات ہے، یعنی جنوبی لبنان کی آزادی سے تین سال قبل۔
اور آخرکار، مہر 1403 (اکتوبر 2024) میں، انہوں نے اپنی زندگی کی آخری مہر بھی اپنی شہادت کے ساتھ ثبت کر دی،
وہ بھی صرف ایک بم سے نہیں، بلکہ 85 ٹن وزنی بموں سے، جو صہیونیوں کے بنکر شکن بم تھے۔
یہی وہ لمحہ تھا جب صہیونیوں کی بے بسی اور درندگی ہمیشہ کے لیے تاریخ کے حافظے میں محفوظ ہو گئی۔
زندگی بھر مسلسل جہاد
شہید نصراللہ نے اپنی 32 سالہ قیادت میں ایک رات بھی سکون سے نہیں گزاری۔
وہ 21 سال کی عمر میں، حضرت امام خمینیؒ کے حکم سے حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل بنے۔
اور تب سے، وہ دو محاذوں پر مسلسل برسرپیکار رہے:
داخلی محاذ:
وہ ان عناصر کے خلاف لڑتے رہے جو شیعہ، سنی اور مسیحی اختلافات کو ہوا دے کر لبنان میں خانہ جنگی کروانا چاہتے تھے۔
وہ ان سازشوں کو ناکام بناتے رہے جو حزب اللہ کو غیر مسلح کر کے لبنان کو بیرونی دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتی تھیں۔
صہیونی دشمن کے خلاف محاذ:
وہ لبنان کے دفاع کے لیے بے خوف کھڑے رہے اور کبھی آرام کا لمحہ بھی نصیب نہ ہوا۔
سال 2000 میں، انہوں نے جنوبی لبنان سے صہیونیوں کو ذلیل کر کے نکالا۔
2006 کی 33 روزہ جنگ میں، انہوں نے اسرائیل کو تاریخی شکست دی۔
اکتوبر 2023 سے، وہ غزہ کے مظلوم عوام کے دفاع میں اپنی جان کی بازی لگا چکے تھے،
اور بالآخر اکتوبر 2024 میں، وہ اس دنیائے فانی سے پرواز کر گئے، مگر لاکھوں، بلکہ کروڑوں دلوں کو اپنا سوگوار چھوڑ گئے۔
سید مقاومت کی راہ کی صداقت
سید حسن نصراللہ کی سچی اور زاہدانہ زندگی کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ دیگر مذاہب اور مکاتب فکر کے عظیم شخصیات بھی ان کی مدح میں مرثیے کہہ رہے ہیں۔
شیخ خالد الملا (عراق کے اہل سنت علما کے سربراہ) ان کی شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے روتے ہیں:
“اب تم نصراللہ سے اور کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے اپنا بیٹا قربان کر دیا، اپنا جگر گوشہ قربان کر دیا۔ وہ چالیس سال تک ایک مضبوط قلعے کی طرح صہیونی ظالموں کے خلاف ڈٹے رہے۔ ان پر 85 ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا گیا۔ تم جانتے ہو کہ 85 ٹن بموں کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ یہ وہ خوف ہے جو صہیونیوں کو نصراللہ سے تھا! اے امتِ اسلام! وہ تمہیں اور کیا دیتے؟
اگر نصراللہ دنیا پرست ہوتے، تو وہ لندن، لاس اینجلس یا کسی اور مغربی ملک میں آسائش بھری زندگی گزارتے، وہ یوں شہید نہ ہوتے!
لیکن وہ زہرا (س) کے فرزند تھے۔ وہ زندگی گزار سکتے تھے اور ان کے مخالفین انہیں سب کچھ دینے کے لیے تیار تھے،
لیکن وہ عزت اور کرامت کو ہماری امت اور ہمارے مقدسات کے لیے چاہتے تھے!
نصراللہ کو اپنے دلوں میں بساو ۔”
روحانیت کی محبوبیت اور سید نصراللہ کی حقیقی ترجمانی
یہی وہ محبوبیت ہے جسے امام خمینیؒ نے روحانیت کے لیے ضروری قرار دیا تھا، اور سید نصراللہ اس اصلی پیغام کے حقیقی ترجمان تھے۔
وہ ایک ایسےشاگرد تھے جنہوں نے امام خمینیؒ سے جغرافیائی فاصلہ ہونے کے باوجود ان کے پیغام کو سمجھا اور اس پر عمل کیا۔
جبکہ بعض لوگ جو خود کو امام کے قریبی ساتھی سمجھتے تھے، وہ ایسا راستہ اختیار کر گئے جو امام کے منشور روحانیت کے خلاف تھا۔
اسی وجہ سے، آج یہ لوگ عوام میں منفور ہیں، جبکہ سید نصراللہ کی محبوبیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تبصرہ کریں