کتاب کا تعارف “فلسطین؛ امن، نسل پرستی نہیں”
فاران؛ کتاب کا تعارف فلسطین؛ “امن، نسل پرستی نہیں” (Palestine: Peace and not Apartheid) انتالیسویں امریکی صدر جیمی کارٹر (Jimmy Carter) کی لکھی ہوئي کتاب ہے جو پہلی مرتبہ سنہ 2006ع میں شائع ہوئی۔ ایک سال بعد اس کا فارسی ترجمہ محمد حسین وقار اور روزنامہ اطلاعات کے زیر اہتمام شائع ہؤا۔ یہ کتاب 260 صفحات اور 17 فصلوں پر مشتمل ہے۔
کارٹر ان امریکی سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے فلسطین اور یہودی-صہیونی ریاست سے متعلقہ مسائل میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر سنہ 1978ع میں بطور امریکی صدر کیمپ ڈیوڈ میں اس وقت کے مصری صدر جنرل انور السادات اور صہیونی وزیراعظم مناخم بیگن (menachem bégin) کے میزبان رہے اور ان کے درمیان ساز باز کرائی۔
اس رپورٹ میں ہم کتاب “فلسطین؛ “امن، نسل پرستی نہیں” کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں:
اجمالی فہرست:
واقعات کی تفصیل تاریخی ترتیب سے
اسرائیل میں میری پہلی ملاقات سنہ 1973ع
میری صدارت کا دور، سنہ 1977ع سے سنہ 1981ع تک
دوران ریاستجمهوری من، 81-1977
مرکزی کردار
دوسرے پڑوسی
رونلڈ ریگن کا دور سنہ 1981ع سے سنہ 1989ع تک
جارج ہربرٹ واکر بش (بش اول)، کا دور
اوسلو کا مفاہمت نامہ
فلسطینی انتخابات، سنہ 1996ع
امن کے لئے بل کلنٹن کی کوششیں
جارج واکر بش (بش ثانی) کا دور
جنیوا اقدام (Geneva Initiative)
فلسطینی انتخابات سنہ 2005ع
فلسطین اور اسرائیل کے انتخابات سنہ 2006ع
ایک دیوار قیدخانے کی مانند
خلاصہ
ضمائم
نقشوں کی فہرست
کتاب کے بارے میں
جیمی کارٹر اپنے مکالمات اور یادداشتوں میں کہتے ہیں کہ انھوں نے کتاب “فلسطین؛ امن، نسل پرستی نہیں” (یا فلسطین، نسل پرستی نہیں، بلکہ امن) کو اپنے ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر تحریر کیا ہے اور عین ممکن ہے کہ بہت سے یہودیوں اور امریکیوں کے لئے یہ سب قبول کرنا، ممکن نہ ہو۔ نیز وہ اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ میں بہت سی قدغنیں پائی جاتی ہیں اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں بحث اور اسرائیلی ریاست پر تنقید کا امکان نہیں پایا جاتا۔
کارٹر کا دعوی ہے کہ انھوں نے اس کتاب میں مختلف نقشوں اور دستاویزات سے فائدہ اٹھایا ہے تاکہ مقبوضہ فلسطین کے موجودہ حقائق کو صحیح انداز سے بیان کیا جاسکے اور فلسطین اور اسرائیلی ریاست کے درمیان مصالحت کی واحد راہ حل کی تشریح کی جاسکے۔
کارٹر کی رائے کے مطابق، فلسطینی عوام اور یہودی بین الاقوامی سرحدوں کے آس پاس رہائش پذیر ہیں اور مصالحت کی بحالی کے لئے بین الاقوامی قراردادوں کی رعایت کی ضرورت ہے۔
سابق امریکی صدر اپنی کاوش کے مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہيں؛ “میری کتاب کا انتہائی مقصد مشرق وسطی کے حقائق پیش کرنے سے عبارت ہے جبکہ یہ حقائق امریکیوں کے ہاں غیر معروف اور انجانے ہیں۔ یہ کتاب امن مذاکرات کی دوبارہ بحالی میں مدد دیتی ہے”۔
البتہ کارٹر مقبوضہ اراضی میں مایوس کن ظلم و ستم کے جاری سلسلے کو بھی بیان کرتے ہیں اور فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان غاصب ریاست کی بنائی ہوئی دیوار کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔
جیمی کارٹر فلسطین کے حق میں غاصب صہیونیوں کے مظالم اور جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے صہیونیوں کے مظالم بہت سے پہلؤوں سے، ان مظالم سے کہیں زیادہ شدید اور ظآلمانہ ہیں جو جنوبی افریقہ کے اپارتھائیڈ (apartheid) کے دور میں اقلیتی سفید فام حکمران اکثریتی سیاہ فام باشندوں پر روا رکھتے تھے”۔
گوکہ کارٹر کا خیال ہے کہ “فلسطینیوں پر صہیونیوں کے مظالم کے محرکات کو نسل پرستانہ قہر نہیں دیا جا سکتا! بلکہ ان کے بقول، غاصب ریاست کے مظالم کا مقصد فلسطینی اراضی کو ضبط کرنا اور فلسطینیوں کا استحصال کرنا اور آخرکار زور زبردستی کے ذریعے بے گھر اور بے وطن فسلطینیوں کو کچلنا، ہے!!۔ (کتنی حیرت کی بات ہے کہ قبضے، کچلنے اور بےگھر کرنے کو نسل پرستی اور اپارتھائیڈ نہیں کہا جاسکتا جناب کارٹر کے خیال میں!!]۔
نیز کارٹر اس سلسلے میں کہتے ہیں: “ظاہر ہے کہ میں ہر قسم کے دہشت گردانہ اقدامات اور غیر فوجی نہتے اور بےگناہ انسانوں کے خلاف تشدد کی مذمت کرتا ہوں!”۔
صہیونیوں کے مظالم اور فلسطینیوں کی کاروائیوں کی مذمت
جیمی کارٹر نے کتاب “فلسطین؛ امن، نسل پرستی نہیں” کی آخری فصل میں اپنی تحریر سے تنیجہ لینے کا اہتمام کیا ہے اور مختلف قراردادوں اور امن مذاکرات اور سینکڑوں اور ہزاروں فلسطینیوں کا خون بہائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “دو بڑی رکاوٹیں ایسی ہیں جو مشرق وسطی میں پائیدار امن کی راہ میں حائل ہیں: 1۔ بعض اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ انہیں فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کرنے اور ان کی اراضي ضبط کرنے کا حق حاصل ہے؛ اور وہ مسلسل تسخیر اور فلسطینیوں کو ایذا رسانی میں شدت لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ 2۔ کچھ فلسطینی صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کی فردی کاروائیوں کو اپنے لئے کامیابی سمجھتے ہیں!
کارٹر من حیث المجموع، امن مذاکرات، امن مذاکرات اور فلسطین کے انتخابات کا جائزہ لے کر اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست ایک قانونی ملک و ریاست ہے اور اس ریاست کو اپنی سرحدوں کے اندر مکمل امن و سلامتی حاصل ہونا چاہئے؛ اور عربوں کو اس ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی اور اقدام نہیں کرنا چاہئے۔ نیز ان کا خیال ہے کہ اسرائیلی ریاست بھی فلسطینی قوم پر مظالم ڈھا رہی ہے اور اس ریاست کو بھی اپنی سرحدوں کے اندر واپس آنا چاہئے اور ببن الاقوامی قراردادوں اور معاہدوں کا پابند ہونا چاہئے۔
چنانچہ جیمی کارٹر کے خیال میں مسئلہ فلسطین کی واحد راہ حل یہ ہے کہ اس سرزمین میں دو ریاستیں قائم ہوں۔ وہ اپنی کتاب “فلسطین؛ امن، نسل پرستی نہیں” میں اسی تجویز کو مشرق وسطی کے مسائل کے بنیادی حل کا مرکز و محور سمجھتے ہیں۔ انھوں نے درحقیقت اس کتاب میں اسی مسئلے کا جائزہ لیا ہے۔،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخذ:
https://www.latimes.com/news/la-oe-carter8dec08-story.html
https://www.npr.org/templates/story/story.php?storyId=7004473
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو اسد
تبصرہ کریں