اسرائیلی فوج ناقابل شکست ہے یا مقاومت ناقابل شکست عزم ہے؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) فلسطین کے بارے میں بات کرتے ہوئے اللہ کے وعدوں اور زمینی حقائق کی روشنی میں امید افزا موقف اپناتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ فلسطین کا مستقبل روشن ہے۔ رہبر انقلاب کے دفتر سے وابستہ ویب گاہ (KHAMENEI.IR) نے اس موضوع اور اس امید افزا نگاہ پر تبصرہ کرنے کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار مسعود اسداللّٰہی کا انٹرویو شائع کیا ہے۔ اسداللّٰہی کا خیال ہے کہ مغربی ایشیا میں محور مقاومت کی فتوحات نے فلسطین کے وقائع کی رفتار کو مقاومت کے مفاد میں تیزرفتار کر دیا ہے۔
انٹرویو کا پورا متن:
سوال: ہمارا پہلا سوال “ناقابل شکست فوج” کے نعرے کے متبادل کے طور پر “ناقابل شکست عزم” کے ابھر کر آنے کے مسئلے سے تعلق رکھتا ہے، سوال یہ ہے کہ محاذ مقاومت کے عزم و ارادے کا متبادل کے طور پر کیونکر ابھرا؟ عزم مقاومت کن مراحل سے گذر کر ناقابل شکست اسرائیلی فوج کا متبادل بنا؟
جواب: جعلی صہیونی ریاست سنہ 1948ع میں اس وقت کی اقوام متحدہ اور چند ہی مغربی ممالک کی مدد سے قائم ہوئی، تو اس نے کچھ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا اور جن مستکبر قوتوں نے اسے قائم کیا ان ہی نے اس کی پشت پناہی کی۔ سنہ 1948، 1956، 1967، 1973 و 1982 میں کچھ جنگیں ہوئیں۔ ان تمام جنگوں میں صہیونی فوج نے عرب ممالک کی افواج کو شکست ہی نہیں دی بلکہ انہیں درہم برہم کرکے بکھیر دیا۔
چنانچہ صہیونی فوج نے اپنی ایک تصویر فراہم کی ایسی فوج کے طور پر جس کو کسی جنگ میں بھی شکست کا سامنا نہیں ہوتا! اور وہ ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتی ہے اور عربی میں اس کو “الجَيشُ الَّذِي لا يُقهَزُ” کہا جانے لگا تھا یعنی “ایسی فوج جو کبھی مقہور اور مغلوب نہیں ہوتی”۔ صہیونیوں نے 1948 سے 1982ع تک اس عنوان کی کامیابی سے حفاظت کی، اور مغرب کی ابلاغی مشینری نفسیاتی جنگ کے ایک موضوع کے تحت اس تاثر کا پرچار کیا اور تابع مہمل عرب ذرائع نے بھی ان کی پیروی میں اس کی تشہیر کی [صہیونی-انگریزی پالیسی کے تحت، خوف پھیلا کر تسلط جمانے کی غرض سے]؛ اور یوں یہ ہرزہ سرائی ایک قابل قبول کہاوت اور پھر مسلّمہ قاعدے میں بدل گئی۔ جس کی بنا پر عربوں میں یہ تصور عام ہؤا کہ “اسرائیل کے ساتھ لڑائی ایک بیہودہ فعل ہے، کیونکہ اسے شکست نہیں دی جا سکتی”۔ بہرحال صہیونی فوج نے آخری باقاعدہ جنگ سنہ 1982ع میں لڑی اور لبنان پر حملہ کیا، جنگ میں لبنانی فوج ہار گئی اور غاصب فوج دارالحکومت بیروت تک پہنچ گئی، لیکن اس بار وہاں کے عوام گویا خوفزدہ نہیں تھے، چنانچہ صہیونی قابضوں کے خلاف ایک مزاحمت و مقاومت تشکیل پائی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اور ہاں یہ درست ہے کہ فلسطینیوں کے ہاں کئی جماعتیں تھیں جو مقاومتی جماعتیں کہلواتی تھیں، لیکن چونکہ ان کا نظریہ بائیں بازو کا کمیونسٹ نظریہ تھا اور وہ عربی قوم پرستی کو اپنا عقیدہ بنائے ہوئے تھیں لہذا وہ مقاومت کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیل نہیں دیتے تھے؛ اور باوجود اس کے، کہ ان میں سے بعض گروہوں نے ابتداء میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی تھیں، لیکن وہ وقت گذرنے کے ساتھ فکری اور نظریاتی لحاظ سے بدل جاتی تھیں اور اپنا نظریہ اور مقصد کھو جاتی تھیں اور پڑوسی ممالک کے اندر ملیشیاؤں میں بدل کر ان ممالک کے اندرونی تنازعات میں ملوث ہوجاتی تھیں جیسا کہ تاریخ نے لبنان اور اردن میں دیکھا۔
گوکہ اردن میں خانہ جنگی نہیں ہوئی لیکن فلسطینی جماعتیں اس ملک کے اندرونی مسائل میں الجھ جاتی تھیں اور اس کی ایک جماعت کے حق میں دوسری جماعت کی مخالفت کرتی تھیں اور یوں وہ اس ملک میں قابل نفرت بن جاتی تھیں۔ عراق میں بھی فلسطینی جماعتوں نے عراقی قوم کے کچلنے میں صدام کا ساتھ دیا۔ لیکن 1982ع میں لبنان کی سرزمین پر اسلامی مقاومت تشکیل پائی جس کا غالب نظریہ تعلیمات محمد و آل محمد (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) سے ماخوذ تھا۔
یہ مقاومت اسلامی رفتہ رفتہ طاقتور ہوئی، اس نے تجربہ حاصل کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد سے ایسی طاقت میں بدل گئی جس نے بہت سے مسلط کردہ قواعد کو بدل کر رکھ دیا اور یوں 1980ع کی دہائی میں ہی صہیونی فوج پہلی بار، لبنان میں پسپائی پر مجبور ہوئی۔ لبنان کی مقاومت اسلامی نے سنہ 1985ع میں صہیونی فوج کو بیروت اور جنوبی لبنان کے بہت سے علاقوں سے نکال باہر کیا۔ صہیونیوں کو جنوبی لبنان میں “امن کی پٹی” میں پناہ لینا پڑی۔ یہ یہودی ریاست کی فوج کی پہلی بڑی شکست تھی اور عرصہ 15 سال بعد بھی اسلامی مقاومت اور حزب اللہ لبنان نے سنہ 2000ع میں اسے پہلی شکست سے بھی زیادہ بڑی شکست سے دوچار کیا؛ البتہ سنہ 1993ع اور سنہ 1996ع کی جنگوں میں بھی صہیونیوں کو منہ کی کھانا پڑی تھی اور غاصب ریاست کو اس حفاظتی پٹی میں رہنے کی بہت بڑی جانی اور مالی قیمت چکانا پڑی، چنانچہ مئی سنہ 2000ع میں حزب اللہ نے حملہ کیا تو انھوں نے مزاحمت کے بغیر ہی پسپائی اختیار کی۔ یہ ان کی دوسری بڑی پسپائی تھی۔
لبنان کے جنوب میں کچھ علاقوں پر تنازعہ پایا جاتا ہے لیکن لبنان بحیثیت ایک عرب ملک، صہیونیوں کے قبضے سے مکمل طور پر آزا ہو گیا۔ 1982ع سے 1985ع تک، مقاومت اسلامی نے وہ کچھ کرکے دکھایا جو کوئی بھی باقاعدہ عرب فوج نہيں کر سکی تھی؛ اور عارضی اسرائیلی ریاست کو پہلی بار کوئی بھی رعایت لئے بغیر کسی عرب ملک سے بھاگنا پڑا۔ یہ عرب-اسرائیل تنازعے کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا۔ چنانچہ مسلمانوں اور عرب نوجوانوں نے جنگ کے لئے نئی روشیں اختیار کیں اور مقاومتی جماعتوں کی شکل میں صہیونیوں کے خلاف نبردآزما ہوئے۔ ان نئی جماعتوں کے سیاسی اور مزاحمتی نظریات بھی اسلامی تعلیمات اور بالخصوص تعلیمات اہل بیت (علیہم السلام) سے ماخوذ ہیں۔
محور مقاومت کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا اور لبنان سے صہیونیوں کے بھاگ جانے کے بعد مقبوضہ فلسطینی سرزمین دوسری انتفاضہ تحریک کا آغاز ہؤا اور یہ ایک بڑا واقعہ تھا۔ فلسطینیوں نے لبنانی نوجوانوں کی عظیم فتوحات سے یہ سب سیکھ لیا تھا۔ الاقصیٰ انتفاضہ نے صہیونی ریاست کی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے۔ اس وقت صبرا اور شتیلا کا قصائی کہلانے والا جرائم پیشہ صہیونی آنجہانی ایریل شیرون (ariel Sharon) غاصب ریاست کا وزیر اعظم تھا جو کسی صورت میں بھی عربوں کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا، لیکن اسی شخص کو سنہ 2005ع میں غزہ کی پٹی خالی کرنے کا حکم دینا پڑا۔ غاصب ریاست کی دوسری اہل پسپائی غزہ سے انخلاء کی صورت میں انجام کو پہنچی۔ یہ مقاومت اسلامی کی دوسری بڑی کامیابی تھی جو حاصل ہوئی اور ایک بار پھر ثابت ہؤا کہ “ناقابل شکست فوج” کا عنوان ایک جھوٹا عنوان تھا۔
“ناقابل شکست عزم” کی تخلیق لبنان میں ہوئی اور اس عزم نے مقاومتی تحریکوں کی صورت میں، فلسطین میں بڑی کامیابیوں کو رقم کیا۔ گذشتہ سال فلسطینیوں نے پہلی بار ایک جنگ کا آغاز کیا جس کا عنوان “سیف القدس” (قدس کی تلوار) تھا۔ اس جنگ میں صہیونیوں کے پاس کوئی طاقت نہیں رہی تھی اور وہ صرف جرائم اور عام لوگوں اور بچوں اور خواتین کے قتل میں مصروف رہے۔ یہ جنگ صرف گیارہ دن تک جاری رہی اور صہیونی جنگ بندی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے۔ اس جنگ میں ان کو مطلق شکست ہوئی اور یہ 2006ع کی 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی عظیم کامیابی کے بعد محور مقاومت کی دوسری بڑی کامیابی تھی۔
لبنانی مقاومت نے اسرائیل فوجی کا افسانہ باطل کردیا، اور جس ٹینک “میرکاوا” پر صہیونی دنیا بھر میں فخر کرتے تھے، اس کی ساکھ خاک میں ملاتے ہوئے کئی میرکاوا ٹینکوں کو تباہ کردیا۔ اس فتح نے غزہ میں فلسطینی مجاہدین کو بھی حوصلہ دیا۔ غزہ کو صہیونی فوج سے خالی کرایا گیا تھا اور اس محصور علاقے کے مجاہدین نے حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد اور بطور خاص شہید لیفٹیننٹ جنرل الحاج قاسم سلیمانی کے منفرد کردار کی برکت سے، صہیونیوں کو کئی بار شکست دے کر صہیونی افسانوی طاقت کو قصہ پارینہ میں تبدیل کردیا۔
اگست سنہ 2022ع کے دوسرے ہفتے میں صہیونیوں کی آخری لڑائی غزہ میں سرگرم عمل اسلامی جہاد تحریک کے خلاف لڑی گئی۔ جہاد اسلامی نے صرف دو دن کے عرصے میں 950 میزائل اور راکٹ اور سینکڑوں مارٹر گولے اسرائیلوں پر داغے اور مقبوضہ قدس شریف اور تل ابیب میں اسرائیلی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، اور غزہ کے قریب کے واقع مقبوضہ شہروں “عسقلان، اسدود اور سیدروت” میزائلوں کا نشانہ بنے اور یہ ایک چھوٹی سی تحریک کے لئے بہت عظیم کامیابی ہے۔ تحریک جہاد اسلامی نے تھوڑے سے وسائل بروئے کار لا کر بڑی فتح حاصل کی، اس نے تمام رائج تصورات کو درہم برہم کرکے اور خوف و ہراس کو برآمد کرکے غاصبوں پر مسلط کردیا۔
آج کی صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی مزید یہ کہتے ہوئے نہیں دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیلی فوج “ناقابل شکست” ہے؛ بلکہ آج ایک “ناقابل شکست عزم” کی بات ہو رہی ہے جو مقاومت (مزاحمت) کی صورت میں ظہور پذیر ہؤا ہے۔
ان ہی حقائق کی رو سے صہیونی ریاست نیل سے فرات کے دعؤوں سے دستبردار ہوکر مقاومت کے حملوں سے بچنے کے لئے مقبوضہ فلسطین کے اندر ہی کنکریٹ کی اونچی دیواریں تعمیر کرنے پر مجبور ہوئی ہے؛ لیکن غاصب یہودیوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ لبنان اور غزہ میں اسلامی مقاومت کی تنظیمیں ہزاروں میزائلوں، راکٹوں، توپوں اور ڈرون طیاروں سے لیس ہو چکی ہیں چنانچہ یہ دیواریں بھی اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ صہیونی غاصب 1948ع کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اپنے لئے دار الامان سمجھتے تھے لیکن رمضان سنہ 1443ھ میں فلسطینی نوجوانوں نے ان علاقوں میں پے درپے درجنوں حملے کرکے اس تصور کو بھی باطل کردیا۔ یہ نوجوان مذکورہ دیواروں کو پھلانگ کر صہیونی دشمن پر حملہ آور ہوئے تھے۔ ان حملوں نے غاصبوں کو گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کردیا تھا۔
تبصرہ کریں