بھارتی فلمیں حقیقت سے کتنی قریب ہیں؟

یہ فلمیں درحقیقت افسانے ہیں، اور ان سب کا انجام بخیر ہوجاتا ہے اور اگرچہ ممکن ہے کہ ہیرو کی زندگی کے دشوار مراحل دیکھنے والوں کے آنکھوں سے آنسو جاری کر دے مگر آخرکار ہیرو اور ہیروئن کی خوش بختی یقینی ہے۔

فاران؛ جب آپ ہندی فلم دیکھنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو آپ کو ایک بات کا یقین ہوتا ہے؛ اور وہ یہ کہ دو دل دادہ عاشق، ایک دوسرے کی جدائی اور فراق میں شدید صعوبتیں جھیلنے کے باوجود، آخرکار وصال کا مزہ چکھ ہی لیں گے اور خوشبختی کو گلے لگا ہی لگیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہندی سینما ہندوستانیوں کی حقیقی زندگی سے کتنی قریب ہے؟
جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے (Deutsche Welle) کی رپورٹ کے مطابق، لامتناہی محبت، خواب جیسی خوشی، غم کا تلخ ذائقہ، شدید آزمائشوں کا سامنا، اور دو عاشق، جن کا عشق آزمائشوں کی بھٹی میں آزمایا جاتا ہے؛ یہ سب ہمیشہ کے لئے ہندی فلموں کے اجزاء ہیں جو گھسے پٹے ہونے کے باوجود، آج بھی کروڑوں انسانوں کے دل موہ لیتے ہیں اور انہیں سینما گھروں کا راستہ دکھاتے ہیں۔
یہ فلمیں درحقیقت افسانے ہیں، اور ان سب کا انجام بخیر ہوجاتا ہے اور اگرچہ ممکن ہے کہ ہیرو کی زندگی کے دشوار مراحل دیکھنے والوں کے آنکھوں سے آنسو جاری کر دے مگر آخرکار ہیرو اور ہیروئن کی خوش بختی یقینی ہے۔
اگرچہ ذات پات پر مبنی طبقاتی نظام، بھارت کے 1950ء کے آئین سے حذف کیا گیا، لیکن یہ طبقاتی نظام اس ملک کے طول و عرض – بالخصوص دیہی علاقوں میں – عوام کی زندگی کو متاثر کررہا ہے۔ چنانچہ غریب سے امیر کی اور ہندو سے مسلمان کی محبت ایک ایسا افسانہ ہے جس کو آپ ہندی سینما اسکرین پر ہی دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ حقیقت کا رنگ اور ہے۔
“غیر حقیقی کہانیاں”
دھلی، بمبئی یا کلکتہ جیسے بڑے بڑے شہر بھارت کی 120 کروڑ کی آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق سنہ 2011ء میں، دو تہائی بھارتی باشندے، دیہی علاقوں میں سکونت پذیر تھے اور ان کی روزمرہ زندگی کا اصلی ذریعہ بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر زراعت ہے۔
یونیسف کے سنہ 2011ء کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت میں 90 فیصد شادیاں بدستور والدین کی مرضی سے – “پیشگی” – انجام پاتی ہیں؛ گوکہ حالیہ برسوں میں، کچھ شہری علاقوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیاں ان کی آپس میں شناسائی کی بنیاد پر انجام کو پہنچی ہیں اور اس قسم کی شادیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
سنہ 2011ء میں بننے والی ہدایت کار میلان لوتھریا (Milan Luthria) کی فلم “دی ڈرٹی پکچر (The Dirty Picture)” میں بنیادی کردار اداکارہ ودیا بالن نے ادا کیا۔ یہ فلم مختلف گوناگوں موضوعات پر بننے والی فلموں کے تئیں ہندوستانیوں کے خیرمقدم کا ادراک کرنے کے لئے ایک اچھی مثال ہے۔
بھارت کی 80٪ آبادی ہندوؤں پر مشتمل ہے اور مسلمانوں کی آبادی 18 فیصد ہے؛ جن کے درمیان شادی بیاہ جیسے واقعات بہت نادر و نایاب ہیں؛ لیکن چونکہ یہ بھارتی معاشروں میں شجرہ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے لہذا اب تک ہالی ووڈ نے اس موضوع پر چار فلمیں بنائی ہیں۔ ہالی ووڈ اسٹارز شاہ رخ خان اور سیف علی خان معدودے چند نمونوں میں سے ہیں جنہوں نے بالی ووڈ کے مسلمان ہونے کے باوجود، ہندو عورتوں سے شادیاں کی ہیں۔
ہدایت کار کونل کولہی جس نے اپنی دو فلموں “ہم تم” اور “فنا” سے شہرت حاصل کی، اس سوال کے جواب میں کہ “بالی ووڈ کی فلمیں کس حد تک بھارتی معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟”، مایوسی کے ساتھ کہتا ہے: “اگر فلم واقعی لوگوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھیں، تو ہم سب کو ایک دوسرے کے ہونٹوں پر زیادہ ہنسی لانا چاہیے تھا، یا محبت کرنے کی زیادہ ہمت کرنا چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کبھی ہوتا نہیں”۔
مشہور بھارتی مصنف جاوید اختر کا بھی خیال ہے کہ “یہ فلمیں یقینا معاشرے کے بعض واقعات کی عکاسی کرتی ہیں، لیکن یہ سب درحقیقت آرزوؤں، امیدوں، اقدار اور ریت روایتوں کی عکاس ہیں۔ یہ فلمیں در اصل معاشرے کا مکمل آئینہ نہیں ہیں بلکہ ایسی آرزوئیں ہیں جن کا معاشرہ صرف خواب دیکھتا [یا دیکھ سکتا] ہے”۔