فاران تجزیاتی ویب سائٹ:۔ امریکی صدر جمہوریہ کا مشرق وسطی کا دورہ یوں تو ختم ہو گیا لیکن اسکو لیکر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے زیادہ تر مبصرین و تجزیہ نگار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ عرب ممالک ایک بار پھر بے وقوف بنے اور انہیں حاصل نہ ہو سکا سوایے تذلیل و تحقیر کے ۔
ٹرمپ نے یہ ثابت کر دیا کہ سامراج صرف طاقت کے آگے سر جھکاتا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس سے خلیج کے عرب حکمران محروم ہیں۔ منصف تجزیہ نگار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ امریکہ ایک بار پھر عرب ممالک سے اپنا الو سیدھا کر کے نکل گیا اور عرب ممالک کو سوائے تحقیر و تذلیل کچھ حاصل نہ ہو سکا ۔
اس بات میں شک نہیں کہ امریکہ ان سے دولت بھی بٹورتا ہے اور انہیں تحقیر کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ٹرمپ کا ریاض، ابوظہبی اور دوحہ کا حالیہ دورہ ایک سفارتی مشن کم اور عرب حکمرانوں کی دولت کو لوٹنے کا منصوبہ زیادہ تھا۔ مشرقِ وسطیٰ ٹرمپ کی نظر میں کوئی تہذیبی ورثہ رکھنے والا خطہ نہیں، بلکہ ایک بازار ہے، اسلحے کا گودام ہے، اور ایک ایسا خودکار اے ٹی ایم جس کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہوتا۔
ٹرمپ عربوں کو انتشار اور عدم استحکام کی علامت سمجھتے ہیں انکے مطابق یہ لوگ “غیر منطقی اور پرتشدد” ہیں جسکے سبب اس خطے کو قابو میں رکھنا اور ہر وقت مسلح رکھنا ضروری ہے۔ 2017 کا 110 ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کافی نہ تھا، اب وہ کھلے عام سعودی عرب سے کہتا ہے کہ اپنی سالانہ مجموعی پیداوار — تقریباً ایک کھرب ڈالر — کو امریکی معیشت میں لگا دے۔
متحدہ عرب امارات بھی 1.4 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کر رہا ہے۔ افسوس یہ سرمایہ کاری غزہ میں قتل عام کو روکنے کے لیے نہیں، بلکہ ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے ہے۔ خلیجی عرب ممالک کے لیے
ٹرمپ کا مطالبہ بالکل واضح ہے: “مکمل اطاعت کے بدلے حکومت کی بقا”۔ وہ حکمران جو اب بھی اسلامی بیداری کے سائے سے خوفزدہ ہیں، ان کے لیے ٹرمپ کی رضا سب کچھ ہے۔ اور اس کے لیے وہ اپنی دولت، خودمختاری، اور عزت تک قربان کرنے کو تیار ہیں۔
ان کے لیے اصل خطرہ اسرائیل یا ایران نہیں، بلکہ خود ان کے عوام ہیں۔ اسی لیے وہ ٹرمپ کے سامنے جھکتے ہیں، اسے میڈل پہناتے ہیں، معاہدے کرتے ہیں، اور کھربوں ڈالر اس کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں، اس امید پر کہ شاید یہ سب کچھ ان کے لیے کچھ “عزت” لے آئے۔ لیکن ٹرمپ کی نظر میں صرف طاقت کا احترام ہے، اور جب طاقت نہ ہو، تو پھر تحقیر اور لوٹ مار مقدر بن جاتی ہے۔
ٹرمپ نے کہا تھا: “ملک سلمان دو ہفتے بھی ہمارے بغیر نہیں چل سکتے” — اس کا مطلب ہے کہ بقا کے لیے انہیں صرف اربوں نہیں، کھربوں ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔
یہ صرف امریکی خزانہ نہیں جو ان کی دولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے، بلکہ ٹرمپ کا ذاتی خاندان بھی۔ دبئی کا ایک ہوٹل، جدہ کا ایک ٹاور، دوحہ میں گولف کورس، امریکہ میں کرپٹو منصوبے، اماراتی شہزادوں کے لیے نجی کلب — یہ سب منصوبے دراصل ٹرمپ فیملی کی کمائی کے ذرائع ہیں۔
یہ سفارت کاری نہیں بلکہ ایک ذلت آمیز لوٹ مار ہے، اور اس کے جواب میں صرف تحقیر ملتی ہے۔ ٹرمپ کا کہناہے: “ہم ہیں جو ان کی سیکیورٹی کے ضامن ہیں، ورنہ شاید وہ اب تک نہ ہوتے” — اور یہی اس کا “شکریہ” ہے۔ انہیں کچھ بھی مانگنے کی جرأت نہیں، سب کچھ دے دینا ہی شکریہ ہے۔
جب ریاض میں ٹرمپ کی جھولی میم کھربوں ڈالر انڈیلے جا رہے تھے اسی وقت اسرائیل امریکی بموں سے غزہ کے اسپتالوں کو تباہ کر رہا تھا۔ اور جب ٹرمپ کی زبان پر عربوں کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے تھے ٹھیک اسی وقت اسرائیل جبالیہ میں بچوں کو قتل کر رہا تھا۔
یہ ہے اس مالی تعاون کی خونآلود قیمت۔ اس ہفتے “نکبت 1948” کی سالگرہ ہے، اور یہ نکبت پہلے سے بھی زیادہ ہولناک انداز میں دہرائی جا رہی ہے — نہ صرف بموں کے ذریعے، بلکہ عربوں کی سفارتی اور مالی حمایت کے ذریعے۔
یہ حالیہ دورہ “سیاسی غارتگری” سے کم نہیں تھا ٹرمپ نے عرب حکمرانوں کی کمزوری، عوامی عدم مقبولیت اور سکیورٹی کے خوف سے فائدہ اٹھا کر انہیں مالی و اخلاقی طور پر استعمال کیا۔ عرب ممالک، جو عوامی بغاوتوں اور سیاسی عدم استحکام سے خوفزدہ ہیں، امریکی حمایت کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار نظر آئے جسکا بھرپور فائدہ ٹرمپ نے اٹھا یا ۔
ٹرمپ کی زبان میں “دولت کے بدلے بقا” کا مطالبہ، خلیجی عرب حکمرانوں کے لیے ایک کڑوی حقیقت ہے، جس سے وہ واقف بھی ہیں لیکن انکار کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اور یہی مقامِ افسوس ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کا حالیہ دورہ سفارتی نوعیت کا کم اور مالی مفادات سے بھرپور تھا۔ ان کا رویہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ وہ صرف طاقت کا احترام کرتے ہیں، اور جو قوم یا حکمران طبقہ طاقت سے محروم ہو، اسے صرف “دوہا” (چوسا) جاتا ہے اور تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
عرب خلیجی ممالک، خصوصاً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر، ٹرمپ کی خوشنودی کو اپنی بقا کا ضامن سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ نہ صرف کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہیں بلکہ عزت و خودمختاری بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
اس سارے عمل میں اصل نقصان عوام کا ہوتا ہے، خصوصاً فلسطینی عوام جو غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتے ہیں، جب کہ عرب دولت ٹرمپ اور اسرائیل کی پالیسیوں کو سہارا دیتی ہے۔
اگر ہم اس دورے کے نتائج پر غور کریں تو حسب ذیل نکات سامنے آتے ہیں ۔
امریکہ صرف طاقت کے سامنے جھکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کو “بازار” اور “اے ٹی ایم” سمجھتا ہے، نہ کہ ثقافتی خطہ۔
عرب حکمرانوں کو “غیر منطقی و پرتشدد” قرار دیتا ہے۔
عرب حکمرانوں کی بڑی کمزوری:
” یہ ممالک بہار عرب یا اسلامی بیداری” کے بعد شدید خوف میں مبتلا ہیں۔
داخلی حمایت کی کمی کی وجہ سے بیرونی طاقتوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔
امریکی حمایت کے لیے بے دریغ دولت خرچ کرنے پر آمادہ ہیں۔
سرمایہ کاری یا غارتگری؟
2017 میں 110 ارب ڈالر کا معاہدہ ناکافی سمجھا گیا۔
اب کھربوں ڈالر کے معاہدے کیے جا رہے ہیں (مثلاً سعودی عرب کا مکمل GDP، امارات کا 1.4 ٹریلین ڈالر پیکج)۔
یہ معاہدے ترقیاتی نہیں بلکہ سیاسی بقا کی قیمت ہیں۔
ان سب کے درمیان فلسطینی عوام کا المیہ اپنی جگہ قائم ہے
عرب مماللک غزہ کے بجائے امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں کو سپورٹ کرتے نظر آ رہےہیں ۔ٹرمپ کے دورے کے دوران ہی غزہ پر بمباری اور بچوں کا بہیمانہ قتل ہوا اور کوئی بولنے والا نہیں تھا ۔
یہ سب ذاتی مفادات کا کھیل ہے ٹرمپ خاندان نے عرب دولت سے ذاتی مفادات اپنی جھولی میں سمیٹے
دبئی میں ہوٹل
جدہ میں ٹاور
دوحہ میں گولف کورس
امریکہ میں کریپٹو اور پرائیویٹ کلب منصوبے
یہ سب ذاتی مفادات کے حصول کی چھوٹی سی فہرست ہے جس میں تحقیر بطور انعام پیش کی گئی
کتنا افسوسناک ہے کہ عرب حکمران تحائف اور میڈلز سے ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں، مگر جواب میں صرف تحقیر ملتی ہے۔
یہ دورہ اس بات کا مظہر ہے کہ جب حکمران عوامی طاقت اور خودمختاری سے محروم ہوں، تو عالمی طاقتیں نہ صرف ان کی دولت بٹورتی ہیں بلکہ انہیں ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بھی بناتی ہیں۔ خلیجی ممالک کی خارجہ پالیسی اس وقت “سیاسی بقا بمقابلہ قومی عزت” کی کشمکش میں پھنس چکی ہے، جس کا فائدہ صرف امریکہ اور اسرائیل کو ہو رہا ہے۔
اور مسلم ممالک کو سوائے تلوے چاٹنے اور شاباشی حاصل کرنے کچھ حاصل نہیں ہے ۔
اسکے برخلاف ہم نے گزشتہ دنوں دیکھا رہبر انقلاب اسلامی نے کس طرح ٹرمپ اور انکے حلیفوں کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہویے لتاڑا یہیں سے امت اسلامی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون حقیقی اسلام کا پیرو ہیں جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے اور کون جعلی اور امریکی اسلام کا پیرو ہے جو نعرہ تکبیر کے ساتھ کعبہ کے تقدس کو گروی رکھنے پر آمادہ ہے۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب امت مسلمہ کے سامنے اور بھی بہتر طریقے سے حقیقی و جعلی اسلام کی تصویریں واضح ہو جائیں گی ۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں