پروفیسر میریام کوک کا تعارف
فاران؛ چند سال پہلے امریکہ میں یہودی مصنف ڈیوڈ ہاروویٹز (David Horiwitz) کی کتاب بعنوان “101 خطرناک پروفیسر” (101 Dangerous Proffesors in America) شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع 101 امریکی پروفیسروں کا تعارف ہے جن کا جرم یہ ہے کہ اپنی کلاسوں میں ہالوکاسٹ اور یہودیت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی دوسری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو خبردار کیا گیا کہ “چونکہ ان لوگوں نے سرخ لکیروں کو عبور کرلیا ہے، چنانچہ ان کی کاوشوں سے استفادہ نہ کیا جائے؛ [گویا وہ کہنا چاہتے تھے کہ] جب آزادی لامحدود ہوجائے تو خود خطروں کا باعث بنتی ہے اور آخرکار یہ آزادی مخدوش ہوجائے گی۔ ذیل کا متن یہودیوں کے ہاں کے 101 خطرناک پروفیسروں میں سے ایک، یعنی پروفیسر مریم (میریام) کوک (Miram Cooke)، کے تعارف پر مشتمل ہے۔
پروفیسر مریم کوک
– ادارہ: ڈیوک یونیورسٹی (Duke Universitry) شمالی کیرولینا
– تدریسی منصب: ایشیائی اور افریقی زبان و ادب کے استاد
– عالمی فعالیت: مشرق وسطی کے مطالعات نسوان نامی ادارے کی سیکریٹری ہیں
– سیاسی خیالات: وہ اسرائیل کو 11 ستمبر کے واقعے کا مجرم سمجھتی ہیں
پروفیسر مریم کوک ڈیوک یونیورسٹی کے مسلم نیٹ ورکس سے متعلق تحقیقات میں جدید عربی ادب و ثقافت کی پروفیسر ہیں۔ یہ بائیں بازو کے افکار پر مبنی ادارہ ہے جو “دہشت گردی کے خلاف [نام نہاد] امریکی جنگ” کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ وہ ایک بین الاقوامی ادارے یعنی ” مشرق وسطی کے مطالعات نسوان” نامی ادارے کی سیکریٹری ہیں۔ یہ ادارہ شدت کے ساتھ امریکہ کی قیادت میں “نیو امپریلزم” کے خلاف ہے۔
پروفیسر کوک – نو کتابوں کی مصنفہ کے طور پر – امریکہ کی ناجائز اور چند رُخی خارجہ پالیسیوں کو 11 ستمبر 2001ء کے واقعے کا اصل سبب گردانتے ہوئے کہتی ہیں: “11 ستمبر 1948ء کی خلیج فارس کی جنگ کا تسلسل ہے جو امریکہ اور مغربی طاقتوں نے اسرائیل کے قیام کے لئے لڑی تھی۔ سرد جنگ بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے اور یہ تسلسل علاقے میں مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں سے فکرمندی، تشویش اور خوف و ہراس کی دلیل ہے”۔ افغانستان کو امریکی عوام کی آنکھوں سے دور، اذیتیں پہنچائی جارہی ہیں۔ یہ امریکی پالیسیوں کی عکاسی کا خطرناک نتیجہ ہے۔۔۔ جو کچھ ہم نے 11 ستمبر کے واقعے میں دیکھا کہ قلع قمع کرنے کے ایک سلسلے کا جواب تھا۔۔۔ افغانوں نے اپنے غصے اور نفرت کی تلوار کا رخ سرکار کی طرف موڑا۔ وہ [امریکی] بڑی آسانی سے سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کو دین کی مختلف سطوح میں داخل کردیتے ہیں اور انہیں لفظ “اسلام” کے سانچے میں رکھتے ہیں، اور اس عمل سے حاصل ہونے والی مصنوعات در حقیقت “مذہب اور عسکری پسندی” کا آمیزہ ہیں”۔
واضح رہے کہ پروفیسر کوک کے اس تجزیے کے برخلاف، 11 ستمبر کے حملوں میں شریک دہشت گردوں میں سے کوئی بھی افغانی شہری نہیں تھا بلکہ وہ سب سعودی شہری تھے۔
پروفیسر کوک دہشت گردی کے خلاف جنگ کو – انسانی ہمدردی کی باتوں کو سیاسی امور اور عسکری اقدام سے جوڑنے کے عمل کے طور پر – مذموم سمجھتی ہیں۔ “کیا یہ ہمہ جہت لڑائی، ان صحرانشینوں کا مکمل قتل عام کرکے، دہشت گردی کے بجائے امن و آشتی قائم کرنے کے لئے ہے؟”
گویا کہ پروفیسر کوک کہنا چاہتی ہیں کہ “ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایک نسل کُش قوم تھی [ماضی میں]”۔
پروفیسر کوک “ما بعد استعمار” تعلیمی مارکسیت” کے نظریے کی حامی ہیں۔ یہ محض “جدید استعمار پسندی” کے لئے ایک فنکارانہ اصطلاح ہے جو ماؤازم (Maoism) کے پیروکاروں اور 1960ء کے عشرے کے دوسرے مارکسسٹوں کی ایجاد کردہ اصطلاح ہے جس کے قائل افراد اور گروپوں کا دعوی ہے کہ اگرچہ ممکن ہے کہ نوآبادیاں اپنی رسمی شکل میں باقی نہ رہے لیکن ہنوز غیر رسمی اقتصادی استعمار باقی ہے اور رائج ہوچکا ہے جو تیسری دنیا کو غربت سے دوچار کرکے تباہ کررہا ہے۔
اسلامی حقوق نسوان (Islamic Feminism) کی ترویج کی قائل ہیں جو ایک دوہرا معیار ہے جو مسلم ممالک کو عورتوں پر ظلم روا رکھنے کی کھلی چھٹی دیتا ہے۔ اسلامی فیمینزم کا خیال ہے کہ مسلم خواتین کو اپنے محدود مذہبی اور ثقافتی ماحول کے اندر سے سماجی تبدیلی کا اہتمام کرنا چاہئے۔ ان افکار کی رو سے، مغربی قوتیں محض استعماری قوتیں سمجھی جاتی ہیں اور ان کی مداخلت – خواہ مسلمان خواتین سمیت مسلم عوام کے فائدے میں ہی کیوں نہ ہو – ناقابل قبول ہے۔۔۔ یہ وہ منطق ہے جو پروفیسر کوک – جو کہ مسلم خاتون مصنفین، سرگرم مسلم سماجی و سیاسی خواتین اور مسلم خاتون دانشوروں کی حامی ہیں – کو افغانستان میں طالبان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں کی مخالفت پر آمادہ کرتی ہے، (حالانکہ طالبان حکومت بالخصوص خواتین کی نسبت انتہائی ظالم حکومت تھی)؛ اور باعث بنتی تھی کہ مشرق وسطی میں جمہوریت کے قیام کی مخالفت کریں۔ اگرچہ عورتوں کو طاقتور اور بااختیار بنانا پروفیسر کوک کے نزدیک – جو ہنوز خواتین کے لئے مختلف تعلیمی کورسز کا اہتمام کرتی ہیں – مثبت امر ہے۔ ظاہرا ان کا خیال ہے کہ اگر مغربی کوششیں خواتین کی حریت پسندی میں گھل مل جائیں، تو یہ آزادی نہیں ہوگی، بلکہ استعماری دور کے بعد کا ظلم و ستم ہے۔ چنانچہ پروفیسر کوک اور ان کے ہم مسلک افراد امریکی مداخلت کے زیادہ حامی تھے نہ کہ طالبان کے تسلط سے خلاصی کے؛ چنانچہ یہ بات ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ افغانستان کی خواتین دائمی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لی جائیں۔
پروفیسر کوک نے مورخہ 26 مارچ سنہ 2003ء کو جان ہوپ فرانکلن مرکز (John Hope Franklin) میں عراق کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے، اس دلیل کو مسترد کیا کہ افغان جنگ، افغان خواتین کی آزادی کی لئے شروع کی گئی ہے۔ انھوں نے صدر بش کی زوجہ لورا بش کی طرف سے افغان خواتین کے درد و رنج کے اظہار کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ان کی طرف سے افغان خواتین کے کی حمایت پر مبنی ریڈیو پیغام پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا کہ “لورا بش نے اس روش سے [امریکہ] کا استعماری منصوبہ آگے بڑھاتے ہوئے اپنے ذاتی جنسیاتی تصور کو عالمی تشویش کے طور پر پیش کیا ہے”۔ پروفیسر کوک کا خیال ہے کہ امریکی راہنما خواہ ان کاموں کو انجام دیں، خواہ انجام نہ دیں، بہرصورت مجرم ہیں۔
پروفیسر کوک افغان شہروں کے نواح میں القاعدہ کے دہشت گردوں کے کیمپوں کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ انھوں نے 2004 میں انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لئے ایک کروڑ افغانیوں کی رجسٹریشن کی طرف بھی اشارہ نہیں کیا جن میں 40 فیصد خواتین تھیں۔
پروفیسر کوک “مشرق وسطی میں جمہوریت کے قیام کے کیمپین” کو غیر معتبر سمجھتی ہیں کیونکہ اس کیمپین کی قیادت مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ وہ تقریبا اسی طرح کی دلیل کے سہارے عراق میں امریکی جنگ کے خلاف ہیں اور ان کی پیشن گوئی یہ ہے کہ “اس جنگ کے نتیجے میں عراقی خواتین کا انجام مارچ 1991ء سے بہتر نہ ہوگا جب انہیں عراق کے جنوب سے نکال باہر کیا گیا اور سعودی عرب کے کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئیں اور پھر انہیں وہاں سے بیرونی ممالک میں جلا وطن کیا گیا۔ حالانکہ [کتاب “101 خطرناک پروفیسر کے مصنف ڈیوڈ ہاروویٹز کے بقول] یہ واقعہ رونما نہيں ہؤا اور عراق اور افغانستان سے تارکین وطن کی تعداد جنگ سے پہلے سے کہیں زیادہ کم ہوئی۔ عراقی خواتین صدام کی زیادتیوں والے کمروں میں قید نہيں ہیں اور ان کے شوہروں کو نصف شب اسیر نہیں کیا جاتا۔ بہار سنہ 2004ء میں، عراقی کابینہ میں چھ خواتین کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین نے اس ملک میں کافی ترقی کی ہے۔ لیکن پروفیسر کوک کے نزدیک ان تمام امور کی اہمیت کم از کم امریکی امپریلزم کے خلاف جدوجہد جتنی نہیں ہے۔
پروفیسر کوک نے اپنے پیشہ ورانہ دور میں وسیع سطح پر “جہادِ نسوان” کے بارے میں وسیع سطح پر لکھا ہے۔ نومبر 2003ء میں ویلیسلی کالج (Wellesley college) خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اس تصور کی تشریح کی اور کہا: “یہ جنگ ایک “اسلام پسند حکومت” کے قیام کے لئے نہیں بلکہ ایک اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے ہے”۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ عالم اسلام میں خواتین کا کردار کے لئے ضروری ہے کہ وہ معاشرے کی توجہ کو جنگ کے نتائج پر مرکوز کروا دیں نہ کہ تشدد کی حمایت پر۔ اس کے باوجود پروفیسر کوک نے اپنی امن پسندی کو اپنے جمہوری! ملک کے لئے محدود کرکے رکھا ہے۔ وہ اسلامی دہشت گردوں کے لئے تشدد کی ضرورت کو سمجھتی ہیں جیسا کہ وہ اس “تشدد کو اس معاشرے کا دفاع سمجھتی ہیں جو اجنبی افراد کے حملوں کا نشانہ بنے”۔
فطری امر ہے کہ اسرائیل کے غیر فوجی لوگ بھی پروفیسر کوک کے “جہاد نسوان” کا مناسب نشانہ ہونگے۔ جب جنوری 2000ء میں ایک 27 سالہ فلسطینی خاتون “وفا ادریس” نے ایک خودکش حملے میں ایک اسی سالہ شخص کو ہلاک کیا، تو پروفیسر کوک نے خواتین اور جنگ کے تجربے کے بارے میں رسالہ لکھا؛ لیکن انھوں نے اس واقعے کو اپنے نظریۂ کائنات کے حوالے سے جائز قرار دیا اور سامراجیوں کو اس واقعے کا مجرم قرار دیا۔ انھوں نے کہا: “ہم میں سے ان لوگوں کے لئے – جو عام عربی شعبوں میں خواتین کے کردار کے لئے فکرمند ہیں، یہ بات ناامید کرنے والی ہے کہ عرب خواتین کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مقابلے میں، قدیم سامراجیوں کے مقابلے میں اور اپنے مَردوں کے مقابلے میں طاقتور بننے کوشش کرنا پڑ رہی ہے، اور حالات اس قدر دشوار ہوچکے ہیں کہ عرب خواتین کو جنگ میں شرکت کرنا پڑ رہی ہے؛ اور یہ مطلق ناامیدی کی علامت ہے”۔ البتہ [ان کے نزدیک گویا] بم بردار خاتون کے کوائف ناامیدی کے خلاف ہیں۔ [اسٹیل ول کے مطابق] یہ خواتین اپنے قاتلانہ اقدامات کے ذریعے جنت کے حصول کے درپے ہیں؛ وفا ادریس مکمل طور پر ناامید تھیں لیکن اسرائیلیوں کے لئے نہیں؛ انہیں شوہر نے گھر سے نکالا تھا اور اس سے طلاق لے چکی تھیں؛ کیونکہ ان کا پہلا فرزند سقط ہوچکا تھا۔ وفا ادریس ایسے معاشرے میں بالکل ناامید تھیں جس میں عورت کو شوہر کا مال سمجھا جاتا ہے، اور اس بات کا جدید یا قدیم استعمار سے کوئی تعلق نہیں بنتا!
پروفیسر کوک اپنے تعلیمی کورسز کے علاوہ ڈیوک یونیورسٹی کے مسلم نیٹ ورکس کے مطالعات کے شعبے (Study of Muslim Networks) میں بھی بہت سرگرم ہیں اور سنہ 2003ء – 2004ء کے تعلیمی سال کے کورسز میں تمہیدی اسلامی مطالعات میں شریک تھیں۔ وہ سنہ 2002ء میں طلبہ کے ایک گروپ کو لبنان لے گئی تھیں اور حالیہ برسوں میں مختلف مقام فلمی میلوں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ پروفیسر کوک ڈیوک طلبہ کو اسلامی ثقافت اور خواتین کے ساتھ تعلق کا تجربہ حاصل کرنے کی روش سکھانے میں کافی کامیاب رہی ہیں؛ لیکن ان کے شاگردوں کو حقوق نسوان کے بارے میں سیکھنے کے بجائے، امریکہ کی طرف سے دنیا کی خواتین پر ظلم و ستم اور عالم اسلام کی خواتین پر ظلم کی امریکی حمایت کے سلسلے میں جھوٹے افواہوں کی بنیاد پر سیکھنا پڑ رہا ہے!
………..
تحقیق: سینامون سٹل ویل (Cinnamon Stillwell)
ترجمہ: ابو اسد
تبصرہ کریں