نظام ولایت قوموں کو صبر اور استحکام عطا کرتا ہے: علامہ جواد نقوی
حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی
مدیر جامعه العروۃ الوثقیٰ
مسجد بیت العتیق
لاهور پاکستان
۲۵ اکتوبر، ۲۰۲۴
خطبہ نمبر 1: نظام ولایت قوموں کو صبر اور استحکام عطا کرتا ہے
خطبہ نمبر 2: ظالم کیوں اس قدر مطمئن ہیں کہ وہ جتنا بھی ظلم کریں مسلمان خاموش رہیں گے؟
تقویٰ کا دائرہ اتنا وسیع ہے جتنا زندگی کا دائرہ وسیع ہے انسانی زندگی کا ایک رخ اپنی تمامتر وسعت کے ساتھ حیات دنیوی ہے اور دوسرا رخ حیات اخروی ہے دنیوی زندگی گرچہ ہم گزار رہے ہیں لیکن اس کی حقیقت کا ادراک نہیں کر رہے ہیں اور صرف ہم نہیں بلکہ دیگر جاندار جیسے حیوان بھی جو مادی زندگی گزار رہے ہیں وہ بھی اس زندگی کا ادراک نہیں رکھتے اگر وہ ادراک کرنا بھی چاہیں تو بھی نہیں کر سکتے چونکہ انہیں یہ قابلیت ہی نہیں دی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اس حیات مادی کے ساتھ اس کے ادراک کا فہم بھی دیا گیا ہے قابلیت ادراک رکھتے ہوئے بھی اگر انسان حقیقت حیات کا ادراک نہیں کرتا تو وہ جانوروں سے بدتر ہے۔ اور قرآن کا اعلان ہے کہ ’بل ھم اضل‘ یہ انسان جو عقل و فہم و ادراک رکھنے کے باوجود اپنی حیات کی حقیقت کا ادراک نہیں کرتا تو یہ انسان جانوروں سے بھی بدتر ہے۔
انسانی زندگی کا دوسرا مرحلہ حیات اخروی ہے اور اس کا ہم نے بالکل نقشہ ہی بگاڑ دیا ہے حیات دنیوی سے اس کا رابطہ ہی کاٹ دیا ہے حیات دنیوی کو ہم نے حیوانی زندگی میں تبدیل کر دیا اور حیات اخروی کا ہم نے افسانہ بنا دیا آسمانی کتابوں اور الہی انبیاء کی اتنی رہنمائی کے باوجود حیات اخروی کو ہم صرف ایک افسانہ کے طور پر سمجھے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے اوپر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔
قرآن کی تعبیرات کے مطابق یہ دنیوی زندگی نشئت اولیٰ اور اخروی زندگی نشئت اخریٰ ہے۔ یعنی یہ زندگی پہلا مرحلہ ہے اور وہ زندگی دوسرا مرحلہ ہے ان دونوں میں انسان کی زندگی کے تحفظ کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہترین انتظام بھی کیا ہے چونکہ اگر آپ باقی موجودات کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ دیگر مخلوقات کی ہر صنف کو خود اپنی صنف سے خطرہ نہیں ہے گائے کو گائے سے خطرہ نہیں ہے بھیڑوں کو بھیڑوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے البتہ بھیڑیوں سے خطرہ ہے، خود بھیڑیوں کو ایک دوسرے خطرہ نہیں ہے درندوں کو دوسرے درندوں سے خطرہ نہیں ہے، انسان واحد مخلوق ہے جسے خود انسان سے خطرہ ہے۔ بلکہ انسان کو دوسرے انسان سے پہلے خود اپنی ذات سے، اپنے نفس سے اور اپنی خواھشات سے خطرہ ہے، مجھے سب سے زیادہ مجھے اپنے نفس سے خطرہ ہے اس لیے جو دعائیں سکھائی ہیں جیسے یہ دعا ہے ’نعوذ باللہ من شرور انفسنا و سیئات اعمالنا‘۔ انسان اپنے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے خود اپنے آپ سے بچنے کا نام جہاد اکبر ہے اور اس کے بعد اپنی صنف سے انسان کو کتنا خطرہ ہے اس کی تو کوئی انتہا نہیں۔ جتنا انسانوں نے انسانوں کو مارا ہے اتنا نہ کسی بھیڑیے نے مارا نہ کسی اور جانور نے مارا۔ خلقت کے وقت جو فرشتوں نے اللہ سے کہا تھا کہ یہ انسان خون خرابا کرے گا وہ انسان کی اسی درندگی کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ یہ زمین پر جا کر خون بہائے گا، اس نے خون بہایا ہے اور جی بھر کر بہا رہا ہے اور جب انسان کو خود اپنے آپ سے خطرہ ہو تو اس کے لیے اپنی حفاظت کتنا ضروری ہے۔ لہذا اللہ نے تقویٰ اسی لیے رکھا ہے کہ انسان اس کے ذریعے اپنی حفاظت کر سکے۔
اور پھر تقویٰ کو حیات طیبہ کے حصول کے لیے زینہ اور سیڑھی بنایا ہے ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے حیات طیبہ کا تصور دے دیا ہو اور اس کے بعد اس کی تلاش خود انسان کے ذمہ چھوڑ دی ہو بلکہ حیات طیبہ کے مقام تک پہنچنے کا راستہ بھی بتایا ہے اور وہ ہے ایمان اور عمل صالح۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ
یہ حیات طیبہ دنیوی بھی ہے اور اخروی بھی ہے دنیوی حیات طیبہ اخروی حیات طیبہ کا مقدمہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مثال بھی دی ہے کہ اس کی مثال شجرہ طیبہ کی ہے جس کی جڑیں ثابت ہیں اور اس کی شاخیں آسمان میں بلند ہیں، جو ہر آن پھل دیتا ہے۔
یہاں پر ہم نے حیات طیبہ کے بہت سارے مصادیق تسلیم کئے ہوئے ہیں جو بے ثمر اور بے سود ہیں۔ مثال کے طور پر ایسی کچھ مقدس شخصیات جو بےثمر ہوتی ہیں۔ شہید مطہری فرماتے ہیں امت کے لیے ایک بڑی رکاوٹ مقدس شخصیات ہیں جن کے پیچھے ساری انسانیت صفیں لگا کر رکی ہوئی ہے جو بے ثمر درخت کی طرح ہیں شہید مطہری ایسی شخصیات کو غیرذمہ دار شخصیات کا نام دیتے ہیں جن کا نام تو بہت بڑا ہوتا ہے لیکن ذمہ داری کوئی بھی اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے۔ آج کے دور میں آپ دیکھیں کتنی بزرگ شخصیات موجود ہیں لیکن غزہ مٹ گیا ہے خاک میں مل گیا ہے احساس ذمہ داری نہیں ہے، لبنان ختم ہو رہا ہے کوئی احساس ذمہ داری نہیں ہے کشمیر ہضم ہو گیا ہے کوئی احساس ذمہ داری نہیں، ہندوستان کا مسلمان بے آبرو ہو گیا ہے لیکن کوئی احساس ذمہ داری نہیں، شہید مطہری کے بقول یہ ڈیم کے آگے بنی ہوئی دیوار کے مانند ہیں جو پانی کو روکتی ہے ساری قوم ان شخصیات پیچھے رک جاتی ہے ان سے آگے نہیں بڑھتی اور ان کو شجرہ طیبہ بھی سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ کیسا شجرہ طیبہ ہے جو پھل ہی نہیں دیتا، قرآن نے شجرہ طیبہ تو وہ بتایا ہے جس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ کوئی طاقت اور کوئی طاغوت اس کو ہلا نہ سکتا، اور وہ پھل اور ثمر دیتا ہے جو درخت بے ثمر ہوتا ہے وہ شجرہ خبیثہ ہوا کرتا ہے۔
قرآن کی رو سے مومن معاشرہ اور سماج جو شجرہ طیبہ ہے اس کو ثبات چاہیے شجرہ طیبہ پائیدار اور مستحکم ہوتا ہے زمین پر کٹا ہوا پڑا درخت شجرہ طیبہ نہیں ہو سکتا۔ ثبات شجرہ طیبہ کی بنیادی شرط ہے۔ اور یہ پائیداری قول ثابت کے ذریعے مومن معاشرے کو حاصل ہو گی، قول ثابت کے بغیر کسی بھی مومن معاشرے کو ثبات نہیں مل سکتا۔ مومن معاشرہ قول ثابت کو چھوڑ کر کسی دوسرے طریقے سے ثبات حاصل کرنا چاہے جیسے پاکستان تو اسے کیا کرنا چاہیے؟۔ استحکام پاکستان کے نام پر ہم نے قرآن کو چھوڑ کر باقی سب کچھ کیا ہے ہر در کی ٹھوکر کھائی ہے اب تو ذاکر نائک جیسے علماء کو بلوا کر ہم نے پاکستان میں استحکام لانے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان میں معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے وہ بڑی حد تک ناکام ہو چکی ہے۔ اگرچہ پاکستان کا یہ امتیاز ہے کہ پاکستان کو قول ثابت سب سے پہلے سمجھ میں آیا۔ پاکستان کو 1930 میں علامہ اقبال کی کوششوں کے ذریعے قول ثابت ملا، جو کہ 1962 میں شروع ہونے والی اسلامی انقلاب کی تحریک سے پہلے تھا لیکن امام خمینی نے اس قول ثابت کے ذریعے 1979 میں ایران کو ثبات عطا کر دیا۔ اگرچہ ایرانیوں کے پاس بھی پہلے سے قولِ ثابت تھا، لیکن امام خمینی کے سامنے آنے تک اسے اجاگر نہیں کیا گیا۔ علامہ اقبال نے 1930 میں پاکستانیوں کو اللہ کے نظام کے بارے میں آگاہ کیا تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ وہ اس سے پہلے اس بات کی طرف متوجہ نہیں تھے بلکہ اس سے پہلے بھی انہوں نے اپنے مختلف اشعار کے ذریعے بیان کیا لیکن ایک منشور کے طور پر انہوں نے قول ثابت اور نظام اسلامی کو 1930 میں بیان کیا۔ اس کے بعد تقریباً ایک صدی بیت چکی ہے جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نظر نہیں آیا۔ استحکام کی تلاش کے لیے، قولِ ثابت پر بھروسہ کرنے کے بجائے متبادل راستے تلاش کیے گئے۔ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے صدارتی دور میں علامہ اقبال کے حوالے سے تہران میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ڈھائی گھنٹے کی غیر معمولی تقریر کی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایرانی علماء نے اقبال کے افکار کو جلد پھیلانے کی کوشش نہیں کی اورانہوں نے اس نظر اندازی کو غداری قرار دیا۔ اپنے ہم وطنوں سے مایوس ہو کر، علامہ اقبال نے ایرانیوں سے فارسی میں خطاب شروع کیا اور انہیں ایک ایسے رہنما کی پیشین گوئی کی جو انہیں ظلم کی زنجیروں سے آزاد کروا دے گا۔ ایران میں اقبال کے افکار کو سب سے پہلے متعارف کرانے والے ڈاکٹر علی شریعتی تھے جنہوں نے اقبال کو ایک بصیرت اور انقلابی رہنما کے طور پر پیش کیا۔ ایرانیوں نے قول ثابت کو قبول کیا، جس سے عالمی مخالفت کے باوجود ایک مضبوط اور مستحکم نظام قائم ہوا۔ اور آج پوری دنیا اپنا ہر طرح کا حربہ استعمال کر کے اس نظام کو گرانا چاہتی ہے لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔
قرآن مجید کی مختلف آیات ثبات اور پائیداری پر گفتگو کرتی ہیں جن میں سے چند ایک طرف اشارہ کرتا ہوں:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (انفال، 45)
اے صاحبان ایمان جب تمہارے مقابلے میں کوئی گروہ آئے تو ثابت قدم رہو، دشمنوں کے گروہ کا سامنا کرتے وقت آپ کو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہے، یعنی آپ کو پیچھے نہیں ہٹنا ہے مضبوط اور مستحکم رہنا ہے۔ سورہ اسراء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ ہے کہ اے رسول اگر اللہ آپ کو ثابت قدمی نہ دیتا تو آپ ان کی طرف کچھ جھکاؤ رکھتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اللہ نے آپ کو استقامت عطا فرمائی تھی۔ سورہ نحل میں اللہ کی سب سے بڑی طاقت کو “روح القدوس” کہا گیا ہے جو کہ مومنوں کو مضبوطی عطا کرتی ہے۔ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا، اور اس مدد سے اللہ ثبات دے گا۔
جب ثبات اور استحکام آ گیا تو اللہ کی طرف سے تمام مدد آ گئی۔ طالوت کا مشہور واقعہ جب ایک چھوٹے گروہ کا ایک بڑے گروہ سے مقابلہ ہوا تو طالوت کے ساتھ چھوٹے گروہ کے لوگ جالوت کے بڑے لشکر کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے۔ جیسا کہ آج پاکستانی کہتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کا مقابلہ کرنا حماقت ہے۔ اللہ کا قانون ہے کہ وہ بڑی طاقتوں کو تباہ کرنے میں ایک چھوٹے سے گروہ کی مدد کرے گا۔ وہ کون سی بنیادی چیز تھی جس کے ذریعے طالوت نے جالوت کو شکست دی۔ طالوت کے گروہ میں سے دو افراد نے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا یہ فارمولا اپنایا اور پھر اللہ سے ان کے لیے ثابت قدمی اور پائیداری کی دعا کی۔ یہ وہ ہتھیار ہے جس سے وہ فتح یاب ہوئے۔ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چھوٹا گروہ کس قدر مضبوطی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایورسٹ اور کیٹو جیسے پہاڑ بھی حماس اور حزب اللہ کے سامنے شرمندہ ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے ثبات پر گفتگو کی ہے کہ شجرہ طیبہ کی اصل بنیاد ثبات ہے جس سے مومنین کی جماعتیں مستحکم اور کامیاب ہو سکتی ہیں۔ اور اللہ تعالٰی یہ ثبات قولِ ثابت کے ذریعے عطا فرماتا ہے۔ جب ثبات آتا ہے تو کمزوری دور ہوجاتی ہے۔ آج پاکستان کے پاس اسلحہ تو بہت ہے لیکن اس مسلم سپر پاور کا موقف بہت کمزور ہے۔ وہ دو ریاستی راہ حل پیش کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اسرائیل بھی ایک ریاست ہے لیکن فلسطین کو بھی ایک چھوٹا سا اسٹیٹ بنانے کا حق ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود آپ کا اتنا کمزور موقف ہے۔ شمالی کوریا نے امریکہ کو نکیل کر رکھا ہوا ہے جبکہ وہ سپر پاور ہے۔ ٹرمپ سرحد پر شمالی کوریا کے لیڈر سے ملنے گئے تھے۔ شمالی کوریا کے پاس کیا ہے؟ وہ معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ ان کے ارد گرد چین، روس، جاپان جیسے طاقتور ممالک ہیں۔ پاکستان افغانستان کو بھی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ ہمارے رہنما، علماء افغانستان سے دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کی بھیک مانگتے ہیں۔ آپ اتنے کمزور پڑوسی کو قابو نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ تم طاقتور نہیں ہو کیونکہ طاقت ثبات سے آتی ہے اور ثبات قول ثابت سے آتا ہے۔ اور یہ اللہ کی طرف سے مکمل منشور ہے۔ جو ثقافتی رسومات ہم مذہب کے نام پر کرتے ہیں وہ اللہ کا منشور نہیں ہے اللہ کا بنایا ہوا نہیں۔ یہ رسومات ہم نے بنائے ہیں اور یہ ثقافتی سرگرمیاں ثبات نہیں دیتیں۔ عید یا رمضان میں جو چیزیں ہم پکاتے ہیں وہ ہمارے بنائے ہوئے ثقافتی اصول ہیں نہ کہ اللہ نے یہ بتایا ہے کہ ان مواقع پر کیا کھانا چاہیے۔ اللہ نے ہمیں جو کچھ دیا ہے ہم نے اس میں سے اپنے حساب سے چھانٹ لیا ہے۔
اللہ نے زندگی کا نظام بنایا ہے۔ تعلیم بذات خود قول ثابت نہیں ہے اگر وہ نظام پیدا نہ کرے۔ کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے چار ایم اے کر لیے ہیں لیکن پھر بھی تم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو۔ کچھ ایسی باتیں ہیں جو ایسے لوگ بولتے ہیں جن سے آپ کو امید نہیں ہوتی کہ وہ یہ کہہ سکتے ہیں۔ دنیا کے اس امیر ترین شخص ایلن ماسک نے گزشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ایک حصے کے طور پر ایک کالج کا دورہ کیا تھا۔ اس نے کالج سو طلبہ سے کہا کہ آپ لوگ کالج میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو کیونکہ اس تعلیم سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس نے کہا کہ تم یہ ساری ڈگریاں لینے کے بعد کچھ کام کرنے کے لیے بنک سے قرضہ لینے نکلو گے۔ اس نے کہا کہ کامیابی اس میں نہیں بلکہ کسی تجربہ کار کے ساتھ رہنے میں ہے۔ اس نے کامیابی کا راز بتایا کہ کسی تجربہ کار کے ساتھ رہنا اور اس سے کامیاب ہونے کا ہنر سیکھنا کامیابی کی کنجی ہے۔ ایسے شخص کا یہ بیان بہت حیران کن ہے۔
ثبات اگر تعلیم سے آتا تو 70 سال ہم نے تعلیمی نصاب پڑھا ہے ثبات نہیں آیا مجاہدین حماس نے کتنا عرصہ نصاب پڑھا ہے مجاہدین حزب اللہ نے کہاں نصاب پڑھا، ثبات اللہ تعالیٰ نے نظام میں رکھا ہے نصاب میں نہیں۔ نصاب پڑھ کے اگر اللہ کے نظام کی طرف کوئی قدم نہ اٹھایا تو کبھی ثبات نہیں آئے گا۔ ولایت کا نصاب صدیوں سے ہے لیکن نظام ولایت آج تک لاگو نہ ہو سکا۔ جب تک ولایت نصاب سے نکل کر نظام میں نہیں آئے گی تو ثبات نہیں آئے گا۔ نصاب ولایت تو پاکستانیوں سے زیادہ کس نے پڑھا ہو گا لیکن ثبات کیوں نہیں آیا۔
شجرہ طیبہ کامیابی کا درخت ہے جو ثبات سے آتا ہے۔ حیات طیبہ قول ثابت سے آتی ہے جو ولایت اور امامت کے نظام کے ذریعے عطا کی جائے گی، حیات طیبہ نظام ولایت و امامت کا پھل اور نتیجہ ہے۔
خطبہ 2
تقویٰ کے بغیر زندگی حیوانیت ہے اور آج کی انسانیت اس کی گواہ ہے۔ تقویٰ کے بغیر آج لوگ درندے ہیں اور ان کی درندگی کو ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ اس مذہب کا نتیجہ ہے جس میں تقویٰ کا فقدان ہے۔ جو شخص تقویٰ کے بغیر ہو مسلمان ہو یا غیر مسلم اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ صیہونی اور ان کے اتحادی جیسے مغرب، امریکہ، ہندوستانی ریاست، عرب خیانتکار، سب درندے ہیں۔ دوسرا گروہ خاموش تماشائی ہے۔ ایک چھوٹا گروہ ہے جو ان کا مقابلہ کر رہا ہے اور کچھ وہ ہیں جو آواز اٹھا رہے ہیں اور عملی اقدامات کر رہے ہیں جو اقلیت میں ہیں۔
اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اہانت آمیز اور عاجزانہ بیانات دیتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہمارے وزیر اعظم نے فلسطین کے کچھ طلباء کو میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ دیا اور پھر ان کے ساتھ ایک تصویر بنوا کر کہا کہ عالمی برادری جرائم نہیں روک رہی۔ آپ خود عالمی برادری ہیں۔ آپ نے صہیونیوں کے اتحادیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں جو جرائم کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ اور آپ کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہیں ہیں جو اس معرکے میں پیش پیش ہے۔ یہ معرکہ فیصلہ کن ہے جہاں منافق، کافر، ظالم سچے مومنوں سے جدا ہو رہے ہیں۔ صالحین اور غیر صالحین کے درمیان فاصلہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک یہ علیحدگی نہیں ہو جاتی اور پھر اللہ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔
ہمارا ملک معاشی، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے خود کو بے بس سمجھتا ہے۔ یہ رسوائی ہے بے بسی نہیں۔ دوسرے لوگوں اور علماء کو کیا مشکل ہے؟ کیا آپ نے بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے؟ پارلیمنٹ، حکومت اور سیاستدان نہیں بول رہے تو آپ کو بولنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ شروع میں انہوں نے بائیکاٹ کی آواز بلند کی۔ اگر آپ بائیکاٹ کرتے تو یہ پیپسی، کوک وغیرہ پاکستان میں نظر نہ آتے۔ اگر آپ اسے ختم کر سکتے تو اس کا بہت بڑا اثر ہوتا۔ جو لوگ بائیکاٹ کہتے ہیں ان کی میز پر وہی اسرائیلی چیزیں ہیں۔
7 اکتوبر کو مکمل خاموشی چھائی رہی۔ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن پارٹی نے اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے احتجاج شروع کر دیا۔ حکومتی لوگوں نے ایک ذلت آمیز دو ریاستی حل پیش کرنے کے لیے ایک کانفرنس بلائی۔ یہ پرجوش، جہادی کیوں آواز نہیں اٹھا رہے ہیں۔ اگر پاکستانی قوم اور علماء ہی آواز اٹھائیں تو ہم فلسطین کا مسئلہ ختم کر سکتے ہیں۔ اگر صرف سو ملین سڑکوں پر نکل آئیں تو اسی دن اس جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ اسرائیلیوں کے پاکستان میں تجارتی مراکز، بینک، کمپنیاں، ادارے ہیں جن کی ہمیں اجازت نہیں دینی چاہیے۔ وہ پاکستان سے کما رہے ہیں اور فلسطین پر بم گرا رہے ہیں۔ اگر چوبیس گھنٹے ان کا محاصرہ کریں تو یہ جنگ ختم ہو جائے گی۔ دشمن اس بات پر مطمئن ہیں کہ ہم مسلمان جتنا بھی ظلم کریں مسلمان نہیں بولیں گے۔ یہ خاموش ٹولہ جوابدہ ہے کہ اسرائیل، امریکہ آپ سے اتنا مطمئن کیوں ہے کہ آپ آواز نہیں اٹھائیں گے۔ ہم روز سنتے ہیں کہ شہداء، حماس، حزب اللہ کی قائدین شہید ہو رہے ہیں اور ہم صرف اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد ہر جگہ فلسطین کے جھنڈے لگا دیں تو یہ کارآمد ہوگا کیونکہ میڈیا کی وجہ سے یہ چیزیں پہنچ جائیں گی۔ وہ ہماری خاموشی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ خاموشی کیوں ہے یہ بہت درد بھری کہانی ہے۔ پاکستانیوں نے جب بھی کسی کے لیے آواز اٹھائی تو کہیں سے کوئی نہ کوئی فنڈنگ آ رہی ہوتی تھی۔ آج جو خاموش ہیں تو لگتا ہے کہ انہوں نے کوئی گندگی کھا لی ہے۔ آج فلسطین سوال کر رہی ہے کہ تم نے کون سا زہر پی لیا ہے؟ اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خاموش رہو گے تو تمہارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا۔ کربلا کے بعد تین سالوں میں مدینہ اور مکہ کی حرمت کو انہی ظالموں نے انتہائی سفاکانہ انداز میں پامال کیا۔ مدینہ میں تین دن تک عورتوں کی عفت سے کھیلنا جائز ہو گیا۔ یہ کربلا پر خاموش رہنے کا غضب تھا۔ پاکستان میں صیہونیت پاکستان کے مختلف اداروں میں بڑھ رہی ہے اور ایسی صہیونی سوچ کے لوگوں نے یہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بعض علماء نے تو پہلے یہ کہا تھا کہ ہمیں اسرائیل کو قبول کرنا چاہیے۔ بن سلمان نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے تو یہ علماء بھی تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا پاکستان میں حسینی مر چکے ہیں؟ ہمیں ثبوت دینا ہے کہ پاکستان میں حسینیت زندہ ہے۔ ہمیں پیش کرنا چاہیے کہ ہم کوفی شیعہ نہیں ہیں کیونکہ کوفیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ حسینی، زینبی، علوی، فاطمی شیعہ ہیں تو خاموش نہیں رہیں گے۔ ان شہداء کی طرف سے ہماری گردنوں پر یہ حق ہے کہ ہم ان کے لیے کم سے کم آواز اٹھائیں۔
تبصرہ کریں