یوم یکجہتی کشمیر اور ہمارا فریضہ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیاء میں پاکستان کا سب سے اہم ترین مسئلہ ہے۔ ماہرین سیاسیات مسئلہ کشمیر کے حل کو جنوبی ایشیاء اور ریجن میں امن کی کنجی تصور کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام ہمیشہ سے ہی کشمیری عوام کے ساتھ رہے ہیں۔ ماضی میں کشمیری عوام کی اخلاقی و سیاسی مدد کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام نے مالی مدد بھی جاری رکھی۔ حکومت پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کا مسئلہ اپنی خارجہ پالیسی کا اہم جزو قرار دیا ہے۔ کشمیر میں مزاحمت کاروں کی دفاعی کارروائیوں کو بھی پاکستان کی حمایت حاصل رہی ہے۔ آج ایک عجب اتفاق ہے کہ پانچ فروری کا دن ہے اور پاکستان بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک خبر موصول ہوئی ہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف انتقال کر گئے ہیں۔ اب اس بات کو حسن اتفاق کہا جائے یا قدرت کی طرف سے کوئی سبق موجود ہے۔
پرویز مشرف پاکستان کے وہ حکمران گزرے ہیں کہ جنہوں نے مارشل لاء کے بعد جب حکومت کو سنبھالا تو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے مشرف کے ساتھ دو ہی آپشن رکھے یا تو ساتھ دیا جائے یا پھر دشمنی قبول کی جائے، پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے میں ہی اپنی عافیت جانتے ہوئے فیصلہ لیا۔ شاید پرویز مشرف یہ بھی جانتے تھے کہ امریکہ کا ساتھ دینے کے نتیجہ میں ان کا اقتدار طویل مدت کے لئے محفوظ ہو جائے گا اور بعد ازاں ایسا ہی ہوا۔ پرویز مشرف کے زمانہ میں ہی پاکستان میں بہت سی تبدیلیوں نے جنم لیا۔ سیاسی ماہرین اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کی مختلف آراء اور تجزیات کے مطابق مشرف نے جہاں پاکستان میں متعدد تبدیلیاں شروع کی تھیں، وہاں ساتھ ساتھ امریکہ کی خوشنودی کے لئے مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والے گروہوں کے بارے میں بھی پالیسی کو تبدیل کر دیا تھا۔
آزاد کشمیر میں مجاہدین کے لئے تربیتی مراکز کا بند کرنا اور اسی طرح کشمیر کاز کے لئے پاکستان میں سرگرم عمل جماعتوں جن میں سرفہرست حزب المجاہدین، لشکر طیبہ اور جماعۃ الدعوۃ تھیں، ان سب کو وقت کے ساتھ ساتھ پس پشت ڈال دیا گیا اور انہی پالیسیوں کا تسلسل آج تک برقرار ہے کہ کشمیر کے لئے مسلح جدوجہد کا عزم رکھنے والے حافظ سعید کو امریکی خوشنودی کی خاطر نظر بند یا قید رکھا گیا ہے۔ لہذا یہی وہ زمانہ تھا کہ جب امریکی ایماء پر پاکستان میں جہاد کے نظریہ کو مشکوک بنا دیا گیا، ظالم و جابر قوتوں کے سامنے اپنا حق مانگنے اور مزاحمت کو جرم قرار دیا گیا اور اس سب کا براہ راست منفی اثر کشمیر کی آزادی کی تحریکوں پر پڑتا رہا۔
بہر حال آج ہی پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر ہے اور آج ہی مشرف صاحب دنیا سے کوچ کر گئے ہیں۔ پھر بھی پاکستان کے عوام سڑکوں پر موجود ہیں اور کشمیر کے عوام سے اپنی ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ آج کے دن ہمیں سوچنا یہ چاہیئے کہ کیا واقعی ہم کشمیر کے کاز کے ساتھ سنجیدہ ہیں؟ کیا ہم نے گذشتہ پچیس سالوں میں کشمیر کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے ہیں؟ جو ہم سنہ1948ء سے مسلسل کرتے آئے تھے؟ آج کے یوم یکجہتی کشمیر پر موجودہ حکومت سے یہ سوال ضرور کیا جا رہا ہے کہ کیا ہم کشمیر کی حمایت صرف زبانی کلامی کریں گے؟ یا پھر یہ کہ عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلہ کے منصفانہ حل کے لئے ہم کوئی موثر لابنگ کرسکتے ہیں۔؟
خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب پانچ اگست سنہ2019ء سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھارت کی حکومت کی طرف سے تبدیل کر دیا گیا ہے تو ایسے حالات میں سیاسی و دانشور حلقوں میں یہ سوال بہت شدت کے ساتھ اٹھتا ہوا نظر آتا ہے کہ کیا یہ امریکی ثالثی کا نتیجہ تو نہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ اب کشمیر کو فراموش کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے سوالات اب جنم لے رہے ہیں اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ کہیں کشمیر کا سودا تو نہیں کر دیا گیا ہے۔؟ بہرحال ان سب سوالات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام اپنے کشمیر کے مظلوم بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ یکجہتی دراصل اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کے عوام دنیا بھر میں کسی بھی مظلوم اقوام پر ظلم برداشت نہیں کرتے، چاہے فلسطین میں صہیونی غاصبانہ تسلط ہو یا یمن میں کثیر ملکی اتحاد کی بمباری کے نتیجہ میں ہونیوالی قتل و غارت ہو، یا پھر شام و عراق یا لیبیا سمیت افغانستان میں امریکی و صہیونی دہشت گردانہ کارروائیاں ہوں، پاکستان کے عوام نے اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے اس حدیث کے مصداق عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں اور جسم کے ایک حصہ میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔
ان تمام تر شکووں اور شکایتوں کے باوجود آج یکجہتی کشمیر کے لئے ہمیں کیا کام انجام دینا ہوں گے، تاکہ ہم کشمیر کا مسئلہ موثر انداز سے اجاگر کرسکیں اور کشمیری عوام کے لئے ایک امید کی کرن ثابت ہوں، بالآخر کشمیری بھائیوں کی پاکستان سے ہی امیدیں وابستہ ہیں۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ حکومت مسئلہ کشمیر کے لئے موثر سفارتکاری کے طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی برادری کے سامنے اپنا ترجیحی مسئلہ بنا کر پیش کرے،۔ عالمی برادری کو باور کروایا جائے کہ ہندوستان کی حکومت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی منکر ہوچکی ہے، کشمیر کی وادی میں ہندوستان کی دس لاکھ فوج کس مقصد کے لئے تعینات ہے؟ کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے بھارتی فوج کے مظالم کو بیان کیا جائے۔ حکمرانوں کو چاہیئے کہ اپنے فی الوقتی ذاتی مفادات کی بجائے قومی اور اجتماعی مفادات کو ترجیح دیں۔
ماضی میں کشمیری عوام کے ساتھ حکومتی سطح پر کی جانے والی کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے۔ کشمیر کے عوام کی ہر ممکنہ سیاسی، اخلاقی، مالی اور مسلح مدد کی جائے۔ کشمیر کے عوام کی عزت و تکریم کی جائے، نہ کہ ان کو اپنا غلام یا خطے میں بھارت کے خلاف ایک پراکسی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ کشمیری عوام کی مدد کو اپنا شرعی، اخلاقی اور سیاسی فریضہ سمجھا جائے۔ کشمیریوں کو اسی طرح سے طاقتور کیا جائے، جس طرح فلسطین کے عوام کو طاقتور کیا گیا ہے، تاکہ وہ دشمن کی ہر جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔ اگر حکومت ان اقدامات کو انجام دیتی ہے تو یقینی طور پر مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل جلد ہی نکل آئے گا۔
مقالہ کے اختتام پر ایک اور اہم بات کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے نہ تو بھارت اور نہ ہی پاکستان کی حکومتوں کو کوئی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے فیصلہ جات ان پر تھونپ دیں، جیسا کہ بھارت کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا ہے، یہ سراسر ناانصافی ہے۔ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کشمیر کے عوام کو کرنے دیا جائے۔ اگر کشمیر کے عوام ہندوستان کے ساتھ رہنے کا اکثریت رائے کے ساتھ فیصلہ کر لیتے ہیں تو ان کی رائے کا عالمی برادری اور پاکستان سمیت تمام فریقوں کو احترام کرنا چاہیئے اور اسی طرح اگر کشمیر کے عوام اکثریت رائے سے یہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو پاکستان ان کو خوش آمدید کرے اور تمام دنیا سمیت بھارت اس فیصلہ کو تسلیم کرے۔ اگر ان دو راستوں سے ہٹ کر بھی کشمیری عوام اپنی علیحدہ ریاست کے حق میں اکثریت رائے رکھتے ہیں تو بھی تمام فریقوں کو اس رائے کا احترام کرنا چاہیئے۔
تبصرہ کریں