یمن کا اعزاز
فاران: 1۔ کل “بین روڈز”، اوباما انتظامیہ کی قومی سلامتی کے سابق ڈپٹی سیکرٹری نے یمن پر امریکی اور برطانوی فوجی حملے کے جواب میں، ان دونوں ممالک سے کہا: جب تم کئی سالوں سے ایک بڑے اتحاد کے ساتھ یمن کو شکست نہیں دے سکے۔ اب فضائی حملوں میں کیا ڈھونڈ رہے ہو اور تم کر بھی کیا سکتے ہو۔؟ وہ یمن کے خلاف 17 ممالک کے سابقہ اتحاد کا حوالہ دے رہے تھے، جو سعودی فوج کے مطابق (تنازعہ کے آغاز میں) یمنی مزاحمت کو 3 دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کے اندر کچل دینے والا تھا۔ لیکن یہ مزاحمت 8 سال سے زائد عرصے تک جاری رہی اور مذکورہ اتحاد، جس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دو اہم رکن تھے، پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوا اور اس اتحاد نے جنگ بندی کی طرف رجوع کیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ ناکام اتحاد میں حالیہ اتحاد کے برعکس امریکہ، انگلینڈ اور اسرائیل نے باضابطہ طور پر اپنی موجودگی کا اعلان نہیں کیا تھا، تاہم حالیہ اتحاد میں وہ کھلے عام میدان میں اترے ہیں۔ نئے اتحاد میں ان کی کھلم کھلا موجودگی نے یمن کے لیے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے اور یمنی مزاحمت نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ اور انگلستان کے تمام مفادات ہمارے جائز مقاصد بن چکے ہیں۔
2۔ سابقہ اتحاد کے مقابلے میں امریکہ اور انگلستان کے پاس یمن پر حملہ کرنے کے نئے اہداف نہیں ہیں، لیکن یمنی مزاحمتی قوتوں کے میزائل،اور ڈرون وغیرہ کے حملے خطے میں امریکہ اور برطانیہ کے متعدد مفادات کو نقصان اور انکے نازک اسٹریٹجک اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا بحرین کے ساحل پر تعینات ہے۔ اس بحری بیڑے کے مقام تک یمن کا فضائی فاصلہ 1400 کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ یہ بحری بیڑا آسانی سے یمنی مزاحمت کے بیلسٹک میزائلوں اور دھماکہ خیز ڈرونز کا نشانہ بن سکتا ہے۔ واضح رہے کہ مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع تجارتی بندرگاہ ایلات سے یمن کا فضائی فاصلہ تقریباً 2000 کلومیٹر ہے۔ غزہ جنگ کے بعد بندرگاہی شہر ایلات پر یمنی مزاحمت کا حملہ ہوا اور آج یہ ویران زمین میں تبدیل ہوچکا ہے اور اس کے صیہونی باشندے اس شہر کو چھوڑ چکے ہیں۔
ایلات بندرگاہ اور یمن کے درمیان 2,000 کلومیٹر کے فاصلے کا موازنہ کرنے سے، بحرین کے ساحل پر، جو یمن سے 1400 کلومیٹر سے بھی کم دور ہے، پر امریکی 5ویں بحری بیڑے پر حملہ کرنا بآسانی ممکن ہے۔ اب تک یمنی مجاہدین صرف صیہونی حکومت کے لیے ایندھن اور سامان لے جانے والے بحری جہازوں پر حملہ کرتے تھے، لیکن اب تمام وہ بحری جہاز جن کا تعلق امریکہ، انگلستان اور حالیہ اتحاد کے دیگر رکن ممالک سے ہوگا، (خواہ وہ سامان لے کر جا رہے ہوں)۔ یمنی مزاحمت کے جائز اہداف بن چکے ہیں۔ کل صنعاء کے پولیٹیکل بیورو کے رکن محمد البخیتی نے اس بات پر زور دیا کہ “اس حملے سے امریکہ اور انگلینڈ نے اپنے آپ کو بحیرہ احمر اور باب المندب میں نقل و حرکت سے محروم کر دیا ہے۔”
3۔ مندرجہ بالا نکات بہت سے مغربی ذرائع ابلاغ اور ماہرین کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہیں، جن میں سے چند مثالوں کا حوالہ دینا کافی ہوگا۔
* شکاگو ٹریبیون کے معروف تجزیہ کار “ڈینیل ڈی پیٹریس” لکھتے ہیں، “بائیڈن انتظامیہ نے یمن میں حوثی اہداف پر حملہ کرکے خودکشی کی ہے۔۔۔ امریکہ جتنا زیادہ طاقت کا آپشن استعمال کرے گا، اتنا ہی زیادہ اس بات کا امکان ہے کہ حوثی بڑے پیمانے پر حملوں کا جواب دیں گے۔”
* ایک امریکی فوجی اہلکار، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا، اس نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا، “ہم یمن کو شکست نہیں دے سکتے۔۔۔۔ ہم پہلے ہی انصار اللہ کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کا تجربہ کرچکے ہیں۔”
* نیویارک ٹائمز نے امریکہ کی نازک صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنگ کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: “یہ حملے کوئی روک نہیں لگا سکتے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ یمن پر حملے یمنیوں اور امریکی بحریہ۔” کے درمیان تنازعہ کو مزید بڑھا دیں گے۔
* ڈیلی میل نیوز سائٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ: “مغرب بھاری قیمت ادا کرے گا.”
* امریکی خبر رساں ایجنسی بلومبرگ نے یمن پر امریکی اور برطانوی حملے کو ایک “بڑا جوا” قرار دیتے ہوئے لکھا کہ “صنعاء کا مقابلہ کرنا اور اسے بحری جہازوں پر حملے سے روکنا آسان کام نہیں ہے.”
4۔ بعض مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یمن پر امریکی اور برطانوی حملے ہیگ ٹریبونل کے نتائج سے توجہ ہٹانے کے مقصد سے کیے گئے ہیں۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ اسرائیل کے جنگی جرائم کی نشاندہی کرنے والی دستاویزات اس بین الاقوامی عدالت میں جنوبی افریقہ کے ملک (جسے نیلسن منڈیلا کا ملک کہا جاتا ہے) نے پیش کی ہیں۔ا، یہ بات کافی واضح ہے کہ اس ٹربیونل میں صیہونی حکومت کی مذمت قطعی ہوگی۔ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی یمن پر حملہ کرکے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ مذکورہ حملے کے سائے میں عالمی رائے عامہ میں اس مذمت کو منحرف کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
اگرچہ یہ نظریہ کسی حد تک درست بھی ہوسکتا ہے ہے، لیکن یہ بہت سے دیگر شواہد اور حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ بچوں کو مارنے والی اسرائیلی حکومت کے مظالم حیران کن حد تک عالمی رائے عامہ کی ایک وسیع سطح تک پہنچ چکے ہیں، اس قدر کہ ہر روز عالم اسلام کے علاوہ امریکہ اور کئی یورپی ممالک میں ہم غزہ کے مظلوم عوام کے دفاع اور اسرائیل اور مغربی حکومتوں کے وحشیانہ جرائم کے خلاف ہزاروں اور کبھی لاکھوں لوگوں کے مظاہرے دیکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہیگ ٹربیونل کا نتیجہ جو بھی ہو، وہ اسرائیل اور اس کے حامیوں بالخصوص امریکہ اور انگلستان کے خلاف پوری دنیا کے عوام کے غصے کے طوفان کو نہیں چھپا سکتا۔
5۔ ایلات کی بندرگاہ پر یمن کے مسلسل حملے (جس میں ایک معتبر ذریعے کے مطابق مستقبل قریب میں مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقے اور شہر بھی شامل ہوں گے) نیز صیہونی حکومت کے لیے سامان اور ایندھن لے جانے والے بحری جہازوں پر حملے اسلام کے انسانی جذبے کی وجہ سے ہیں۔ یمن کے بے لوث عوام کا مقدس غصہ غزہ کے مظلوم عوام کے دفاع میں ہے۔ یمن پر کل کے امریکی اور برطانوی حملے، جو صہیونیوں کے جرائم اور نسل کشی کی حمایت میں کیے گئے، نہ صرف یمنی عوام کے انقلابی جذبے اور بلند جذبے کو معمولی نقصان نہیں پہنچا سکتے بلکہ ان حملوں نے یمن کے بہادر اور پرجوش لوگوں کو اپنے راستے پر چلنے کے لیے مزید پرعزم بنا دیا ہے۔ گذشتہ روز یمن پر امریکہ اور انگلستان کے حملے کے چند گھنٹے بعد اس ملک کے انقلابی اور خدا پرست عوام نے صنعاء میں کئی ملین کا اجتماع کرکے مغربیوں اور عبرانیوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔
6۔ امریکہ اور انگلستان کی طرف سے فوجی حملے کی دھمکی کے بعد (کل کے حملے سے دو دن پہلے) یمنی مزاحمت کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک محمد علی الحوثی نے دھمکی دینے والے ممالک سے کہا: ہم امام علی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں۔ “ہم اس وقت تک بارش نہیں برساتے جب تک کہ ہم سیلاب شروع نہ کریں۔” ». یہ حوالہ جنگ جمل کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام کے مشہور کلام کی طرف ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ جنگِ جمل کے، ہمارے آقا حضرت امیر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان دونوں لشکروں کو بیان فرمایا۔ ہم شور نہیں کرتے، جب تک کہ ہم کارروائی نہ کریں اور بارش کی طرح نہیں برستے، جب تک کہ ہم سیلاب شروع نہ کر دیں (نہج البلاغہ خطبہ 9) مغربی دشمنوں کے سابقہ اتحاد کے ساتھ 8 سالہ جنگ میں یمن کے مزاحمتی ریکارڈ اور غزہ جنگ کے دوران ان کے کردار پر ایک مختصر نظر ڈالنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا امیر المومنین علی علیہ السلام کے الفاظ پر ایمان ہے۔
7۔ اور آخر میں، یمنی مزاحمت کے رکن “نصرالدین عامر” کے ایک فلسطینی صحافی کے ساتھ انٹرویو کے ایک حصے کا حوالہ دیتے ہوئے، جو کل امریکہ اور انگلستان کے حملے کے بعد دیا گیا، عرائض کو ختم کرتے ہیں۔ نصرالدین عامر نے رپورٹر کو بتایا، “اس سے پہلے ہمیں شرم آتی تھی کہ صرف غزہ پر بمباری کی گئی اور ہم پر بمباری نہیں کی گئی!” اب ہمیں سکون ہے کہ ہم اس میدان میں غزہ کے لوگوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
تبصرہ کریں