بالی ووڈ کی عجیب ترین خصوصیات اور چربہ سازی کا ایک جائزہ

بالی ووڈ والے ہالی ووڈ کی فلموں کی چربہ سازی کے دیوانے ہیں؛ گویا ان کی خواہشوں کی انتہا یہی ہے کہ ہالی ووڈ کی کسی فلم کو اٹھا کر اس میں رقص و موسیقی کی چاشنی بھر دیں اور اس میں موجودہ معاشقے اور رونے پیٹنے کے مناظر کو چند گنا کرکے، پیش کریں۔

فاران؛ ویسے تو “بالی ووڈ” کا نام ہی “ہالی ووڈ” کا چربہ ہے جس کو پاکستانی فلمی صنعت بھی نقل کرکے اپنی فلم انڈسٹری کو “لالی ووڈ” کا نام دیتے ہیں، تاہم دنیا کی کم از کم نصف آبادی کا خیال ہے کہ بالی ووڈ کے فلمساز اپنے فلم بینوں کو نادان فرض کرتے ہیں؛ چنانچہ جہاں کوئی عجیب بات یا خبر سامنے آتی ہے، یا کوئی شیخیوں سے بھرا فلمی منظر دکھائی دیتا ہے، تو دیکھنے والے اسے “ہندی فلم” کا نام دیتے ہیں، جس نے دنیا بھر کی تمام مضحکہ خیز خصوصیات کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے: بےمعنی، لَچَر، پھیکی اور حد سے زیادہ مبالغہ آمیز۔ ہندوستانیوں نے گویا سینما کو اپنے خاص عجائب کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ بالی ووڈ کی مصنوعات میں عجیب و غریب خصوصیات کچھ کم نہیں ہیں؛ جن کے بعض نمونے یہاں پیش خدمت ہیں:
ہالی ووڈ سے بالی ووڈ تک
بالی ووڈ والے ہالی ووڈ کی فلموں کی چربہ سازی کے دیوانے ہیں؛ گویا ان کی خواہشوں کی انتہا یہی ہے کہ ہالی ووڈ کی کسی فلم کو اٹھا کر اس میں رقص و موسیقی کی چاشنی بھر دیں اور اس میں موجودہ معاشقے اور رونے پیٹنے کے مناظر کو چند گنا کرکے، پیش کریں۔ ایسی فلم کا نتیجہ سونامی سے بھی بڑھ کر کسی عظیم مصیبت کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، اور ایسی فلم اپنے زمانے کا ایک بڑا اور ناقابل توصیف مذاق بن جاتی ہے۔
پروپیگنڈا
جاننے والے جانتے ہیں کہ بالی ووڈ میں ہر سال 1000 کے قریب فلمیں تیار ہوتی ہیں اور اس لحاظ سے یہ ہالی ووڈ سے بھی آگے ہے۔ لیکن جرأت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے 999 فلموں کی داستان کسی نہ کسی پہلو سے، ہالی ووڈ کی فلموں کا چربہ ہوتی ہے۔ “چائنا ٹاؤن (China Town) جیسی کلاسیکی فلم سے لے کر، بروس آل مائٹی (Bruce Almighty) جیسی غیر کلاسیکی فلم تک، اور ان دونوں کا نتیجہ غالبا ایک دردناک اور غیر منطقی ہندی ڈرامے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
دی سائلنس آف دی لیمبز کا ڈراؤنا سپنا
بالی ووڈ کی ایک مشہور ترین چربہ سازی در حقیقت ہالی ووڈ کی فلم “دنبوں کی خاموشی” (The Silence of the Lambs) کا ہندی نسخہ ہے جس کا ہندی نام “سنگھرش” (Sangharsh) رکھا گیا ہے۔ اس فلم کی جوان پولیس افسر ایف بی آئی FBI کے بجائے سی بی آئی CBI کی ایجنٹ ہے۔ دنبوں کی خاموشی کے ہندی چربے میں ہانی بال لیکٹر (Dr. Hannibal Lecter) والا کردار (Professor Aman Verma) آدم خور نہیں ہے کیونکہ شاید ہندی میں ہانی بال کا لفظ ایسے شخص کے ہم معنی نہ ہو جو انسانوں کو کھاتا ہے۔ اس سے زيادہ عجیب نکتہ یہ ہے کہ ہندی ہانی بال ایک بےگناہ کردار ہے جو قیدخانے کی سلاخوں کے پیچھے پڑا ہے۔ وہ شدت کے ساتھ نوجوان پولیس افسر کا شیدائی بن جاتا ہے اور فلم کا آدھے سے بھی زیادہ حصہ ان دو افراد کے عشق بازانہ توہمات میں ہی گذر جاتا ہے۔ ہندی “دنبوں کی خاموشی” فلم کا ہانی بال (اکشے کمار بطور لجا شنکر پانڈے)، اور کلاریس سٹارلنگ (clarice starling) (پریٹی زنٹا) برف کے اوپر ایک دوسرے کے لئے ناچتے ہیں اور مل کر نغمہ گاتے ہیں!

ادھر ایک خستہ حال عاشق اور بھی ہے تاکہ عشق کا یہ تکون مکمل ہوسکے؛ ایسا دیوانہ عاشو جو ہر وقت اس ہندی کلاریس کو فون پر گانے سنا کر اس کا دل جیتنے کے لئے کوشاں ہے۔ خلاصہ یہ کہ بالی ووڈیوں نے دنیا کے ایک بہترین ٹریلر کا ستیاناس کر لیا ہے اور اس کو ایک رومانوی کامیڈی میں تبدیل کیا ہے، جو درحقیقت ای ڈراؤنے سپنے (Nightmare) کی مانند ہے۔ ہندوستانی نسخے کے آخر میں ثابت ہوجاتا ہے کہ “اصل قاتل” ایک دور افتادہ مندر کا رہنے والا لجا شنکر پانڈے (اداکار اشوتوش رانا) ہے جو انسانوں کا خون کرکے لا فانی (Immortal) بننا چاہتا ہے؛ ہیرو برادری جاکر قاتل کو گرفتار کرلیتی ہے لیکن ہندی قصے کا ہانی بال لیکٹر (اکشے کمار بطور پروفیسر امان ورما) اس قصے کی کلاریس (پریٹی زنٹا) کے بانہوں میں جان کی بازی ہار جاتا ہے۔
ہندی کلاریس (پریٹی زنٹا) کو بالآخر تمغۂ شجاعت دیا جاتا ہے اور فلم اختتام پذیر ہوجاتی ہے؛ جبکہ اس کی پوری توجہ ہندی لیکٹر (امان) پر مرکوز ہے، اور اس کے بارے میں خیال پردازیاں کررہی ہے۔ اس چربہ کہانی کی اصل بات یہ ہے کہ اس میں فلم کی ہدایت کارہ تنوجا چندرا نے جیل میں لیکٹر اور کلاریس کے کردار کی من و عن کپی کی ہے لیکن صرف یہ کہ داستان کے آخر تک کچھ معلوم نہ ہوتا اگر ہندی لیکٹر جیل میں بے گناہ پڑی رہتی۔ وہ کسی ہانی بال کی نقلیں اتارتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ خود کو ایک آدم خوار قاتل کے طور پر عجیب و غریب بنا کر پیش کرے۔