فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اگرچہ امریکہ کی فوجی طاقت کا یمن سے موازنہ ممکن نہیں، لیکن اگر ٹرمپ نے یمن میں جنگ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تو یہ امریکیوں کے لیے ایک نیا ویتنام ثابت ہو سکتا ہے۔
فارس پلس گروپ کی رپورٹ کے مطابق، امریکی فوجی طاقت کسی بھی طرح یمن کی فوج اور حوثیوں کی عسکری طاقت کے برابر نہیں، لیکن تجزیہ کار اور ماہرین ٹرمپ کو یمن میں مداخلت کے سنگین نتائج سے خبردار کر رہے ہیں۔ وہ اسے ایک بڑا اسٹریٹجک غلط فیصلہ قرار دیتے ہیں جو امریکہ کو ایک لمبی اور تباہ کن جنگ میں الجھا سکتا ہے۔
برطانوی نیوی آفیسر “ٹام شارپ” کی رپورٹ میں بھی اس حقیقت کی تصدیق کی گئی ہے کہ ٹرمپ کی یمن میں فوجی مداخلت کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ امریکہ، تمام تر فوجی صلاحیتوں کے باوجود، یمن کی فوجی طاقت کو روکنے میں ناکام رہا ہے اور صنعاء کی عسکری کارروائیوں کا سامنا کرنے میں بے بس دکھائی دیتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 2024 کے دوران امریکہ بحیرہ احمر میں اسرائیلی، امریکی اور برطانوی جہازوں کی نقل و حرکت کو محفوظ بنانے میں ناکام رہا۔ اس کے نتیجے میں، 90 فیصد سے زیادہ بڑیے اور قیمتی تجارتی بحری جہازوں نے بحیرہ احمر اور باب المندب آبنائے سے گزرنے سے انکار کر دیا اور انہوں نے “کیپ آف گڈ ہوپ” جیسے متبادل بحری راستے اپنانے شروع کر دیے۔
یہ تبدیلی نہ صرف بحری تجارت کے اخراجات میں اضافہ کر رہی ہے بلکہ عالمی معیشت پر بھی شدید اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اگر ٹرمپ نے یمن کے خلاف کسی بڑی جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا تو یہ جنگ امریکہ کے لیے ایک اور ویتنام جیسی دلدل بن سکتی ہے، جس کے نتائج کئی دہائیوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
مسلسل ناکامیاں: امریکہ کی یمن میں فوجی شدت پسندی کے باوجود شکست
ٹرمپ نے ایک بار پھر یمن میں فوجی کارروائیوں اور جنگ کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ امریکہ کو گزشتہ تمام فوجی مداخلتوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ ناکامیاں صرف جو بائیڈن کی صدارت کے دوران نہیں بلکہ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت اور اس سے پہلے باراک اوباما کے دور میں بھی دیکھی گئیں۔ 2015 سے اب تک، سعودی-اماراتی فوجی اتحاد کے تحت امریکہ کی فضائی اور میزائل حملوں کی پالیسی بھی یمن کو کمزور کرنے میں ناکام رہی۔
اس کے برعکس، صنعاء پہلے سے زیادہ طاقتور بن چکا ہے اور اب وہ اس مقام پر ہے کہ خطے میں نئی جنگی حکمت عملیاں اور اصول مسلط کر سکتا ہے۔
امریکی دعوے اور حقیقت کے درمیان تضاد
یمن پر امریکی حملوں میں ایک اور اہم پہلو امریکی حکام کے بیانات اور زمینی حقائق کے درمیان تضاد ہے۔
وائٹ ہاؤس کا دعویٰ ہے کہ یہ فوجی کارروائیاں بین الاقوامی بحری جہازرانی کے تحفظ کے لیے کی جا رہی ہیں،
جبکہ رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ یمن نے کبھی بھی براہ راست امریکی مفادات کو نشانہ نہیں بنایا۔
حتیٰ کہ جنوری 2024 سے اب تک کوئی بھی امریکی جہاز بحیرہ احمر سے نہیں گزرا، جو اس دعوے کو مشکوک بنا دیتا ہے کہ امریکہ اپنی بحری آمد و رفت کے تحفظ کے لیے حملے کر رہا ہے۔
غلط وقت اور غلط جگہ پر طاقت کا مظاہرہ
امریکہ کی طرف سے یمن پر حملہ درحقیقت ایک “غلط وقت اور غلط جگہ” پر طاقت کے مظاہرے کے مترادف ہے۔
اس کے نتیجے میں امریکہ کو شدید اقتصادی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
یہ صرف امریکی معیشت کو ہی نہیں بلکہ عالمی معیشت کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
یہ صورتحال امریکہ کے لیے ایک اور ویتنام جیسے بحران کو جنم دے سکتی ہے، جہاں وہ ایک غیر ضروری اور مہنگی جنگ میں الجھ کر عالمی سطح پر اپنی ساکھ اور طاقت کھو سکتا ہے۔
یمن کی حکمت عملی نے امریکہ کو تھکا دیا اور اس کی کمزوریاں بے نقاب کر دیں
شارپ کی رپورٹ میں یمنی فوجی حکمت عملی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، جس کے مطابق یمن کی ان جنگی چالوں نے امریکی حملوں کو محض منتشر اور غیر مؤثر ردعمل تک محدود کر دیا ہے۔
یہ ردعمل امریکہ کے لیے کسی قابل ذکر نتیجے کا باعث نہیں بن سکا، کیونکہ وہ یمن کو بحیرہ احمر اور مقبوضہ علاقوں پر حملے جاری رکھنے سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔
امریکہ کی ناکامی کی وجوہات
1. یمن کا مضبوط میزائل اور ڈرون نیٹ ورک
یمن میں ایک وسیع اور گہرا میزائل اور ڈرون لانچنگ نیٹ ورک موجود ہے، جس کی وجہ سے ان کے ٹھکانوں کا پتہ لگانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
2. تیز رفتار اور جدید متحرک لانچ پیڈ
یمن کے میزائل اور ڈرون لانچ پیڈ نہ صرف متحرک ہیں بلکہ انتہائی ہوشیار اور تیز رفتار بھی ہیں۔
اس کی وجہ سے امریکہ ان کو مؤثر طریقے سے ٹریک اور تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
3. امریکہ کے لیے مہنگی جنگ، یمن کے لیے سستا مقابلہ
یمنی میزائل اور ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے امریکہ کو بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے، کیونکہ ان کے دفاعی نظام پر آنے والی لاگت یمنی حملوں کی لاگت سے دوگنا زیادہ ہے۔
یمنی فوج کے لیے ہر حملے پر تقریباً 2,000 ڈالر کا خرچ آتا ہے، جبکہ امریکہ کو ان حملوں کا جواب دینے کے لیے روزانہ لاکھوں ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔
4. امریکہ کے لیے فاصلہ ایک بڑا چیلنج
یمنی فورسز اپنے اسلحے کے ذخائر اور جنگی وسائل تک فوری رسائی رکھتی ہیں،
جبکہ امریکہ کو اپنے ہتھیار اور فوجی ساز و سامان ہزاروں میل دور سے بحیرہ احمر، خلیج عدن اور باب المندب تک منتقل کرنا پڑ رہا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ یمنی حکمت عملی امریکہ کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے
یمن کی کم لاگت اور جدید حربے امریکہ کے مہنگے دفاعی نظام کو بری طرح چیلنج کر رہے ہیں۔
یہ جنگ امریکہ کو اقتصادی، فوجی اور اسٹریٹجک سطح پر تھکا رہی ہے، اور اس کے نتائج ویتنام جنگ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کی حکومت فوجی اور سیاسی دباؤ میں
یمن میں امریکی حملوں کی ناکامی نے وائٹ ہاؤس کو مزید خطرناک فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اور اب امریکہ یمن میں ایک نئی مہم جوئی کی تیاری کر رہا ہے۔
امریکی آپشن: یمن میں زمینی فوج بھیجنا؟
امریکی قیادت کے زیر غور آپشنز میں سے ایک، یمن میں زمینی فوج بھیجنا ہے، لیکن عسکری اور اسٹریٹجک ماہرین اس اقدام کو امریکہ کے لیے انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
امریکہ کے لیے یمن میں جنگ کیوں خطرناک ہے؟
مشکل جغرافیہ اور پیچیدہ میدان جنگ
یمن کا پہاڑی اور دشوار گزار جغرافیہ امریکی افواج کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
امریکہ افغانستان میں ایسی جنگوں کا تلخ تجربہ رکھتا ہے، جہاں اسے ناکامی اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یمن: مغربی افواج کا قبرستان
یمن ہمیشہ مغربی افواج کے لیے ایک دلدل ثابت ہوا ہے،
تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی مغربی فوجی طاقت وہاں داخل ہوئی، وہ بھاری جانی و مالی نقصان کے بغیر واپس نہ جا سکی۔
ٹرمپ کی نئی حکمت عملی: ایران کا پرانا بہانہ
امریکہ، اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے دوبارہ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ حوثی ایران کے زیر اثر ہیں،
لیکن یہ بہانہ اب غیر مؤثر ہو چکا ہے، کیونکہ حوثیوں نے کئی بار واضح کیا ہے کہ صنعاء اپنی پالیسیاں آزادانہ طور پر بناتی ہے۔
حوثیوں کی موجودہ جنگ، فلسطین کی مزاحمت کی حمایت میں ہے اور اسرائیلی محاصرے اور نسل کشی کے خلاف ہے۔
یمن، امریکہ کے لیے ایک نیا دلدل
اگر امریکہ یمن میں زمینی فوج بھیجتا ہے، تو یہ فیصلہ اس کے لیے افغانستان اور ویتنام جیسا ایک اور تباہ کن تجربہ ثابت ہوگا۔
ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی شدید سیاسی اور فوجی دباؤ میں ہے، اور یمن میں مداخلت اس دباؤ کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
بحیرہ احمر کا معرکہ امریکہ کی جانب سے یمن پر اپنی مرضی کی فوجی حکمت عملی مسلط کرنے کی کوششوں کے باوجود، زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ جنگ پر اب بھی یمن کی گرفت مضبوط ہے، اور امریکی بحریہ مسلسل دفاعی پوزیشن میں ہے۔
ٹرمپ کی فوجی شدت پسندی: ایک ناکام کوشش؟
عسکری ماہرین کا ماننا ہے کہ بحیرہ احمر میں ٹرمپ کی جارحیت مایوسی کا ایک اور قدم ہے،
کیونکہ یمنی افواج اپنی لچکدار اور مؤثر حملہ آور حکمت عملی کے ذریعے امریکہ کو کسی بھی فیصلہ کن کامیابی سے محروم رکھ رہی ہیں۔
یمنی ڈرونز میں غیر معمولی تکنیکی ترقی
امریکی صحافی “جان اسمای” بھی برطانوی تجزیہ کار “شارپ” کی رائے سے متفق ہیں۔
“نیویارک ٹائمز” میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں، جان اسمای نے یمنی ڈرونز کی حیران کن صلاحیتوں اور امریکہ کی ان کے خلاف بے بسی کو اجاگر کیا۔
یمنی مزاحمت کا راز: جدید ٹیکنالوجی
“تیمور خان”، برطانوی تحقیقاتی ادارے Conflict Armament Research کے ایک ماہر،تسلیم کرتے ہیں کہ یمنی عسکری ٹیکنالوجی کی ترقی اب امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
ان کے مطابق یہ حیران کن پیش رفت امریکہ اور اسرائیل کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ حوثیوں کے خلاف مہم جوئی سے باز رہیں۔
یمنی ڈرونز میں نئی خصوصیات
ماہرین کا کہنا ہے کہ یمنی ڈرونز میں ایک اہم تکنیکی تبدیلی ان کے ایندھن کے نظام میں آئی ہے،
جس کی بدولت وہ مزید طویل فاصلے اور زیادہ دیر تک پرواز کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ کا ایران پر الزام بے بنیاد؟
برعکس ٹرمپ کے اس دعوے کے کہ حوثیوں کو ایران کی مدد حاصل ہے،تیمور خان کے مطابق تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یمنی ڈرونز کے تمام پرزے براہ راست چین سے درآمد کیے گئے ہیں۔مزید یہ کہ اب تک جو بھی اسلحہ یمن کے پانیوں میں ضبط کیا گیا، وہ نہ تو ایران میں بنا تھا اور نہ ہی ایران سے بھیجا گیا تھا۔
یمنی مزاحمت کی غیر معمولی تکنیکی ترقی امریکہ کے لیے ایک اور بڑی پریشانی بن چکی ہے۔
بحیرہ احمر میں جنگ کا توازن امریکہ کے حق میں نہیں ہے، اور ٹرمپ کے فوجی اقدامات مزید ناکامیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔
یمنی ڈرون ٹیکنالوجی میں غیر معمولی ترقی
امریکی صحافی “جان اسمای” اور برطانوی عسکری تجزیہ کار “شارپ” اس بات پر متفق ہیں کہ یمنی ڈرونز کی ترقی اور امریکہ کی ان کے خلاف بے بسی ایک حقیقت ہے۔
“نیویورک ٹائمز” میں شائع شدہ اپنی رپورٹ میں، جان اسمای نے یمنی مزاحمت کی طاقت کا راز جدید ڈرون ٹیکنالوجی میں مضمر قرار دیا۔
یمن کی عسکری ترقی: امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک چیلنج
برطانوی تحقیقاتی ادارے Conflict Armament Research کے محقق “تیمور خان” نے کہا:
“یمنی فوجی ترقی اب امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایک حیران کن چیلنج بن چکی ہے۔”
“یہی غیر متوقع پیش رفت امریکہ اور اسرائیل کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ یمن میں کسی بھی فوجی مہم جوئی سے گریز کریں۔”
یمنی ڈرونز کی نئی خصوصیات
اب تک یہ معلوم نہیں کہ حوثیوں نے اپنے ڈرونز میں کون سی نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے،
لیکن دو بڑی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں:
نیا ایندھن سسٹم:
ڈرونز میں روایتی ایندھن کی بجائے ہائیڈروجن فیول کا استعمال
زیادہ فاصلے اور طویل دورانیے کے مشنز کے لیے موزوں
برطانوی کمپنی “Intelligent Energy” کے ماہر “اینڈی کلی” کے مطابق، یہ ٹیکنالوجی ڈرونز کی پرواز کے وقت میں نمایاں اضافہ کر سکتی ہے۔
گلوبل مارکیٹ سے پرزہ جات کی درآمد اور خودکفالت
یمنی گروہوں نے اپنی ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر اندرونِ ملک تیار کرنے کے قابل بنا لیا ہے۔
بین الاقوامی ویب سائٹس سے خریدے گئے پرزے مقامی سطح پر اسمبل اور اپگریڈ کیے جاتے ہیں۔
ٹرمپ کے ایران مخالف بیانیے کی حقیقت؟
ٹرمپ کا یہ الزام کہ ایران یمنی ڈرونز کے لیے مدد فراہم کر رہا ہے، بے بنیاد ثابت ہوا ہے۔تحقیقات کے مطابق یمنی ڈرونز کے تمام پرزے چین سے درآمد کیے گئے ہیں۔
اب تک جو بھی اسلحہ سمندر میں ضبط ہوا، وہ نہ ایران میں تیار ہوا تھا اور نہ ہی ایران سے بھیجا گیا تھا۔
امریکہ ایک نئے دلدل میں داخل ہو رہا ہے؟
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جنگوں کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یمن میں مداخلت، امریکہ کو ایک طویل اور نقصان دہ جنگ میں الجھا رہی ہے۔
یہ جنگ نہ صرف فوجی شکست بلکہ اقتصادی نقصان کا بھی باعث بن رہی ہے۔
یمنی ڈرون ٹیکنالوجی میں ترقی امریکہ کے لیے ایک نیا سر درد بن چکی ہے۔
امریکہ کی جارحیت جتنی بڑھے گی، یمن کی مزاحمت اتنی ہی مضبوط ہوتی جائے گی۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں