پروفیسر ڈیوڈ کول کا تعارف
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: پروفیسر ڈیوڈ کول نے فلوریڈا یونیورسٹی میں “آزادی اور شہری آزادیاں، 11 ستمبر 2001 کے بعد” کے عنوان سے اپنے شاگردوں کو ایک لیکچر دیا جس میں انھوں نے جنوبی فلوریڈا یونیورسٹی کے پروفیسر اور شمالی امریکہ میں فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے راہنما پروفیسر سامی الآریان (Sami al-Arian) کا ہمہ جہت دفاع کیا جن پر الزام ہے کہ انھوں نے مشرق وسطی میں ایک خودکش حملہ کروایا تھا جس کے نتیجے 100 افراد مارے گئے تھے۔
حالیہ برسوں میں ڈیوڈ ہورو ویٹز (David Horowitz) نے “101 خطرناک پروفیسر” (1) نامی کتاب لکھی جنہیں تدریس کے وقت یا کتابوں میں ہالوکاسٹ اور یہودیوں کے بارے میں بولنے اور لکھنے کی پاداش میں “خطرناک” قرار دیا ہے۔ اس کتاب کے ساتھ ساتھ دوسری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو خبردار کیا گیا کہ چونکہ ان پروفیسروں نے سرخ لکیر سے عبور کر لیا ہے، ان کی کاوشوں سے استفادہ نہ کریں اور یہ کہ جب آزادی لامحدود ہوجاتی ہے، تو یہ مسائل پیدا کرتی ہے”۔ ذیل کی سطور میں پروفیسر ڈیوڈ کول (Prof. David Cole) – جو 101 مبینہ خطرناک پروفیسروں میں سے ایک ہیں – کا تعارف یعقوب لیکسن (Jacob Laksin) کے قلم سے، پیش کیا جارہا ہے۔..
پروفیسر ڈیوڈ کول (Professor David Cole)
جارج ٹاؤن یونیورسٹی (Georgetown)
– جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں قانون کے استاد
– انتہا پسندانہ سرگرمیوں کے وکیل؛ جو دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کی وکالت کرتے رہے ہیں!
– ان کا خیال ہے کہ “دہشت گرد ہماری آزادیوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ نہیں ہیں بلکہ یہ خطرہ ہماری حکومت کے رد عمل کی وجہ سے وجود میں آتا ہے”۔
ڈیوڈ کول جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اور بائیں بازو کے جنگ مخالف دھڑے کے وکیل اور ممتاز کارکن ہیں۔
پروفیسر کول جارج ٹاؤن میں اپنے “قومی سلامتی اور شہری آزادی” کورس کے لئے مشہور ہیں۔ اس کورس میں “ہنگامی حالات میں کانگریس، صدر اور عدلیہ کا متعلق کردار” (2) جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ “غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانا”؛ اور “احتیاطی [تسدیدی] حراست، نگرانی کے معیارات، (3) دشمن کے جنگجو، فوجی عدالتیں، بین الاقوامی عدالتوں کا کردار، اور تقریر اور تصور کی ترسیل کے درمیان اعتدال” کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
ان تمام موضوعات میں پروفیسر کول کی رائے پس پردہ نہیں ہے۔ پروفیسر کول مرکز برائے آئینی حقوق (4) کے رکن وکلاء میں سے ایک ہیں؛ جو کہ ایک [لیکسن کے بقول] انتہا پسندانہ شہری آزادیوں کے لئے قائم کردہ گروپ ہے۔ ماضی میں، یہ گروپ کیوبا اور دیگر کمیونسٹ حکومتوں کے سلسلے میں امریکی خارجہ پالیسی کی مخالفت میں، قانونی اوزازوں کے استعمال میں مہارت رکھتا تھا۔ یہ گروپ سمجھتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کی ریاست ہائے متحدہ کی جاری کاروائیاں در حقیقت “امریکی آئین پر حملے” کے مترادف ہیں۔
پروفیسر کول نے سنہ 2002ع میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے ميں لکھا: “ہماری آزادیوں کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردوں سے نہیں بلکہ ہماری حکومت کے ردعمل سے لاحق ہے”۔ پروفیسر کول نے ضمیر کے بیان (Statement of Conscience) پر دستخط کئے جو جنگ کی مذمت کرتا ہے، اور اس بیان کو “Not in Our Name”، نامی ماؤ نواز اور جنگ مخالف گروپ کی حمایت حاصل ہے اور یہ گروپ پروفیسر کول کو اپنے مشاورتی بورڈ کا رکن قرار دیتا ہے۔
بیان میں جنگ کو روکنے کے لئے “ہر ممکن کوشش کرنے” کا عہد کیا گیا ہے اور “تمام امریکیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بش انتظامیہ کے ہاتھوں دنیا پر مسلط کردہ جنگ اور ڈھائے ہوئے ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کریں۔
پروفیسر کول اور مرکز برائے بنیادی [آئینی] حقوق نے سنہ 2005ع میں میڈیا کوریج حاصل کی؛ جب مرکز نے اپنی ایک خاتون ساتھی “اٹارنی لین اسٹیورٹ” کے خلاف – اسلامی جماعت کے سربراہ نابینا شیخ عمر بن عبدالرحمن (مصری) کی دہشت گردانہ کاروائیوں میں مدد دینے کے الزام میں – سماعت کے وقت اس کو نمائندگی [اور وکالت] کے لئے منتخب کیا۔ عمر عبدالرحمن نے 1993ع میں عالمی تجارتی مرکز میں دھماکہ کیا تھا اور بھاری ٹریفک کے اوقات میں ہالینڈ اور لنکن نامی سرنگوں کو دھماکے سے اڑانے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ اسٹیورٹ پر محکمہ انصاف (وزارت قانون) کے حکم کی خلاف ورزی اور مصر میں شیخ عمر عبدالرحمن کے دہشت گرد پیروکاروں کو دوسرے گروپوں کے ساتھ جنگ بندی توڑنے پر اکسانے کے لئے شیخ کی مدد کرنے کا الزام تھا۔ آٹھ ماہ کے انتہائی مشہور ہونے والے مقدمے کے بعد، اسٹیورٹ کو دہشت گردی کے لئے مادی مدد فراہم کرنے، سازش کرنے اور حکومت کو دھوکہ دینے سمیت تمام معاملات میں مجرم پایا گیا۔
پروفیسر کول نے اٹارنی لین اسٹیورٹ کو مجرم قرار دیئے جانے کے فوری طور پر “ٹرائل کے بعد کا کالم” لکھ کر مشن میں چھپوایا (جہاں وہ قانونی نامہ نگار کے طور پر کامل کرتے تھے) اور عدالتی فیصلے کی مذمت کی۔ انھوں نے لکھا: “اس کیس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاملات کس طرح قابو سے خارج ہو چکے ہیں”۔ (توجہ رکھئے کہ تمام خوفناک حوالوں کا تعلق دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہے)۔
پروفیسر کول نے دعوی کیا کہ اسٹیورٹ کسی جرم کا مرتکب نہیں ہوئی تھیں اور ان پر لگائے گئے تمام تر الزامات مبالغہ آمیز اور تحریف شدہ تھے۔ پروفیسر کول نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اگر کسی پر دہشت گردی کا الزام لگانا چاہئے تھا تو وہ امریکہ کا محکمہ انصاف تھا۔
پروفیسر ڈیوڈ کول نے فلوریڈا یونیورسٹی میں “آزادی اور شہری آزادیاں 11 ستمبر کے تناظر میں” کے عنوان سے اپنے شاگردوں کو ایک لیکچر دیا جس میں اس نے یونیورسٹی کے پروفیسر سامی الآریان ((Sami al-Arian)) کا بھرپور دفاع کیا جو شمالی امریکہ میں فلسطینی “دہشت گرد تنظیم!” جہاد اسلامی کے رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ اس تنظیم نے مشرق وسطیٰ میں خودکش بم دھماکوں میں 100 سے زیادہ شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا!
الآریان کی ایک ویڈیو ٹیپ فاکس نیوز فاکس نیوز چینل کے پروگرام “O’Reilly Factor” میں نشر کی گئی جس میں وہ “مردہ باد اسرائیل” کا مطالبہ کر رہے تھے۔
چند ہی مہینوں کے اندر، (دیگر شواہد کے علاوہ) امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں دہشت گردوں کے ساتھ گفتگو کے دس سال کے عرصے کے دوران کیے گئے وائر ٹیپس کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی ٹیلی فونک گفتگو کی بنیاد پر ان پر خودکش دھماکوں کے لئے ادائیگیاں منظم کرنے، بم بنانے کا سامان منگوانے اور دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
پروفیسر کول نے استدلال کیا کہ “لوگوں کو مجرمانہ سرگرمیوں کی وکالت کرنے پر سزا نہیں دی جا سکتی جب تک کہ سپریم کورٹ یہ نہ کہہ دے کہ ان کی تقریر کی تشریح کی گئی ہے اور ممکنہ طور پر یہ تقریر غیر قانونی اقدامات کو ہوا دینے کا باعث بنتی ہے”۔ اور انھوں نے اس استدلال کے ضمن میں پروفیسر الآریان کو “متاثر” قرار دیا۔ یہ نکتہ درست تھا لیکن اس تقریر کا الآریان کے الزامات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
پروفیسر کول پروفیسر الآریان اور ان کے دہشت گرد گروپ کے خلاف الزامات سے بخوبی واقف تھے کیونکہ وہ پروفیسر الآریان کے بہنوئی مازن النجار کے وکیل تھے، جنہیں امریکی محکمۂ انصاف برسوں سے ان سرگرمیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ملک بدر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پروفیسر کول نے اپنی تقریر میں مازن النجار کے معاملے کو امریکی حکام کی طرف سے “غیر ملکی شہریوں کو ناانصافی کا نشانہ بنانے کے معمول” کی مثال قرار دیا اور کسی ثبوت کے بغیر زور دے کر کہا کہ النجار کو “ایسے حالات میں رکھا جا رہا ہے جو کسی بھی سزا یافتہ قاتل کے حالات سے کہیں زیادہ برے ہیں”۔ کول نے ان شواہد کو توجہ دینا مناسب نہ سمجھا جن کی رو سے مازن النجار کو دہشت گرد گروپ “فلسطینی اسلامی جہاد” کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے والے کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔ (5)
پیٹریاٹ ایکٹ پر پروفیسر کول کے شدید اعتراض کے مرکزی نکات میں سے ایک “دہشت گردی کے لئے “مادی حمایت” کو جرم قرار دینے” کی شق ہے، جو وفاقی حکام کو دہشت گردی کی سرگرمیوں کی مالی معاونت کرنے والے بہت سے “خیراتی” اداروں کو بند کرنے کے قابل بنایا ہے۔
پروفیسر کول کا استدلال ہے کہ یہ شق آزادی اظہار کی غیر آئینی خلاف ورزی ہے اور “کسی کو کسی مجرم کے ساتھ تعلق کی وجہ سے مجرم گرداننے (Guilt by association)” (6) کا مصداق ہے۔
پروفیسر کول احتجاج کرتے ہوئے امریکی بار ایسوسی ایشن کے ایک جریدے، ہیومن رائٹس کے موسم سرما سنہ 2002ع کے شمارے میں لکھتے ہیں: “پیٹریاٹ ایکٹ نظریاتی اخراج (7) کو بھی زندہ کرتا ہے اور صرف تقریر کی بنا پر ہی، غیر ملکیوں کے داخلے سے انکار کی ترویج کرتا ہے۔
پروفیسر کول احتجاج کرتے ہوئے امریکی بار ایسوسی ایشن کے ایک جریدے، ہیومین رائٹس (Human Rights) کے موسم سرما سنہ 2002ع کے شمارے میں لکھتے ہیں: “پیٹریاٹ ایکٹ نظریاتی اخراج (7) کو بھی زندہ کرتا ہے اور صرف اظہار خیال (Pure speech) (8) کی بنا پر ہی، غیر ملکیوں کے داخلے سے انکار کی ترویج کرتا ہے۔ اس میں ایسے غیر ملکیوں کو شامل نہیں کیا گیا جو ‘دہشت گردانہ سرگرمیوں کی توثیق یا حمایت کرتے ہیں’ یا جو ’دوسروں کو دہشت گردانہ سرگرمیوں یا تنظیموں کی حمایت پر آمادہ کرتے ہیں۔ ان طریقوں سے جن کا تعین وزیر خارجہ کرتے ہیں اور [ان طریقوں سے] دہشت گردی سے نمٹنے کی امریکی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ لوگوں کو ان کے نظریات کی خاطر مار بھگانا، اس آزادی کی روح کے بالکل خلاف ہے جس کی امریکہ حمایت کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، پروفیسر کول امریکہ میں ان غیر ملکیوں کے داخلے کے حق میں ہیں جو واضح طور پر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ، بظاہر، “ایک ناقابل تنسیخ حق” ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: یعقوب لاکسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. The Professors: The 101 Most Dangerous Academics in America
2. Roles related to Congress, the President and the Court in emergencies
3. Surveillance Standards
4. Center For Constitutional Rights
5۔ یہ الفاظ ایک صہیونی لکھاری کے ہاں ورنہ اپنی سرزمین اور اپنے مقدسات کا دفاع کسی بھی قانون کے مطابق دہشت گردی نہیں سمجھا جاسکتا
6۔ Imposing guilt by association یا کسی ثبوت کی وجہ سے نہیں بلکہ مجرم کے ساتھ تعلق کی وجہ سے، کسی کو مجرم قرار دینا۔
7۔ ideological exclusion نظریاتی اخراج – اعتقادی یا نظریاتی ہنکاؤ یعنی نظریاتی بنیادوں پر کسی کو حقوق سے محروم کرنا۔
8۔ Pure speech (جس کا خالص بیان یا تقریر کی صورت میں ترجمہ کا جاتا ہے) ریاست ہائے متحدہ کے قانون میں بولے یا لکھے گئے الفاظ، تصاویر، آڈیو اور ویڈیو، جسمانی زبان وغیرہ ہیں، جو خالصتاً خیالات اور مہارتوں کے ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
تبصرہ کریں