اسرائیل ہندوستان کو ایران مخالف محاذ میں شامل کرنا چاہتا ہے: ڈاکٹر سلطان شاہی

ہندوستان کے رہنماؤں جیسے گاندھی جی اور نہرو جی نے کبھی بھی فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا اگر چہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف بھی کوئی ٹھوس موقف اختیار کیا تھا۔

فاران؛ علی رضا سلطان شاہی نے علم سیاسیات (political science) میں ایم اے کی ڈگری اور فلسطین کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے آپ نے صہیونیت کے موضوع پر بھی کافی رسالے اور مقالے تحریر کئے ہیں۔ آپ سے بھارت اور اسرائیل تعلقات کے موضوع پر ہونے والی ایک مختصر گفتگو کو محترم قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
سوال: بھارت اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں جو پہلے سے زیادہ گہرائی اور گیرائی آ رہی ہے اس کے کیا اسباب و عوامل ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹر سلطان شاہی: اسرائیل اپنی بیرونی اسٹریٹجک (Peripheral strategy) کے تحت اس تگ و دو میں ہے کہ علاقے کے غیر عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرے، جب اس اسٹریٹجک کا آغاز ہوا تو اسرائیل نے ایران، ترکی، پاکستان یا علاقے کی دیگر اقلیتوں جیسے کردوں اور دروزوں (۱) وغیرہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔ کردوں کے ساتھ اسرائیل نے تعلقات قائم کئے ایران کے ساتھ تعلقات قائم کئے ترکی کے ساتھ۔ یہ پالیسی در حقیقت بن گورین کی تھی جو انہوں نے اسرائیل کے قیام کے آغاز میں اپنائی یعنی ۱۹۶۰ کی دہائی میں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس پالیسی پر عمل درآمد رک گیا چونکہ اس اسٹریٹجک کا اصلی بانی ایران تھا۔ اسرائیل غیر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کر کے اپنی لابی بنانا چاہتا تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس بیرونی اسٹریٹجک کو ایران کے مقابلے میں استعمال کرنا شروع کیا۔ صہیونی ریاست نے ایران کے حامی ملکوں کو اپنی طرف کھینچنے اور ان کے ساتھ تعلقات کرنے کی کوشش شروع کر دی جو ایران کے خلاف امریکی پابندیوں میں اسرائیل و امریکہ کی مدد کر سکتے تھے۔ مثال کے طور پر ایران پر امریکی پابندیوں کے دوران، روس، چین اور ہندوستان تھے جو ایران کی مدد کر رہے تھے اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ وہ ان ملکوں کو اپنے ساتھ جوڑے خاص طور پر اس دور میں جب امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کرے اور پہلی پابندیوں کو شدید تر کرے۔ مثال کے طور پر روس کے ایران کے ساتھ تعلقات کافی گہرے ہیں آپ دیکھتے ہیں کہ نیتن یاہو حتی ایک سال میں کئی مرتبہ روس کا چکر لگاتا ہے۔ یہ ایران پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے بھی ہے اور اس اثر و رسوخ کی وجہ سے بھی ہے جو ایران روس کے اندر رکھتا ہے۔ اقتصادی میدان میں ہندوستان اور چین ایران کے خلاف امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو غیر موثر ثابت کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اسرائیل کوشش کرتا ہے ان دو ملکوں کے ساتھ تعلقات برقرار کر کے ایران کے خلاف محاذ قائم کرے اور ایران کو امداد رسانی کے راستے بند کرے۔ اور نہ صرف ہندوستان بلکہ اسرائیل ان تمام ملکوں کو اپنے ساتھ جوڑنے اور ایران کے خلاف اکسانے کے لیے کوشاں ہے جو ایران کی مدد کر سکتے ہیں۔
دوسرا عامل یہ ہے کہ اسرائیل کی سرکار کا پبلیک ڈیموکریسی پہلو بہت مضبوط ہے یعنی اس کے غیر ملکی دورے، لوگوں کے ساتھ روابط، NGO کی سرگرمیاں جیسا کہ نیتن یاہو کے دور حکومت میں زیادہ دیکھنے کو ملا اگر چہ یہ دائیں بازوں ہیں اور پہلی حکومتوں کی نسبت زیادہ مذہبی ہیں لیکن گزشتہ حکومتوں سے کہیں زیادہ نیتن یاہو کی خارجہ پالیسی مستحکم تھی۔
ہندوستان ثقافتی میدان میں بھی پورے ایشیا میں ایک موثر کردار ادا کرنے والا ملک ہے۔ ہالی وڈ کے بعد بالیوڈ فلم انڈسٹری، فلم سازی کے میدان میں دوسرے نمبر پر ہے لیکن نیتن یاہو اپنے ہندوستان دورے میں بالیوڈ میں جا کر امیتابھ بچن کے ساتھ سیلفی بنائی، یہ در حقیقت پبلیک ڈیموکریسی میں ایک اہم ثقافتی اقدام ہے یعنی سماجی اور ثقافتی شخصیات کے ساتھ روابط بڑھانا۔ اور اس کا مقصد بھی زیادہ تر یہ ہے کہ اگر وہ کسی اہم شخصیت کے ساتھ اس طرح سے تعلقات قائم کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے وہ عملی طور پر ایران کو صدمہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سوال؛ کیا یہ تعلقات صرف ڈپلومیسی اور سفارتکاری کی حد تک ہیں یا اس سے زیادہ گہرے ہیں یعنی کیا یہودیت کا ہندو مذہب کے ساتھ بھی کوئی رشتہ ہے؟
۔ ہم نے ہندو مذہب اور یہودیت یا صہیونیت کے درمیان پائے جانے والے مشترکات کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی لیکن یہ بات واضح ہے کہ ہندوستان کے رہنماؤں جیسے گاندھی جی اور نہرو جی نے کبھی بھی فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا اگر چہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف بھی کوئی ٹھوس موقف اختیار کیا تھا۔ لیکن اتنا مسلم ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کو انہوں نے پیش نظر رکھا اور اتنی آسانی سے وہ فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت و مظالم کو تسلیم نہیں کر سکے۔ غزہ میں جو ظلم و تشدد کا سلسلہ جاری ہے یا لبنان کے خلاف جو اسرائیل وقتا فوقتا جارحیت کرتا ہے ہندوستان نے اسے اسرائیل کا حق تسلیم نہیں کیا اور آج بھی وہ فلسطینوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کو جائز نہیں سمجھتا۔ لیکن ہندوستان جیسے ایک آزاد ملک سے اس سے زیادہ کی توقع پائی جاتی ہے اسے اسرائیل کے جرائم کے خلاف نہ صرف خاموشی اختیار کرنا چاہیے بلکہ ٹھوس موقف اختیار کرنا چاہیے اور کم سے کم اپنے سفارتی تعلقات سے ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل کو نہتے فلسطینوں مظالم ڈھانے سے روکنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) دروزی، اسرائیل کی عربی النسل اقلیت کا ایک منفرد شناخت کا حامل مذہبی گروہ ہے۔ سنہ ۲۰۱۲ء میں اسرائیل میں رہنے والے دروزوں کی کل تعداد ۱۳۰۶۰۰ تھی۔ گوکہ ان کا عقیدہ اسماعیلی مذہب سے وجود میں آیا ہے مگر ان کو مسلمان تصور نہیں کیا جاتا ہے سنہ ۱۹۵۷ء میں حکومت اسرائیل نے دروزی رہنماؤں کی درخواست پر ان کو ایک الگ نسلی گروہ کی شناخت دی۔ دروز عربی زبان بولتے ہیں، اسرائیل کے باشندے ہیں اور اسرائیلی دفاعی فوج میں خدمات انجام دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔