نیتن یاہو کی واپسی اور صیہونی رژیم کے زوال میں تیزی (2)نیتن یاہو کی واپسی اور صیہونی رژیم کے زوال میں تیزی (2)

اسرائیل کی موجودہ اوقات اور پوزیشن مکمل طور پر بناوٹی اور جعلی ہے۔ اسرائیل ہر گز ایک سپر پاور نہیں ہے۔ اسرائیل ناقابل شکست طاقت بھی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی طاقت ہے جسے عوامی جدوجہد سے شکست دی جا سکتی ہے۔

گزشتہ سے پیوستہ

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: توقع کی جاتی ہے کہ بنجمن نیتن یاہو روس کے مقابلے میں یوکرین کی زیادہ شدت سے حمایت کریں گے جس کا نتیجہ روس اور اسرائیل کے تعلقات میں مزید بگاڑ اور تناو کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اس کا منطقی نتیجہ روس کی جانب سے زیادہ شدت سے شام کی حمایت کی صورت میں نکلے گا کیونکہ شام روس کا اتحادی ہونے کے ناطے عالمی سطح پر نیا چند طرفہ ورلڈ آرڈر تشکیل دینے میں اس کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے روس، شام اور دیگر امریکہ مخالف ممالک مشرق وسطی میں ایک مضبوط امریکہ مخالف محاذ تشکیل دینے کیلئے کوشاں ہیں۔ نیتن یاہو اپنی شدت پسندانہ سیاست کے ذریعے مشرق وسطی کے مسائل حل کرنے میں بڑا کردار ادا کریں گے۔ ان کے اقدامات کی بدولت کالا مزید کالا اور سفید مزید سفید ہو جائے گا۔

لہذا ایسی صورت میں کوئی بھی گرے باقی نہیں بچے گا۔ فلسطین کی حد تک بنجمن نیتن یاہو یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ زیادہ طاقتور ہیں اور آہنی ہاتھ رکھتے ہیں جس کے ذریعے سابق وزیراعظم کے دور میں وسعت اختیار کر جانے والی مزاحمت کو کچل سکتے ہیں۔ وہ خود کو ایسا طاقتور حکمران ظاہر کرنے کی کوشش کریں گے جو اسلامی مزاحمت کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہذا توقع کی جاتی ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جائے گی۔ اس کا اصل مقصد ایک طرف نیتن یاہو کی طاقت ثابت کرنا اور دوسری طرف اسرائیلی معاشرے میں جاری اختلافات اور تنازعات کو حل کرنا ہو گا۔

لیکن اس کا نتیجہ ہر گز اسلامی مزاحمت کی نابودی کی صورت میں نہیں نکلے گا اور فلسطینی عوام چپ کر کے بیٹھ نہیں جائیں گے۔ اسی طرح اسلامی مزاحمتی گروہ بھی جنگ بندی کی جانب راغب نہیں ہوں گے۔ بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے طاقت کا زیادہ استعمال ہر گز فلسطین میں عوامی اتحاد، ان کی آگاہی اور مزاحمت کے رجحان میں حالیہ شدت اور توسیع کو روک نہیں پائے گا۔ بلکہ نتیجہ برعکس ظاہر ہو گا اور مجھے امید ہے کہ فلسطینی قوم کے خلاف طاقت کا زیادہ استعمال اور خون آلود وحشیانہ پن مزاحمت کی بھڑکتی آگ کو مزید شعلہ ور کرے گا اور مزاحمت پر اصرار بھی بڑھ جائے گا۔ مزید برآں، جوانوں اور غیر جوانوں کو مسلح جدوجہد اور قابض قوتوں کے خلاف جہاد کی جانب دھکیل دے گا۔

قابض قوتیں جو اپنا تعادل اور توازن کھو دیں گی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جرات بھی ختم ہوتی جائے گی۔ کیونکہ ترازو کا پلڑا ایک طرف جھک جائے گا اور اسرائیل ہر گز نہیں سمجھ سکے گا کہ فلسطینی عوام اس پر اگلی ضرب کہاں لگائیں گے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت بھی متزلزل باقی رہے گی اور ان کے اپنے اتحادیوں سے اختلافات، چاہے وہ کابینہ کے اندر ہوں یا اس سے باہر، میں بھی مزید شدت آئے گی۔ اس عرصے میں ہم مزاحمت کی شدت اور وسعت میں اضافے کا مشاہدہ کریں گے جو آخرکار اس حکومت کے ٹوٹ کر زوال پذیر ہو جانے کا باعث بنے گی۔ موجودہ حالات میں بنجمن نیتن یاہو کا برسراقتدار آنا ایسے ہی ہے جیسے وہ ایک ایسی عمارت میں داخل ہوئے ہوں جس کی دیواریں گر چکی ہیں اور اس کے ستون ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہوں۔

ہر لمحہ اس عمارت کے مسمار ہو جانے کا خوف لاحق ہے۔ لہذا ایک طرف فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندی میں اضافہ اور دوسری طرف امریکہ اور روس سے نیتن یاہو کے اختلافات ان کی حکومت بہت جلد ختم ہو جانے کا باعث بنیں گے۔ اس حکومت کا گر جانا اسرائیل کے ٹوٹ کر بکھر جانے کا آغاز ثابت ہو گا اور یہ ملک دشمن وحشی جانوروں کے ریوڑوں کی صورت اختیار کر جائے گا۔ عین ممکن ہے ان مخالف دھڑوں کے درمیان مسلح جنگ بھی شروع ہو جائے اور یہ صورتحال اسلامی مزاحمتی قوتوں کیلئے ایک سنہری موقع ثابت ہو گا۔ ایسی صورتحال میں تمام اسلامی مزاحمتی گروہ آپس میں متحد ہو کر درست منصوبہ بندی کے تحت موثر اقدام انجام دے سکتی ہیں۔ یہ موثر اقدام حتی اس عمارت کو مکمل طور پر مسمار بھی کر سکتا ہے۔

ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو حتمی شکست دینے اور اسے اپنی اوقات یاد کروانے کیلئے یہ سنہری موقع میسر آ رہا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ اوقات اور پوزیشن مکمل طور پر بناوٹی اور جعلی ہے۔ اسرائیل ہر گز ایک سپر پاور نہیں ہے۔ اسرائیل ناقابل شکست طاقت بھی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی طاقت ہے جسے عوامی جدوجہد سے شکست دی جا سکتی ہے۔ جب بھی فلسطینی عوام خود کو محاصرے کا شکار عوام سے ایسی عوام میں تبدیل کر لیں گے جو اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کا محاصرہ کرنے اور اس کی فورسز کو نکال باہر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، وہ صیہونی رژیم کی حتمی شکست اور نابودی کا وقت ثابت ہو گا۔