امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی شخصیت اسلامی انقلاب کی تشکیل کا اہم ترین سبب

امام کی خصوصیت یہ تھی کہ ہمیشہ ہر مسئلے کے جڑ پر توجہ مرکوز کرتے تھے اور تمام مسائل کی جڑ در حقیقت وہی عالمی ظلم و ستم ہے جس کی زعامت امریکہ کے ہاتھ میں ہے، وہی امریکہ جو عالمی استکبار اور بڑا شیطان ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
سوال: جناب اسامہ! ان تمام تبدیلیوں کا تعلق اسلامی انقلاب کے قائد اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) کی شخصیت سے ہے۔ امام ایک مؤثر شخصیت تھے جنہوں نے ایران اور دنیا میں اہم تبدیلیوں کے اسباب فراہم کئے، عالمی رائے عامہ پر اثرانداز ہوئے، بہت سوں نے اس مسئلے کو سراہا کہ اس مرد نے اپنی تعزیری بستی (نجف اور بعدازاں پیرس) سے ایک انقلاب کی قیادت کی اور تاریخی کامیابی حاصل کی؛ آپ کی نظر کیا ہے؟
اسامہ حمدان: شاید علاقائی اور بین الاقوامی فیصلہ ساز قوتوں کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کی امید نہ تھی لیکن میرے خیال میں کئی عوامل موجود تھے جنہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی میں کردار ادا کیا۔ شاید اہم ترین عامل وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اس انقلاب کی قیادت کی اور وہ امام خمینی کی شخصیت ہے جن کی ایک نہایت نمایاں ذاتی خصوصیت انتہائی شدید بیرونی دباؤ کے مقابلے میں استقامت، ثابت قدمی اور عدم تزلزل ہے۔
سب جانتے ہیں کہ امام کا تعاقب کیا گیا ہے، انہیں پابند سلاسل کیا گیا ہے، جلا وطن کیا گیا ہے حتیٰ جلاوطنی کی زندگی میں بھی ان کا تعاقب کیا گیا ہے اور یہ سارے مسائل کسی بھی شخصیت کی پسپائی اور گوشہ عافیت میں پناہ لینے اور اپنے مقاصد چھوڑ دینے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن کامیابی کے مرحلے تک پہنچنے کی راہ میں ان کی استقامت بہت سنجیدہ تھی یہاں تک کہ شاہ کو ایران سے فرار ہونا پڑا اور بعض لوگوں نے امام کو ایران نہ جانے کا مشورہ دینے کی کوشش کی کیونکہ اس وقت ایران کی اندرونی صورت حال غیر مستحکم تھی اور کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی رونما ہوسکتا تھا، لیکن امام کا اصرار تھا کہ اس فیصلہ کن اور تاریخی مرحلے میں ایران واپس آجائیں، اور وہ وطن واپس آئے اور میرے خیال میں ان کی ایران واپسی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا اور اگر امام واپس نہ آتے تو حالات مختلف ہوسکتے تھے۔

دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ امام کی جنگ ایک عمومی اور کلی جنگ تھی اور یہ جنگ ظلم و ستم کے خلاف تھی؛ بایں معنی کہ ان کے نظریئے کے مطابق محض ایک بدعنوان استبدادی نظام حکومت کے خلاف ہی نہیں لڑنا چاہئے بلکہ جہاں بھی ظلم و ستم ہو اور اس ظلم و ستم کی شکل و صورت جو بھی ہے، اس کے خلاف جدوجہد کرنا چاہئے۔
چنانچہ، حتیٰ وہ لوگ – جن کا تصور یہ تھا کہ “امریکہ پر تنقید سیاست کے خلاف ہے” یا یہ کہ صہیونی ریاست کی سرزنش کرتے ہوئے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ “اس ریاست کو ختم ہونا چاہئے”؛ – بھی غلطی کررہے تھے۔ جب کچھ لوگوں نے امام سے مطالبہ کیا کہ آپ ان مسائل کی شدت کو کم کردیں تو آپ کا جواب بہت واضح اور صریح تھا اور وہ یہ کہ “اگر ہم ان مسائل کے بارے میں بات نہ کریں تو کس چیز کے بارے میں بات کریں؟
امام کی خصوصیت یہ تھی کہ ہمیشہ ہر مسئلے کے جڑ پر توجہ مرکوز کرتے تھے اور تمام مسائل کی جڑ در حقیقت وہی عالمی ظلم و ستم ہے جس کی زعامت امریکہ کے ہاتھ میں ہے، وہی امریکہ جو عالمی استکبار اور بڑا شیطان ہے۔
ان تمام باتوں کے معنی ایک ہی ہیں اور امام تاکید کرنا چاہتے ہیں کہ ہر مسئلے کی جڑ ہمارے ملک پر بیرونی تسلط اور اس کے ڈھانچوں اور صلاحیتوں پر تسلط، میں پیوست ہے، اور یہ مسئلہ صرف ظاہری تبدیلیوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بنیادی تبدیلیوں کا اہتمام کیا جائے۔ یہ مسئلہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ان کے سیاسی نظریئے کو تشکیل دیتا ہے: “وہ لا شرقیہ و لاغریبہ جمہوریہ اسلامیہ” کا نظریہ”۔ یعنی یہ کہ ہم ایک ظلم و ستم سے اس لئے آزاد نہیں ہوئے ہیں کہ دوسرے ظلم و ستم سے دوچار ہوجائیں؛ لہذا ہمیں حقیقی طور پر آزاد ہونا چاہئے اور حقیقی آزادی اسلام کے نفاذ کے سائے میں حاصل ہوتی ہے۔