کوٹ، ٹائی، سوٹ، بوٹ کے ذریعے دہشت گرد ایسے بنتے ہیں سیاست داں

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: داعش کے تجربے نے امریکیوں کو یہ سکھایا کہ وہ صرف ایک دہشت گرد گروہ کے ذریعے شام پر قابو نہیں پا سکتے۔ انہیں کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ٹائی لگا کر آزادی کے دعوے کے ساتھ ظاہری طور پر شائستہ نظر آئے اور شام کو صہیونی قبضے کے لیے […]

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: داعش کے تجربے نے امریکیوں کو یہ سکھایا کہ وہ صرف ایک دہشت گرد گروہ کے ذریعے شام پر قابو نہیں پا سکتے۔ انہیں کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ٹائی لگا کر آزادی کے دعوے کے ساتھ ظاہری طور پر شائستہ نظر آئے اور شام کو صہیونی قبضے کے لیے تیار کرے۔
فارس پلس گروپ: “جولانی، اسد سے زیادہ ہوشیار ہے۔ وہ دوبارہ بنایا گیا، مرمت کیا گیا، اس نے نئے اتحادی بنائے اور اپنی کشش کے ذریعے اقلیتوں کو اپنی طرف مائل کر رہا ہے۔” یہ الفاظ جاشوا لینڈس، اوکلاہوما یونیورسٹی کے مرکز برائے مشرق وسطیٰ مطالعات کے سربراہ کے ہیں، جو تحریر الشام کی شورش کے ابتدائی دنوں میں کہے گئے تھے اور انہیں امریکی خبر رساں ادارے رائٹرز نے شائع کیا تھا۔
رائٹرز نے مزید لکھا: “جولانی شامی اقلیتوں کو، جو طویل عرصے سے جہادی گروہوں سے خوفزدہ تھے، یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے، اور جب اس کی تیز رفتار شورش جاری تھی، تو وہ مسلسل اطمینان بخش پیغامات جاری کرتا رہا اور انہیں تحفظ کا وعدہ دیا۔”
آرون لاند، جو امریکی تھنک ٹینک “بین الاقوامی صدی” کے ایک رکن ہیں، نے کہا: “جولانی اور تحریر الشام واضح طور پر بدل چکے ہیں۔ وہ اب پہلے جیسے سخت گیر نہیں رہے۔”

رائٹرز نے یہ بھی لکھا: “جولانی نے جبهة النصرہ کی بنیاد رکھنے سے پہلے عراق میں القاعدہ کے لیے جنگ کی تھی اور وہاں امریکی قید میں پانچ سال گزارے۔”

اس امریکی میڈیا نے جولانی کے ماضی اور حال کے بارے میں لکھا: “2013 میں، امریکہ نے جولانی کو ایک دہشت گرد قرار دیا تھا۔ جبهة النصرہ نے خودکش حملے کیے، شہریوں کو قتل کیا، اور پرتشدد نظریات کی حمایت کی۔ ترکی، جو اسد حکومت کے مخالفین کا سب سے بڑا حامی تھا، نے بھی تحریر الشام کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔”
جولانی نے اپنا پہلا ویڈیو انٹرویو 2013 میں دیا، جس میں اس نے اپنا چہرہ ایک گہرے اسکارف سے ڈھانپا ہوا تھا اور صرف اپنی پشت کیمرے کو دکھائی۔ آٹھ سال بعد، اس نے امریکی پروگرام “فرنٹ لائن” کے لیے ایک انٹرویو میں جیکٹ اور شرٹ پہن کر کیمرے کے سامنے بات کی۔

جولانی نے کہا کہ وہ معصوم لوگوں کے قتل کے خلاف ہے اور دہشت گرد کا لیبل غیرمنصفانہ ہے۔ جولانی نے دعویٰ کیا: “میری اور میرے گروپ کی القاعدہ کے ساتھ وابستگی ختم ہو چکی ہے۔”
اس انگریزی ویب سائٹ نے جولانی کے ذریعہ جبهة النصرہ کے قیام اور داعش کے ساتھ تعاون کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: “وقت کے ساتھ، القاعدہ کا لیبل جبهة النصرہ کے ساتھ بہت جڑ گیا تھا، اور جولانی نے القاعدہ کے جہادی نظریے سے دوری اختیار کرنا شروع کر دی تھی اور بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت حاصل کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا۔”
میدل ایسٹ آئی نے مزید لکھا: “تحریر الشام خلافت قائم کرنے کی خواہش نہیں رکھتا جیسے کہ داعش یا القاعدہ کا مقصد تھا۔ تحریر الشام اسلامی حکومت کے سخت نظریات سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جولانی نے کہا تھا کہ حکومت اسلام کے اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے، نہ کہ داعش یا سعودی عرب کی طرح۔ جولانی نے اپنی آخری کارروائی کے بعد اعلان کیا کہ وہ اپنے زیرِ اقتدار اقلیتی فرقوں کا تحفظ کرے گا۔ جون 2015 میں جبهة النصرہ کے ہاتھوں کم از کم 20 دروز کمیونٹی کے افراد کو قتل کر دیا گیا تھا، لیکن جولانی نے اسے ایک باغی کمانڈر کا غلط اقدام قرار دیا۔ جولانی نے ان گھروں کو واپس کر دیا جو پہلے دروزیوں سے چھینے گئے تھے۔ اقلیتی گروپوں کے لیے کھلے دل کا مظاہرہ، شام کے اندر اور عالمی سطح پر مثبت پیغام بھیجنے کا ایک یہ طریقہ ہے۔”
بی بی سی انگریزی نیٹ ورک نے جولانی کی ابتدائی حرکتوں اور شام کے قبضے کے ابتدائی دنوں میں لکھا تھا: “جولانی نے کئی سالوں تک اس کے گروہ کی شکل کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے جس سے لوگ آیڈیالوجی کے تعصبات کی وجہ سے خوفزدہ تھے؛ تاکہ اس کے نظریہ کو ایسا بنایا جا سکے کہ شامی عوام اسے اسد کے رژیم کے لیے ایک عملی متبادل کے طور پر قبول کریں۔” بی بی سی نے مزید لکھا: “اس بات پر شک و شبہات تھے کہ کیا تحریرالشام تنظیم مکمل طور پر القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط کو چھوڑ دے گی؟ لیکن گروپ کا پیغام ابتدائی ایک ہفتے میں تشدد اور انتقام کی مخالفت پر مبنی تھا۔”
نیوز چینل “فرانس 24” نے بھی لکھا: “جولانی نے 2016 میں القاعدہ سے علیحدگی کے بعد، اپنے آپ کو داخلی اور خارجی سطح پر نرم دکھانے کی کوشش کی ہے، اقلیتی گروپوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ اختیار کی ہے، اور یہ واضح کیا ہے کہ اس کا مقصد ایک بین الاقوامی اسلامی ریاست قائم کرنا نہیں ہے۔”
نیوز چینل “فرانس 24” نے بھی لکھا: “جولانی نے 2016 میں القاعدہ سے علیحدگی کے بعد، اپنے آپ کو داخلی اور خارجی سطح پر نرم دکھانے کی کوشش کی ہے، اقلیتی گروپوں کے ساتھ مفاہمت کی راہ اختیار کی ہے، اور یہ واضح کیا ہے کہ اس کا مقصد ایک بین الاقوامی اسلامی ریاست قائم کرنا نہیں ہے۔”
یہ ذکر کردہ معاملات جولانی کی ایک نئی تصویر پیش کرنے کے لیے کیے گئے تھے، حالانکہ وہ اب بھی مختلف ممالک کی دہشت گرد فہرست میں شامل ہے، بشمول امریکہ اور برطانیہ۔ یہ سب کچھ تحریرالشام کے ابتدائی بغاوت کے دنوں میں ہی ہوا تھا۔ دوسرے الفاظ میں، جولانی کی نرم اور بردبار شخصیت کی برانڈنگ، کا کام اس کے طاقت میں آنے کے بعد نہیں کیا گیا، بلکہ یہ ایک منصوبہ بند اسکرپٹ تھا جو شروع سے ہی بنایا گیا تھا۔

لیکن اس نرم شخصیت کے طاقت میں آنے کا ابتدائی نتیجہ یہ ہوا کہ شام کے اہم حصے اسرائیلی فوج کے زیر قبضہ آگئے، اور اس رژیم کے بے مثال بمباریوں سے اس کے اہم اہداف تباہ ہو گئے۔ تاہم، جولانی، جو شام کے اقلیتی گروپوں کی حفاظت کا دعویٰ کرتا تھا، نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل سے مقابلہ نہیں کرے گا۔

بہرحال، تحریرالشام ابھی بھی بعض ملکوں کی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل ہے اور اس کی گرفتاری پر امریکہ نے بھی 10 ملین ڈالر انعام رکھا گیا جبکہ بعض رپورٹیں بتا رہی ہیں اسکا نام اب سابقہ فہرست میں نہیں ہے۔ اس لئے جولانی کی برانڈنگ کو تیز اور گہرائی سے کرنے کی ضرورت تھی۔ جولانی کے چہرے کو بدلنے کے لیے ایک اور عملی اقدام یہ تھا کہ اس کے جہادی نام کو ختم کر کے اس کا اصلی نام “احمد الشرع” استعمال کیا جائے۔ ان دنوں، امریکی میڈیا اور حتی کہ فارسی زبان کے چینلز جیسے بی بی سی، جولانی کے بجائے احمد الشرع نام استعمال کر رہے ہیں۔

اس عمل میں ایک اور قدم یہ تھا کہ امریکہ کے وزیر خارجہ کے خصوصی معاون نے جولانی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں جولانی نے سوٹ پہن کر باربرا لیف سے ملاقات کی، اور اس ملاقات کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ اس پر 10 ملین ڈالر کا انعام ختم کر دیا گیا۔

لیکن جولانی ابھی بھی ایک خوبصورت ٹائی کے بغیر تھا۔ برانڈنگ کے اس نئے اسکرپٹ میں، ابوالمحمد جولانی اس بار ایک اعلیٰ سیاستدان کے طور پر، ٹائی پہنے ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان سے ملاقات کرتا ہے۔ جولانی کی نئی تصویر صرف اقلیتی گروپوں اور شام کی ثقافتی تنوع کو تسلیم کرنے کے دعووں تک محدود نہیں تھی، بلکہ اس کی ظاہری شکل اور لباس میں بھی تبدیلی آئی تھی۔ اسی لیے جولانی کی سعودی عرب کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی۔

لیکن سابق دہشت گرد کے لیے یہ نیا روپ ابھی تک شامی عوام کے لیے کوئی فائدہ نہیں لایا ہے۔ اسرائیلیوں کے زیر قبضہ ملک اور اسرائیلی ٹینکوں کی دمشق کے قریب موجودگی کے علاوہ، جولانی کے عناصر کی طرف سے شامی عوام کے ساتھ تشدد کی متعدد تصاویر سامنے آئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تحریرالشام کا ٹائی پہننا جولانی کے لیے تو مکمل ہو چکا ہے، لیکن اس کی فورسز ابھی بھی شامی عوام، خاص طور پر مختلف عقائد اور اقلیتی گروپوں کو دبا رہی ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ داعش کے استعمال کا تجربہ امریکیوں کو یہ سکھا چکا تھا کہ وہ ایک دہشت گرد گروپ کے ذریعے شام پر قابو نہیں پا سکتے۔ اس لیے انہیں ایک ایسا شخص چاہیے تھا جو ٹائی پہن کر اور آزادی کے دعوے کے ساتھ شام کو اسرائیلیوں کے لیے قبضے کے لیے تیار کرے، چاہے شامی عوام ابھی بھی دبائے جا رہے ہوں۔